جناب اداسی صاحب آپ نے صحیح کہا کہ بات دلیل سے دینے چاہیے.
آپ نے شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کا حوالہ دیا تو جناب آیئے ہم خود ہی دیکھتے ہیں کہ امام شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کا کیا مسلک تھا اور کیا نظریہ تھا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور تقلید کے بارے میں.
آپ تقلید کو بلکل حرام کہہ رہے ہیں لیکن آپ کے نذیر حسین دہلوی صاحب تو امام شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی کتاب کا حوالہ دے کر تقلید کو واجب قرار دے رہے ہیں اور ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس تقلید کو شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے واجب قرار دیا.
اب اگر آپ کہتے ہیں کہ شاہ ولی اللہ رھمہ اللہ تقلید کے خلاف تھے لیکن اپ کے عالم صاحب کہتے ہیں کہ شاہ ولی اللہ رھمہ اللہ تقلید کو واجب قرار دیتے تھے.
چلیں ساتھ شاہ ولی اللہ رھمہ اللہ کی اصل کتاب کا حوالہ بھی دیکھ لیں کہ ان کا فقہ حنفی کے بارے میں کیا موقف تھا.
حضـرت شـاه ولـي الله الدهـلوي رحمـة الله عليه اورمـذاهـب أربـعــه
حکیم الاسلام حضـرت شـاه ولـي الله الدهـلوي رحمـة الله عليه کی ذات گرامی کسی تعارف وتعریف کی محتاج نہیں ہے ، آپ کی ساری زندگی اسلام وعقائداسلام وعلوم دینیہ کی نشرواشاعت میں بسرہوئ ، ہندوستان میں مسند حدیث آپ نے ہی بچهائ ، اورآپ کے درس وتعلیم سےبے شمارمخلوق کوفائده پہنچا ، اورلاتعداد تشنگان علوم کوآپ نے سیراب کیا ، آپ کا وجود خطہ ہند پرخصوصا اورپوری دنیا پرعموما ایک بہت بڑا احسان الہی تها ، ہندوستان میں غالی وشیعہ وروافض کا دور دوره تها ، تقریبا پورے ہندوستان پران کا تسلط تها ، بدعات ومحدثات ورسومات راسخ ہوچکی تهیں ، اورسنت کے آثارتک مٹ رہے تهے ، حتی کہ الله تعالی نے اپنی سنت جاریہ کے مطابق آپ کوپیدا کیا ، الله تعالی نے آپ کے ذریعہ ملت حنیفیہ کے ستونوں کومضبوط کیا ، قرآن وسنت کے علوم کی صحیح بنیاد ڈالی ، اورقوم کی بدحالی کا مداوا کیا ، اورپهراسی تحریک ولی اللهی کوآپ کے نسبی اولاد واحفاد نے پروان چڑهایا ، اورپهراسی تحریک ولی اللهی کو آپ کے روحانی فرزندوں نے یعنی علماء حق علماء دیوبند نے مزید پختہ ومضبوط کیا ، اوراس کے حسن وبہارمیں مزید اضافہ کیا ، اورپورے عالم میں اس کے نوروضیاء کو پهیلا دیا
اب مذاهب اربعہ کے بارے میں حضـرت شـاه صاحب رحمة الله عليه کا حکم وفیصلہ پڑهتے ہیں ۰
يقول الإمام القدوة العلامة المفسرالمحدث الحافظ الحجة الفقيه المحقق الصوفي الزاهد الوَرِع سراج الهند ومسندالوقت وسيدالطائفة الشيخ الشاه ولي الله الدهلوي رحمة الله عليه
{{ باب ـ تاكيد الأخذ بهذه المذاهب الأربعة والتشديد فى تركها والخروج عنها
حضرت شاه صاحب رحمة الله عليه نے باب اس عنوان سے قائم کیا ، یعنی مذاهب اربعہ کولینے ان پرعمل کرنے کی تاکید اور مذاهب اربعہ کو چهوڑنے اوران سے نکلنے کی تشدید کے بیان میں ،
پهرحضرت شاه صاحب رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ خوب جان لو کہ ان چاروں مذاهب
{ حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، } کواخذ کرنے ( ان کولینے اوران پرعمل کرنے ) میں بڑی عظیم مصلحت ہے ، اوران چارمذاهب سے اعراض کرنے میں یعنی مذاهب اربعہ کو چهوڑنے میں بڑا فساد ہے ، اورهم اس کوکئ وجوهات سے بیان کرتے ہیں ،
1 = ایک یہ کہ امت نے اجماع واتفاق کرلیا ہے اس بات پرکہ شریعت کے معلوم کرنے میں سلف پراعتماد کریں ، پس تابعین نے (شریعت کی معرفت میں ) صحابه کرام پراعتماد کیا ، اورتبع تابعین نے تابعین پراعتماد کیا ، اوراسی طرح ہرطبقے ( اورہرزمانہ ) میں علماء نے اپنے اگلوں پراعتماد کیا ، اورعقل بهی اس ( طرزعمل ) کی حسن وخوبصورتی پردلالت کرتی ہے ، اس لیئے کہ شریعت کی معرفت وپہچان نہیں ہوسکتی مگرنقل اوراستنباط کے ساتهہ ، اور نقل درست وصحیح نہیں ہوسکتی مگراس طرح کہ هرطبقہ پہلوں ( سلف ) سے اتصال کے ساتهہ اخذ (حاصل ) کرے ، اور استنباط میں ضروری ہے کہ متقدمین ( پہلوں ) کی مذاهب کو پہچانے ، تاکہ ان کے اقوال سے نکل کر خارق اجماع یعنی اجماع کو توڑنے والا نہ ہوجائے ، اوراس پربنیاد رکهے اوراس بارے میں جوپہلے گذر چکے ( یعنی سلف صالحین )ان سے استعانت کرے ،
اس لیئے تمام صناعتیں جیسے صرف ، اورنحو ، اورطب ، اورشعر ، اور لوہاری کا کام ، اوربڑهئ ( فرنیچر کا کام ) ، اورسناری ( وغیره جتنے بهی فنون ہیں ) حاصل نہیں ہوسکتے ، مگران (فنون وامور) کے ماہرلوگوں کی صحبت کولازم پکڑنے سے ، اوربغیر( ماہرلوگوں کی صحبت ) کے ان (فنون وامور) کا حاصل ہوجانا واقع نہیں ہے نادر اوربعید ہے اگرچہ عقلا جائزہے ،
اور جب سلف کے اقوال پر (شریعت کی معرفت میں ) میں اعتماد متعین ہوگیا ، تواب ضروری ہے کہ ان کے وه اقوال جن پراعتماد کیا جاتا ہے وه صحیح سند کے ساتهہ مَروی هوں ، یا کتب مشہوره میں جمع (ومحفوظ ) ہوں ، اورجو محتملات ہیں ان میں راجح کوبیان کردیا جائے ، اورعموم کو بعض مقامات پرخاص کیاجائے ، اوربعض مواضع میں مطلق کومقید کیاجائے ، اورمختلف فیہ میں جمع کیاجائے ، اوراحکام کی علتیں بیان کی جائیں ، ورنہ ( اگر یہ صفات نہ هو ) تواس پراعتماد صحیح نہیں ہے ، اوراس اخیرزمانے میں کوئ مذهب اس صفت کے ساتهہ ( متصف ) نہیں ہے ، سوائے ان مذاهب اربعہ کے ،
ہاں مذهب امامية اور زيدية بهى ہیں لیکن وه اہل بدعت ہیں ان کے اقوال پراعتماد جائزنہیں هے،
2 = رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا " اتبعوا السوادالأعظم " سواد اعظم (بڑی جماعت) کی اتباع کرو، اور جب ان مذاہب اربعہ کے علاوہ باقی سچے مذاہب مفقود ہوگئے توان مذاہب کا اتباع سواد اعظم کا اتباع ہے اور ان سے خروج سواد اعظم سے خروج ہے۰
3 = جب زمانہ طویل وبعید ہوگیا ، اورامانات ضائع ہوگئے ، توپهراس حال میں علماء سُوء ( برے علماء ) ظالم قاضیوں میں سےاوراپنے خواہشات کے پیروکار مفتیان کے اقوال پراعتماد جائزنہیں ہے ، یہاں تک کہ وه (علماء سُوء ) اپنے اقوال کو صريحا یا دلالة بعض سلف کی طرف منسوب کریں جوصدق وديانت وامانت کے ساتهہ مشہور ہیں ،اوراسی طرح اس شخص کے قول پربهی اعتماد جائزنہیں ہے جس کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ آیا اس میں اجتہاد کی شرائط جمع تهیں یا نہیں ؟ الخ
حضرت شاه صاحب رحمة الله عليه کا فیصلہ وتبصره بالکل واضح ہے ، مزید توضیح وتشریح کی ضرورت نہیں ہے ، مذاهب اربعہ کو چهوڑنے والے اوراعراض کرنے والے لوگ حضرت شاه صاحب رحمة الله عليه کی بصیرت افروز وحکمت آمیزبیان کے مطابق بہت بڑے فساد میں مبتلا ہیں ، یقینا یہ بیان بالکل صحیح ہے آج ہم اس بات کا خوب مشاہده کر رہے ہیں ، الله تعالی لامذہبیت سے ہماری حفاظت فرمائے ، جودرحقیقت جہالت وفساد کا راستہ ہے ۰
پهرحضرت شاه صاحب رحمة الله عليه نے اپنے اس فیصلہ وبیان کہ { چاروں مذاهب کولینے اوران پرعمل کرنے میں بڑی عظیم مصلحت ہے ،اوران چارمذاهب سے اعراض کرنے میں بڑا فساد ہے } کی وجہ اوردلیل یہ بیان کی کہ امت نے اس بات پراجماع کرلیا ہے کہ دین وشریعت کو معلوم کرنے سلف صالحین پراعتماد کریں گے ، یعنی دین کو جس طرح انهوں نے سمجها اور عمل کیا ایسا ہی هم بهی کریں گے ، اورتابعین عظام نے دین وشریعت کوسمجهنے اورعمل کرنے میں صحابہ کرام پر اعتماد کیا ، اورپهرتبع تابعین نے تابعین پراعتماد کیا ، اورآخرتک یہی سلسلہ چلتا رہا الخ
شاه صاحب رحمة الله عليه نے مذاهب اربعہ کولازم پکڑنے لازم پکڑنے کا استدلال اس حدیث سے بهی کیا کہ " اتبعوا السوادالأعظم جماعت کثیر کی پیروی کرو اور وه مذاهب حقہ میں سے صرف مذاهب اربعہ ہی ہیں ، کیونکہ باقی مذاهب حقہ کا وجود ختم ہوگیا ، لہذا اب مذاهب اربعہ سے خروج سواد اعظم سے خروج ہے ، جس سواد اعظم کی اتباع کا حکم حدیث میں دیا گیا ہے
{ عقدالجيد في أحكام الإجتهاد والتقليد ، ص 39 ، 40 ، الناشردارالفتح }
حضرت شــاه ولـی الله ألدهـلوي رحمہ الله فرماتے ہیں کہ
مجهے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے یہ وصیت کی گئ ، یہ الہام ہوا کہ میں مذاهب اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید کروں ، اورمجهے یہ وصیت کی ان چار مذاهب سے باهرنہ نکلوں ، حالانکہ حضرت شــاه صاحب رحمہ الله درجہ اجتہاد پرفائزتهے ، حضرت شــاه صاحب رحمہ الله یہی بات خود فرماتے ہیں کہ
واستفدتُ منه ( صلى الله عليه وسلم ) ثلاثة أمورخلاف ماكان عندي ، وما كان طبعي يميل اليها أشد ميل فصارت هذه الإستفادة من براهين الحق تعالى علي ،
الى ان قال : وثانيها الوصية بالتقليد لهذه المذاهب الأربعة لا أخرج منها ٠
{ فيوضُ الحرَمَين ، ص 64 ، 65 ، }
اور حضرت شــاه صاحب رحمہ الله اسی کتاب میں فرماتے ہیں کہ
مجهے حضور صلى الله عليه وسلم نے سمجهایا کہ مذهب حنفی سنت کے سب سے زیاده موافق ومطابق طریقہ ہے ،
وعرفني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن فى المذهب الحنفي طريقة أنيقة هي أوفق الطرُق بالسنة المعرُوفة التي جمعت ونقحت في زمان البخاري وأصحابه ٠
{ فيوضُ الحرَمَين ، ص 48 }
حضرت شــاه صاحب رحمہ الله کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے ،
1 = تقلید عمومی طورپرصحابہ وتابعین ، رضی الله عنهم کے زمانے رائج تهی ،
2 = مذاهب اربعه {حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ،}کی درحقیقت سواد اعظم یعنی جماعت کثیرکی اتباع ہے ، جس کا حکم حدیث میں ہے ، اورمذاهب اربعه سے خروج سواد اعظم سے خروج ہے ۰
3 = مجتهدین کی تقلید اورخاص کر مذهب امام اعظم ابوحنیفہ کی تقلید الله تعالی کے اسرَار میں سے ایک سِر( راز ) ہے ، جس کوالله تعالی نے اپنے نیک صالح بندوں کوالہام کیا ۰
4 = امت اسلامیہ کا مذاهب اربعه کی تقلید پراجماع ہوچکا ہے ، اورکل امت کا اجماع کبهی ضلالت پرنہیں ہوسکتا ۰
5 = عامی وجاہل پرتقلید مجتهدین واجب ہے ، اوراجتہاد سے عاجزہرشخص خواه وه عالم کیوں نہ ہو اس پربهی تقلید مجتهدین واجب ہے ۰
6 = تقلید مجتهدین میں بے شماراورعظیم مصالح ومنافع ہیں ، اوربے شماردینی فوائد ہیں جس کا شمارنہیں ہوسکتا ۰
7 =اور سب سے بڑهہ کر یہ کہ حضرت شــاه صاحب رحمہ الله کو حضور صلى الله عليه وسلم نے مذاهب اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید کی وصیت کی
8 = اور حضرت شــاه صاحب رحمہ الله کو حضور صلى الله عليه وسلم نے نے بتایا کہ مذهب حنفی دیگرمذاهب کی بہ نسبت سنت نبویہ کے زیاده موافق ومطابق وقریب ہے ۰
9 = عامی وجاہل پرمذاهب اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید واجب ہے ، اور اس سے نکلنا حرام ہے ، کیونکہ پهر ترک تقلید اس کو گمراہی کے نچلے درجہ تک پہنچادے گی ۰
10 = مجتهدین کی تقلید کا مطلب جہالت وضلالت نہیں ہے ، جیسا آج کل چند جہلاء نے جاہل عوام کو گمراه کرنے کے لیئے مشہورکردیا ہے ، حضرت شــاه صاحب رحمہ الله نے فرمایا کہ حضور صلى الله عليه وسلم نے تقلید مذاهب کی وصیت کی ، حضرت شــاه صاحب رحمہ الله کے الفاظ پهر پڑهیں ،
: وثانيها الوصية بالتقليد لهذه المذاهب الأربعة لا أخرج منها :
کیا ( معاذالله ) اگرمجتهدین کی تقلید جہالت وضلالت ہے تو پهر حضور صلى الله عليه وسلم نے حضرت شــاه صاحب رحمہ الله تقلید مذاهب کی وصیت کیوں کی؟؟
میں یہ کہتا ہوں کہ اگر عقل وفہم کی ایک رَتی بهی کسی میں ہو تو حضرت شــاه صاحب رحمہ الله یہ تصریحات وبیانات اس کی ہدایت کے لیئے کافی ہیں ، اورتقلید ومذاهب اربعہ کے خلاف اکثروساوس کی جڑکٹ جاتی ہے ۰
الله تعالى عوام كوصحيح فهم عطا فرمائے
Bookmarks