واہ بھئی، کیا کہنے
بہت عمدہ نظم ہے
اور بہت اچھا ڈیزائن کیا ہوا ہے
ویسے میری معلومات کے مطابق آپ نے نظم کا کچھ حصہ غلطی سے حذف کر دیا ہے
اور ہاں، خوابوں کا تاوان اتنا کم نہیں ہوتا کہ صرف آنکھیں بیچ کر پورا ہو سکے
.
خواب سجانے والی آنکھیں
پل بھر میں بنجر ہو جاتی ہیں
پہروں جاگتی رہتی ہیں
اک ہی راستہ بس تکتی جاتی ہیں
جانے کیوں بات بے بات وہ
اشکوں کا سمندر ہو جاتی ہیں
خواب سجانے والی آنکھیں
خزاں رسیدہ پتوں کی مانند
جھڑتی اور بکھرتی جاتی ہیں
من میں ہزاروں وسوسے لیے
اسی کو بس سوچتی رہتی ہیں
اسی کو بس مانگتی رہتی ہیں
خواب سجانے والی آنکھیں
کیوں ایسے بنجر ہو جاتی ہیں
Bookmarks