قادیانیت یا کادیانیت اورمرزا غلام احمدکی جھوٹی مہدویت

مولانا شاہ عالم گورکھپوری -


قادیان ضلع گورداسپور( پنجاب) کا ایک گاؤں ہے جو ترقی کرکے اب قصبہ کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔ مرزا غلام احمد اسی گاؤں میں ۱۸۳۹ء میں پیدا ہوا،یہ تاریخ پیدا ئش خود اسی کی لکھی ہوئی ہے ۔( کتاب البریہ خ ج ۱۳ ص ۱۶۴)

رائے کالی رائے صاحب اکسٹرا اسسٹنٹ ڈپٹی کلکٹر نے ’’سیر پنجاب ‘‘مؤلفہ ۱۸۴۶ء میں سرکاری طور پر پنجاب کے اہم مقامات کی تاریخ مع وجہ تسمیہ لکھی ہے۔ اس میں تفصیل سے لاہور ، بٹالہ ،گورداسپور ،امرتسر وغیرہ کا تذکرہ تو ملتا ہے لیکن ’’ قادیان ‘‘ نامی کسی جگہ کا تذکرہ نہیں ملتا ۔مرزا کادیانی نے ا س گاؤں کی وجہ تسمیہ میں لکھا ہے کہ اس کا اصل نام ’’اسلام پور‘‘ تھا۔ چونکہ اس علاقے میں بھینسیں زیادہ پالی جاتی تھیں۔ اس وجہ سے اس کا نام ’’ماجھی‘‘ پڑگیا پھر ’’قاضی ماجھی ‘‘ نام پڑا، پھر بگڑتے بگڑتے قادی اور قادیاں بن گیا ( کتاب البریہ خزائن جلد ۱۳ ص ۱۶۴)اس بات کی تصدیق کسی قدیم مستند تاریخی کتاب میں ہمیں نہیں ملی۔ لہٰذا مرزا کی بیان کردہ تحقیق پر اعتمادکرنے کی کوئی وجہ نہیں دکھائی دیتی۔ ہاں، اس کی بیان کردہ دیگر تواریخ میں غلط بیانی اور جھوٹ کی وجہ سے اس پر اعتماد نہ کرنا ہی مناسب فیصلہ ہوگا ۔مرزا نے بھی مرزائیوں کو اسی بات کی نصیحت کی ہے کہ ’’ جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہوجائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا۔ ‘‘ ( چشمۂ معرفت خزائن جلد ۲۳ ص ۲۳۱)


قادیان نامی گاؤں کی تاریخی اصلیت کیا ہے؟ اور اس کے صحیح حروف کیا ہیں ؟چھوٹی کاف سے ’’ کادیان ‘‘ لکھا پڑھا جائے یا بڑی قاف سے ’’قادیان ‘‘ لکھا جائے۔ اس سے کسی کو غرض ہی کیا ؟ نہ معلوم کتنے گاؤں کے نام بدلتے بگڑتے رہتے ہیں اورجب کسی گاؤں یا شہرکے نام بدلنے یا بگڑنے سے کسی کے مذہب یا عقیدے میں کوئی فرق نہ آتا ہوتو اس تبدیلی کو موضوع بحث بنانے کی لغویت میں ایک درجہ کا اوراضافہ ہوجاتا ہے ۔لیکن اگراس تبدیلی کا تعلق کسی خاص عقیدہ سے ہو اور مذہب سے یہ معاملہ جڑجاتا ہو توپھر اس کی تحقیق کی اہمیت سے کس کو انکار ہوسکتا ہے ؟اور اگر کسی خاص دعوے کا مرکز و محور ہو پھر تو اس کی مکمل تحقیق کرکے مدعی کے صدق و کذب کو واضح کرنا لازم ہوجاتا ہے ۔

یہی معاملہ لفظ ’’قادیان ‘‘اور مرزا کی مذکورہ تحقیق کا ہے ۔ جب تک مرزا نے اس کو دعوئ مہدویت کے ثبوت میں پیش نہیں کیا تھا تو کسی کو اس کی تحقیق کی ضرورت نہیں تھی ، لیکن سب سے پہلے ۱۸۹۶ء میں اُس نے اپنے دعوئ مہدویت کے ثبوت میں ا س بات کا انکشاف کیا کہ چودہ سوسال پہلے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے کادیان نامی گاؤں کا نام لے کر پیشین گوئی فرمائی ہے کہ اس گاؤں میں مہدی پیدا ہوگا اور نہ صرف یہ کہ اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کیا بلکہ اس پیشین گوئی کو اپنے دعوئ مہدویت کا ایک بڑا ثبوت قرار دیا ۔


مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ مرزا کادیانی نے مہدی ہونے کا دعویٰ ا س سے بہت پہلے ۱۸۹۱ء میں پیش کردیا تھا لیکن اس دلیل کی خبر اُسے دعویٰ کے کئی سال بعد ۱۸۹۶ء میں ہوئی ۔اس طویل مدت کے دوران فرشتوں کے نام پر اس کے پاس آنے والے شیاطین نے نہ کچھ مرزا کو بتایا اور نہ ہی اس کی ملہمیت کام آئی ۔ بیٹھے بٹھائے اچانک ایک دن اسے ایک ایسی کتاب ہاتھ لگی جس کی خبر چودہ سو سال تک میں کسی محدث مفسر کونہ ہوئی تھی ۔ اس کتاب کے حوالے سے مرزا کے مہدی ہونے کی دلیل خود اسی کے قلم سے پڑھئے۔

’’ شیخ علی حمزہ بن علی ملک الطوسی اپنی کتاب جواہر الاسرار میں جو ۸۴۰ میں تالیف ہوئی تھی ۔ مہدی موعود کے بارے میں مندرجہ ذیل عبارت لکھتے ہیں: ’’ در اربعین آمدہ است کہ خروج مہدی از قریہ کدعہ باشد ۔ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم یخرج المہدی من قریۃ یقال لہا کدعہ ۔۔۔یعنی مہدی اس گاؤں سے نکلے گا جس کا نام کدعہ ہے ۔ یہ نام در اصل قادیان کے نام کو معرب کیا ہوا ہے۔ ‘‘ ( ضمیمہ انجام آتھم، خزائن ج ۱۱ ص ۳۲۵، مؤلفہ ۱۸۹۶ء)

مرزا کادیانی مسلسل اپنے اس خود ساختہ دلیل کو قوی دلیل منوانے کی فکر میں لگا رہا اور کئی صفحات سیاہ کرڈالے ، لیکن علماء اسلام نے اس جانب کوئی خاص توجہ اس لیے نہیں دی کہ ان کے سامنے مرزا کے اس سے زیادہ اہم دعاوی پہلے سے تھے جوقابل گرفت تھے۔چنانچہ میدان خالی سمجھ کرجو بات جواہر الاسرار اور اربعین کے حوالہ سے تھی۔ مرزا نے جنوری ۱۸۹۸ء کی اپنی ایک تصنیف ’’کتاب البریہ‘‘ میں اس کو براہ راست احادیث صحیحہ کی صف میں شامل کردیا ۔ اس میں لکھتا ہے:

’’ ایسا ہی احادیث صحیحہ میں یہ بھی بیان فرمایاگیا ہے کہ وہ مہدی موعود ایسے قصبے کا رہنے والا ہوگا جس کا نام ’’ کدعہ یا کدیہ ‘‘ ہوگا ۔ اب ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ لفظ کدعہ در اصل قادیاں کے لفظ کا مخفف ہے۔ ‘‘ ( کتاب البریہ، خزائن ج ۱۳ ص ۲۶۰، مؤلفہ ۱۸۹۸ء )



ناظرین ! آپ نے دونوں عبارتوں کو بغور پڑھ لیا ہوگا کہ انگریزی دلال کن کن حوالہ سازیوں اور حیلہ بازیوں سے مہدی کے منصب پر براجمان ہونے کی فکر میں ہے ۔مرزا کی ان شاطرانہ چالوں کے پیش نظر ظاہر ہے کہ مسلمانوں کومرزائیت کی گمراہی سے بچانے کے لیے لفظ ’’ کدعہ اور قادیان‘‘ کی تحقیق اب ہر پڑھے لکھے شخص کی مجبوری بن جاتی ہے تاکہ ا س کی حقیقت کے تناظر میں مرزا کے جھوٹے دعویٰ کو طشت از بام کیا جاسکے ۔

اس سلسلہ میں ہمارے قارئین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ’’ جواہر الاسرار‘‘ نامی کتاب حدیث شریف کی نہ کوئی مستند و معتبر کتاب ہے اور نہ ہی شیخ حمزہ کوئی محدث ہیں ۔دوسری بات یہ ہے کہ جس کتاب کے حوالے سے یہ خود ساختہ دلیل پیش کی جارہی ہے۔ عوام کے سامنے نہ مرزا نے اس کا کوئی نسخہ پیش کیا،اور نہ ہی کوئی مرزائی پیش کرسکتا ہے ۔اس موقع پر پڑھے لکھے لوگوں کو جو حیرت ہوتی ہے۔ وہ اس پر نہیں کہ مرزا ہوا میں تیر چلا رہا ہے بلکہ ا س کی دلیری اور بے حیائی پر ہوتی ہے کہ کسی کے سر کچھ کا کچھ منڈھ دینے اور کچھ کا کچھ بنا دینے میں وہ کس قدر بے باک ہے ۔مرزائیوں سے مذکورہ کتاب طلب کی جاسکتی ہے کہ کہاں شیخ حمزہ نے لکھا ہے اور ’’ کدعہ ‘‘ دال کے ساتھ کہاں لکھا ہے جو قادیان کا معرب ہوگیا ۔یہ سب کچھ مرزا کے بائیں ہاتھ کا کمال ہے اور بس!

ایک ضعیف درجہ کی حدیث میں ’’ یخرج المہدی من قریۃ یقال لہا کرعہ ‘‘ کے الفاظ ملتے ہیں یعنی حرف ’’ را‘‘ کے ساتھ ’’ کرعہ ‘‘ ہے نہ کہ ’’ دال ‘‘ کے ساتھ یا ’’ کدیہ ‘‘ ’’ ی‘‘ کے ساتھ ۔جس کو میزان الاعتدال میں علامہ ذہبی ؒ نے نقل کرکے اسکے ضعیف راویوں پر سخت جرح کی ہے اور اس کو موضوع بتایا ہے۔ (میزان الاعتدال ج ۲ ص ۶۸۰) یعنی موضوع حدیث میں اگر کوئی لفظ ہے بھی تو ’’ کرعہ ‘‘ چھوٹی کاف اور ’’ را‘‘ کے ساتھ ہے اور تمام محدثین نے ا س کی وضاحت کی ہے ۔ اس سے مراد یمن کی ایک بستی ہے نہ کہ ہندوستان کا قادیان نامی گاؤں جس کو مرزا نے خود ہی ایک جگہ لکھا ہے کہ قادیان میں ناپاک فطرت یزیدی الطبع اور پلید لوگ رہتے ہیں ۔( ازالۂ اوہام )



اگر مرزا کی مراد یہی حدیث ہے تو ظاہر ہے کہ مرزا کادیانی نے اس میں بہت بڑی خیانت کی ہے۔

(۱) سب سے پہلے حرف’’ ر ‘‘کو ’’د‘‘ سے بدل دیا ۔ کرعہ کو کدعہ کردیا۔

(۲) دوسرے نمبر پر’’کادیان‘‘ کے حروف سے مشابہت پیدا کرنے کے لیے کدعہ کو بھی ’’ کدیہ ‘‘ بنادیا یعنی حرف ’’ع‘‘ کو ’’ ی ‘‘ سے تبدیل کردیا ۔

(۳) تیسری خیانت یہ کی کہ ’’ کرعہ ‘‘ لفظ کو ’’ کادیان ‘‘ کا ایک جگہ معرب بتایا اور دوسری جگہ ’’ مخفف ‘‘ بتادیا ۔معرب کا مطلب تو یہ ہوگا کہ عجمی لفظ کو عربی میں بدل دیا گیا ہے اور مخفف کا مطلب یہ ہوگا کہ عربی میں تبدیل نہیں کیا گیا بلکہ اس عجمی لفظ میں بعض حروف کو حذف کیاگیا ہے۔پڑھے لکھے لوگ جانتے ہیں کہ عجمی لفظ کی عربی بنانے یا کسی لفظ میں تخفیف کرنے کے قواعد الگ الگ ہیں اور دونوں قواعد یہاں نہیں پائے جاتے ۔یہ سب کچھ خواہی نہ خواہی قادیان کو حدیث کا مصداق بنانے کے دھن میں اندھے پن کا کرشمہ ہے ۔

(۴) چوتھے نمبر پر آپ غور کریں کہ ان ساری خیانتوں پر جھوٹ کا پشتارا یہ چڑھایا کہ ’’ احادیث صحیحہ میں یہ بیان فرمایا گیا ہے ‘‘ یعنی ایک دو حدیث نہیں ایسا لگتا ہے کہ گویا بہت سی صحیح احادیث میں مہدی کے ’’کدعہ یا کدیہ‘‘ نامی گاؤں میں آنے کا ذکر ملتا ہے ۔جبکہ ایک جگہ جب خود کو احادیث کا مصداق بنانے سے قاصر رہتا ہے تو اپنی سابقہ تحریروں کے خلاف فروری ۱۸۹۹ء میںیہ بھی لکھ دیتا ہے کہ مہدی کے سلسلے میں جتنی روایات ہیں یا تو سب موضوع اور غلط ہیں۔ ہرگز قابل وثوق و قابل اعتبار نہیں یا پھرضعیف، متناقض اور پایۂ اعتبار سے ساقط ہیں ۔ اور اگر کچھ صحیح ہیں بھی تو کسی پہلے زمانے میں وہ پوری ہوچکی ہیں اب کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں ۔ (خلاصہ حقیقت المہدی،مؤلفہ ۱۸۹۹ء)سوال یہ ہے کہ جب نہ کوئی صحیح حدیث ہے نہ حالت منتظرہ باقی ہے تو کادیان کو کرعہ کی مصداق بنانے والی بے شمار صحیح احادیث کہاں سے ٹپک پڑیں ؟

(۵) اور اپنی تحقیق ایسی کتاب کی جانب منسوب کردی جس کا کچھ پتا ہی نہیں ۔اور بفرض محال اگر جواہر الاسرارنامی کوئی کتاب ہو بھی تو ا س میں یہ روایت حرف ’’را‘‘ کے ساتھ درج ہوگی جیسا کہ دیگر محدثین نے لکھا ہے نہ کہ ’’دال ‘‘ کے ساتھ ہوگی جس کو مرزا نے قادیان کا معرب بنا دیا اور اس پر اپنی جھوٹی مہدویت کی عمارت کھڑی کر لی۔

مذکورہ روایت کے سلسلے میں اس مختصراً وضاحت کے بعد قابل غور نکتہ یہ ہے کہ بقول مرزا ’’ قادیان ‘‘ کی عربی’’ چھوٹی کاف‘‘ سے ’’ کدعہ ‘‘ بنائی گئی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے بڑی ’’ قاف ‘‘ کہ جگہ چھوٹی کاف کا حرف ادا ہوا ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا اہل عرب کے نزدیک ’’ ق اور الف ‘‘ مستعمل نہیں جو عجمی نام کی عربی بنانے کے لیے خواہمخواہ ’’ ک‘‘یا ’’ د‘‘ کے بعد ’’ ع ‘‘ کو مستعار لیاگیا ؟ ا س سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصل لفظ ’’قادیان ‘‘بھی نہیں بلکہ ’’ گادیان‘‘ یا ’’ گدہان ‘‘ہوگا ۔ چونکہ اہل عرب ’’ گ ‘‘ اور’’ دھ ‘‘نہیں استعمال کرتے تو ان کی جگہ ’’ ک ‘‘ اور ’’ ع ‘‘کولے لیا گیا ہوگااور مرزا کی تحقیق کے مطابق ’’ماجھی ‘‘ جو بولا جاتا ہو وہ اس وجہ سے ہو گا کہ وہاں گدھے زیادہ پالے جاتے ہوں گے۔ مرزا جی نے جیسے ’’ را‘‘ کو ’’ دال‘‘ سے بدل دیا ویسے ہی گدھوں کو بھینسوں سے بدل دیا ہے ۔