گل رخ بیگم یا گل چہرہ بیگم:
ہندوستان کی فارسی گو عورت تھی۔ بادشاہ بابر کی بیٹی اور فرقہ نقشبندیہ کے بزرگ میرزانورالدین محمد کی بیوی تھی گلبدن کی بہن اور سلیمہ کی ماں تھی۔ زمانے کی مشہور شاعرہ تھی اپنی بہن کے استقبال میں مندرجہ ذیل بیت کہا ہے:
ھیچگہ آن شوخ گلر خسار بی اغیار نیست
راست بودہ است انکہ درعالم گلی بی خار نیست
زبدۃ النساء
برصغٰر کی بارہوں صدی ہجری کی فارسی گو شاعرہ تھی۔ ہندوستان کے بادشاہ اورنگزیب کی بیٹی تھی۔ زنان سخنور میں مشیر سلمی نے اس کا نام زبیدہ بتایا ہے۔
اشعارکا نمونہ:
ہرکجائی اخلاقی، لاابابی آئینی
پندناصحان مشنو، حرف کسی مکن گوشی
زیب النساء
ہندوستان کے بادشاہ اورنگزیب کی بیٹی عالمہ، فاضلہ، عارفہ اور فارسی زبان کی شاعرہ تھی۔ زیب النساء نے تین سال کے عرصے میں قرآن مجید حفظ کیا۔ فارسی، عربی اور اردو زبان سے کافی واقفیت پیدا کرلی۔ ہیت، فلسفہ اور ادبیات میں بھی کافی درک حاصل کرلی۔ دانشمند، ادب دوست اور شاعر پرورتھی۔ ان کی حمایت کرتی یہی وجہ ہے کہ بہت زیادہ کتابیں، رسالے اور دیوان اس کے نام لکھے گئے ہیں۔ ان کے والد ہر کام میں اس سے مشورہ کرتے تھے۔ شادی نہیں کی۔ ۶۵سال کی عمر میں وفات پاگئیں۔ زیب المنشات اور زیب التفاسیر کتابیں ان کے آثار ہیں۔ نمونہ کلام:
گرچہ من لیلیٰ اساسم دل چومجنون دونواست
سربہ صحرامی زنم لیکن حیازنجیر پااست
دختر شاھم ولیکن روبہ فقر آوردہ ام
'زیب' و 'زینت' بس ھمینم نام من زیب النساء است تاریخ پاک و ہند میں اس کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ زیب النساء نے عربی اور فارسی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن پاک بھی حفظ کیا۔ شعروشاعری میں اپنے استاد ملا محمد سعید اشرف ماژندارانی سے اصلاح لی، علماء اور اہل فن کی بھر پور سرپرستی کی اور ان کے لیے ایک اعلیٰ پائے کا کتب خانہ قائم کیا۔ اشعار کا نمونہ ملاحظہ ہو:۔
بشکنددستی کہ خم درگردن یاری نشد
کوربہ چشمی کہ لذت گیردیداری نشد
صد بہار آخر شدوھرگل بہ خرقی جاگرفت
غنچہ باغ دل مازیب دستاری نشد
سلیمہ بیگم
برصغیر کی فارسی شاعرہ اور فاضلہ عورت تھی۔ گلرخ کی بیٹی اور ظہیرالدین بابر کی نواسی تھی۔ سلیمہ بیگم بڑی پاکدامن اور مومن عورت تھی۔ چاردفعہ حج کیا۔ شعروشاعری کا ذوق رکھتی تھی اور فخری ھروی کی ممدوح بھی تھی۔ تاریخ پاک و ہند میں سلیمہ بیگم کے بارے میں یوں بتایاگیا ہے۔ بابرکی نواسی سلیمہ بیگم شاعرہ تھی۔ مآثرالامراء میں اس کا تخلص مخفی بتایا گیا ہے۔ تذکروں میں اس کا صرف ایک شعر ملتا ہے۔
کاکلت رامن زمستی رشتہ جان گفتہ ام
مست بودم زین سبب حرف پریشان گفتہ ام جھان آرا بیگم
برصغیر کی فارسی گوشاعرہ اور صوفی خاتون تھی۔ ہندوستان کے بادشاہ نورالدین جھانگیر کی پہلی اولاد تھی۔ بہت ہی خوبصورت اور خوش اخلاق تھی۔ دانشمندوں اور شاعروں پر عنایات، اکرامات اور انعامات نچھاور کرتی تھی۔ ۱۰۹۲ھ ق میں وفات پاگئیں ان کی آرام گاہ دہلی میں ہندوستان کے صوفیوں کے رہبر حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار کے احاطہ میں ہے۔ بڑی شخصیت کی مالکہ تھی۔ اس کی قبر کی لوح پر یہ شعر درج ہے۔
بغیر سبزہ نپوشد کسی مزارمرا
کہ قبر پوش غریباں ھمین گیاہ بس است
مندرجہ ذیل اشعار اس مرثیے میں سے ہیں جو اس نے اپنے باپ کی موت پر کہے ہیں:
ای آفتاب من کہ شدی غائب ازنظر
آیاشب فراق تراھم بودسحر
ای بادشاہ عالم وای قبلہ جہان
بگشای چشم رحمت وبرحال من نگر
نالم چنین زغصہ وبارم بودست
سوزم چوشمع درغم ودودمرودبہ سر تاریخ پاک و ہند میں اس کے بارے میں یوں لکھا گیا ہے۔ جہان آرا بیگم نامور شہزادی ممتاز محل کی بیٹی شاعرہ اور مصنفہ تھی۔ "مونس الارواح" اس کی علمی یادگار ہے جو حضرت معین الدین چشتی اور ان کےخلفاء کے حالات پر مشتمل ہے۔
گلبدن بیگم:
ہمایون نامہ گلبدن بیگم کی تصنیف ہے۔ بابر کی بیٹی گلبدن بیگم ہمایون نامہ میں لکھتی ہیں کہ اکبر بادشاہ کی طرف سے ایک فرمان جاری ہوا کہ فردوس مکانی، یعنی بابر بادشاہ اور حضرت جنت آشیانی یعنی ہمایون بادشاہ کے بارے میں جو کچھ معلوم ہے۔ اسے تحریر میں لے آؤں۔ بابر بادشاہ جب اس دنیا سے رخصت ہوئے یہ حقیر صرف آٹھ سال کی تھی۔ اس لیے مجھے اس وقت کی باتیں اچھی طرح یاد نہیں ہیں۔ تاہم شاہی فرمان کی تعمیل میں میرے حافظہ کو جو کچھ یاد ہے یا میں نے جو کچھ سنا ہے اسے ضبط تحریر میں لارہی ہوں۔ گلبدن بیگم بڑی فیاض اور سخی خاتون تھی۔ اس نے اپنی زندگی میں بہت خیرات و صدقے کئے۔ جوں جوں بوڑھی ہوتی گئی زیادہ سخی ہوگئی اور خدا کی خوشنودی کے لیے بہت لوگوں کو خوشحال کیا۔ ۸۰برس کی عمر میں وفات پائی۔ بہت نیک، حساس، ذہین اور فرض شناس تھی۔ گھریلو معاملات کو بڑی خوش اسلوبی سے سرانجام دیتی تھی۔ ہمایون نامہ کوئی ادبی کارنامہ نہیں ہے لیکن اس کی خوبی یہ ہے کہ مصنف نے جو کچھ سنایا دیکھا اسے بڑی سادگی سے قلمبند کردیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ زمانے کے دستور کے مطابق نظمیں بھی لکھتی تھی۔ میر مہدی شیرازی نے اپنی تصنیف تذکرہ الخواتین میں گلبدن بیگم کے دو مصرعے نقل کیے ہیں۔
ہرپری روی کہ اوبا عاشق خودیارنیست
تویقین می دان کہ ھیچ ازشعرخوردارنیست
گلبدن بیگم برصغیر کی فارسی گوشاعرہ، پارسا اور عالمہ فاضلہ عورت تھی۔ ظہیرالدین بابر کی بیٹی ہمایون اور گلرخ کی بہن تھی۔ خراسان میں پیدا ہوئی۔ چھ سال کی عمر میں اپنی والدہ دالدار بیگم کے ہمراہ ہندوستان آئی۔ اپنے باپ اور بھائی کے سایہ تلے پلی بڑھی۔ فارسی اور ترکی ادبیات کی انشاء سیکھی اور دوسرے فنون حاصل کیے اور ہمایون شاہ کے صدراعظم حضرت خواجہ چغتائی سے شادی کرلی۔
گیارھویں صدی ھجری کی برصغیر کی فارسی گوشاعرہ تھی۔ یہ بھی جہانگیر کی بیویوں میں سے ایک ہے۔ بڑی خوبصورت اور فی البدیہہ خاتون تھی۔ جہانگیر کے ساتھ اور اس کی بیوی نورجہان کے ساتھ بھی شعر میں ہنسی مذاق کرتی تھی۔ جیسے مندرجہ ذیل اشعار:
چھراویک خلدحوروروی اویک عرس نور
خط اویک گلہ موروزلف اویک سلہ مار
دردولعل می خروشش ھرچہ درصہبا سرمد
دردوچشم بادہ نوشش ھرچہ درمستی خمار
ارغوان عارضش راحسن وطلعت رنگ وبوی
پرنیاں پیرکش رالطف و خوبی پوروتار
یہ بھی اس کے اشعار ہیں:
حدیث عشق من خوانی ودل بادیگران بندی
دوتیغ آخر نمی دانم چساں دریک نیام آیند

دل آرام:
گیارھویں صدی کی فارسی گوشاعرہ تھی جو جہانگیر کی بیویوں میں ایک تھی۔ کہتے ہیں کہ ایک دن جہانگیر ایک شاہزادے کے ساتھ شطرنج کھیل رہا تھا۔ یہ طے ہوا کہ ہارا شخص جیتنے والے کو اپنی بیویوں میں سےایک دے گا۔ بالکل قریب تھا کہ جہانگیر ہارجائے اس بارےمیں اپنی عورتوں سے مشورہ کیا۔ نورجھان نے جس کا تخلص جہان تھا۔ مندرجہ ذیل شعر کہا:
توبادشاہ جھانی جھان ازدست مدہ
کہ بادشاہ جہان راجہان بہ کارآمد

مہرالنساء/نورجہان
ہندوستان کی ملکہ جس کا لقب نورجہان ہے۔ شاعرہ، تجربہ کار،ہنرمنداور مدبرخاتون تھی۔ یہ خواجہ غیاث الدین محمد کی بیٹی جو قابل احترام خاندان خواجہ محمد شریف تہرانی کابیٹا تھا اور کئی سال خراسان کے گورنر کا وزیر رہا ہے۔ نورجہان قندھار کے بیابان میں پیدا ہوئی۔ باپ نے نام مہرالنساء رکھا۔ اس کا باپ تجارت کے سلسلے میں ہر سال ہندوستان کے شہنشاہ اکبر کے لیے تحفے تحائف لے جاتا کرتا تھا۔ اس کی سفارش سے خواجہ نے اکبر بادشاہ کے دربار تک رسائی حاصل کی۔ اکبر نے اس کی بہت دلجوئی کی اور اس نے اپنی قابلیت اور علم کی وجہ سے بہت جلد ترقی کرلی۔ جہانگیر بادشاہ کی سلطنت کے شروع میں اس کو اعتماد الدولہ کا لقب ملا۔ خواجہ کی بیوی اور بیٹی اکبر بادشاہ کے حرم کے اندر آمدورفت کرتی تھیں۔ میرزاغیاث کی بیوی نے قابلیت، شائستگی اور مختلف ہنرمندیوں کی وجہ سے بادشاہ کی بیٹیوں کی سرپرستی اور تربیت اس کے حوالے کردی گئی۔ مہرالنساء بھی اپنی ماں کے ساتھ شہزادیوں کے محلوں میں سیھکنے اور تربیت میں شریک رہی۔ تھوڑی مدت کے بعد مہرالنساء نے نمایاں ترقی کرلی اور آگے بڑھی۔ خوبصورتی اور خوش کلامی میں دوسروں کے برابر ہوگئی۔ اچھے ذوق، موزوں اور پسندیدہ طبیعت کی مالک تھی۔ اسی دلیل کی بناء پر اپنی اچھی اچھی اور پرکشش باتوں سے شاہی دربار کی بہت سی عورتوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرادی۔ سولہ سال کی عمر میں سواری اور تیر اندازی سیکھ لی۔ شہزادہ خرم جو بعد میں جہانگیر کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کا عاشق ہوگیا۔ لیکن اکبر بادشاہ نے اس بات کی مخالفت کی۔ اکبر کے اشارے سے خواجہ نے اس کی شادی علی قلی خان سے جو شیرافگن کے نام سے مشہور تھا کردی اور مہرالنساء بعد میں شیرافگن کے قتل ہونے کے بعد جہانگیر کی بیوی بن گئی۔ یہ خاتون کفایت شعار، خوبصورت، تجربہ کار اور باسلیقہ تھی۔ جلدہی اپنے شوہر کا دل موہ لیا سکہ کی ایک رخ پر جہانگیر اور نورجہان کی تصویر تھی اور دوسری طرف یہ بیت:
بہ حکم شاہ جہانگیر یافت صدزیور
بہ نام نورجہان بادشاہ بیگم زر
نورجہان کےمشورے کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا تھا اس صرف شاھانہ کاموں میں کمال حاصل نہیں تھا بلکہ شعر کے سلیقے، ذوق بے نظیر اور کہنے میں بھی بے مثال تھی۔ مندرجہ ذیل بیت اسی کا ہے جو اس کے مزار کی لوح پر لکھا گیا ہے۔
برمزار ماغریبان نی چراغی نی گلی
نی پرپروانہ سوزد نی صادی بلبلی
ایک موقع پر جہانگیر نے یہ شعر کہا:
بلبل نیم کہ نعرہ کشم درد سرد ھم
پرونہ ئی کہ سوزم ودم برنیا ورم
نورجہان نےفوراً جواب دیا:
پروانہ من نیم کہ بہ یک شعلہ جان دھم
شمعم کہ شب بسوزم ودم برنیا ورم
ٍ وای بر شاعران نادیدہ
غلطی را بہ خود پسندیدہ
سرورا قد یار می گویند
ماہ را روہ اوسنجیدہ
ماہ کرمی است ناتمام عیار
سرو چوبی است ناتراشیدہ
تاریخ ادبیات پاک و ہند میں نورجہان کے بارے میں یوں لکھا گیا ہے۔ "نورجہان بیگم نورالدین محمد جہانگیر کی رفیقہ حیات ایک عالمہ اور فاضلہ خاتون تھی حسق ذوق اور علم و ادب کی دولت سے سرفراز تھی۔ جہانگیر کی رفاقت حیات سے اس کی علمی صلاحیتیں اور بھی نمایاں ہوئیں نورجہان کی بدیہہ گوئی کے لطائف آج بھی زبان زدعوام ہیں ایک دن جہانگیر نے ایسا لباس پہنچا جس کا ایک تکمہ (بٹن) لعل بے بہا کا تھا نورجہان نے اسے دیکھتے ہی یہ شعر کہا:
ترانہ تکمہ لعل است برقبای حریر
شدہ است قطرہ خون منت گریہ با جہانگیر تزک جہانگیری میں اس کے بارے میں یوں لکھا گیا ہے:۔
نورجہان جہانگیر کے دل میں اتنا گھر کر چکی تھی کہ سوائے خطبہ تمام کاروبار اس کے حکم سے سرانجام پاتے وہ تھوڑی دیر کے لیے جھروکہ میں بیٹھتی امراء اور وزراء حاضر ہو کر آداب بجالاتے اور احکامات سنتے تھے اس کے نام کا سکہ چلتا تھا۔