پودے بھی خانہ بدوش ہو سکتے ہیں
پنجاب اور سندھ کے میدانوں میں رہنے والے گرمی اور لو سے تنگ آ کرمری، کاغان یا سوات کے پہاڑی علاقوں کا رخ کرتے ہیں، لیکن ایک تازہ ترین تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ پودے بھی گرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے انسانوں کی طرح زیادہ بلند جگہوں پر ٹھکانہ تلاش کرتے ہیں۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانوں یا جانوروں کی طرح پودے بھی خانہ بدوش بن سکتے ہیں اور اپنا آبائی ٹھکانا چھوڑ کر مناسب ماحول کی تلاش میں کسی اور جگہ کا رخ کر سکتے ہیں۔
مغربی یورپ کے پہاڑوں میں پودوں کی 171 نسلوں کے مشاہدے سے معلوم ہوا ہے کہ بڑھتی ہوئی عالمی تپش سے نمٹنے کے لیے ہردس برس میں پودے پہاڑوں پر تقریباً 29 میٹر یا 95 فٹ اوپر چڑھ جاتے ہیں۔ یعنی جو پودا 1995ء میں 5000 فٹ کی بلندی پر اگتا تھا، وہ 2005ء میں تقریبا 5100 فٹ کی بلندی پر پایا جاتا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ سب سے پہلا ثبوت ہے کہ عالمی تپش سے پودے کس حدت تک متاثر ہو رہے ہیں۔
اس تحقیق کے دوران فرانس اور چلی سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں نے 1905ء اور 1985ء کے دوران171 اقسام کے پودوں کی افزائش کا مطالعہ کیا اور پھر اس کا مقابلہ 1986ء اور 2005ء کے درمیان ہونے والی افزائش سے کیا۔ انھیں معلوم ہوا کہ 171 میں سے ایک تہائی پودے زیادہ بلندی پر پائے گئے۔
فرانس کے محکمہٴ جنگلات کے ریکارڈوں سے اس تحقیق میں بڑی مدد ملی۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ چوں کہ بلندی پر درجہٴ حرارت کم ہوتا ہے، اس لیے پودے اپنے لیے مناسب درجہٴ حرارت کی تلاش میں زیادہ بلندی کا رخ کر رہے ہیں۔
اس سے قبل امریکی ریاست کیلی فورنیا کے ایک سائنس دان نے خبردار کیا تھا کہ بڑھتے ہوئے درجہٴ حرارت کا مقابلہ کرنے کے لیے کیلی فورنیا کے پودے مناسب ماحول کی تلاش میں ’خانہ بدوش بن جائیں گے۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایسے پودے جن کی عمریں لمبی ہوتی ہیں، ان میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی، لیکن جڑی بوٹیوں نے بڑی سرگرمی سے بلندی کا رخ کیا۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گھاس اور جڑی بوٹیاں کی نسلوں کی عمریں بہت کم ہوتی ہیں اس لیے وہ اس تبدیلی کا مقابلہ کرنے خود کو زیادہ آسانی سے ڈھال سکتی ہیں۔ لیکن لمبی عمر رکھنے والے درخت ماحولیاتی تپش سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے کیوں کہ ان کی نسلوں کی افزائش بہت سست رفتار ہوتی ہے۔
Bookmarks