برطانیہ میں یونیورسٹی کالج لندن میں ماہرین نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ دماغ کس طرح لاشعوری طور پر ماضی میں پیش آنےوالے خطرات کی تفصیل یاد رکھتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق کی مدد سے درد کا علاج کیا جا سکےگا۔

ان ماہرین نے چودہ رضاکاروں پر تجربہ کے ذریعے اپنا موقف واضح کرنے کی کوشش کی۔ آدھ گھنٹے جاری رہنے والے اس تجربے میں ان افراد کو مختلف تصاویر دکھائی گئیں اور وقفے وقفے سے انتہائی معمولی طاقت کے بجلی کے جھٹکے دیئے جاتے رہے۔

جب تجربہ مکمل ہوا تو اس میں حصہ لینے والے افراد کو یہ یاد نہیں تھا کہ ان کو تصاویر کس ترتیب سے دکھائی گئی تھیں۔

لیکن دماغ کی کارروائی مانیٹر کرنے والی مشینوں نے دکھایا کہ وہ مسلسل یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ مثلاً اگر رضاکاروں کو بجلی کے جھٹکے سے پہلے گول شکل دکھائی گئی تو دماغ نے آئندہ کے لیے جان لیا کہ گول شکل اچھی خبر نہیں۔

اسی طرح اگر گول شکل سے پہلے چکور شکل دکھائی گئی تو دماغ نے سمجھ لیا کہ چکور شکل بھی کوئی اتنی خوش آئندہ بات نہیں کیونکہ اس کے بعد گول تصویر آتی ہے جس کے بعد بجلی کا جھٹکا لگتا ہے۔

تجربے میں شامل ڈاکٹر بین سیمور کا کہنا ہے کہ دماغ انتہائی غیر معمولی حیاتیاتی کمپیوٹر ہے جس میں ایک سو ارب خلیے ہیں جو ہماری سوچوں اور اعمال کا تعین کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انسانوں کو شاید ہر وقت اس بات کا احساس نہ ہو لیکن دماغ ایک انتہائی مشکل حکمت عملی کے تحت ہماری بقا میں مصروف رہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر انسان کو ایک بار کتا کاٹ لے تو وہ نہ صرف کتوں سے ہوشیار ہو جاتا ہے بلکہ ان جگہوں سے بھی کتراتا ہے جہاں کتوں کی موجودگی کا امکان ہو۔