[IMG]http://i1097.***********.com/albums/g345/nasir_rana10/Images%20for%20Websites/Untitled-1copy.jpg[/IMG]
[IMG]http://i1097.***********.com/albums/g345/nasir_rana10/Images%20for%20Websites/Untitled-2copy800x600.jpg[/IMG]
[IMG]http://i1097.***********.com/albums/g345/nasir_rana10/Images%20for%20Websites/Untitled-1copy.jpg[/IMG]
[IMG]http://i1097.***********.com/albums/g345/nasir_rana10/Images%20for%20Websites/Untitled-2copy800x600.jpg[/IMG]
Plz Resize ur Signature (MAX Size is 30 KB )
جزاک الله خیرا
ایک طرف لمبی لمبی امیدیں
دوسری طرف کل نفس ذائقۃ الموت
جزاک اللہ خیرا
جزاک اللہ
Walaikumussalam,
Jazakallah mere bhai.. Ap ne jitne ehem topic ko cherha, Allah apko jaza dai, ye baat me pehle b bohot loago ko samjha chuka hu, aap ka bohot shukria..
Jazakallah
جزاک الله خیرا
انا للہ وا نا الیہ راجعون
بھائی آپ کا علمی مستوی تو نجانے کیا ہے؟
لیکن پھر بھی میں آپ کو بتا دوں کہ اصل حکم قرآن کا ہے حدیث کا نہیں
پہلے قرآن پھر حدیث
جہاں حدیث قرآن کے خلاف آئے گی وہاں حدیث چھوڑ کرقرآن پر عمل کیا جائے گا
اور قرآن میں ہے
لیس الذکر کالانثی
ذکر انثی کی طرح نہیں ہوتے
اس واسطے اس حدیث کو اس پر محمول کیا جائے گاکہ یہ آدمیوں کے لیے ہے نا کہ عورتوں کے لیے
اور آپ نے یہ کیسے لکھ دیا کہ تم کوئی (مرد و عورت) اپنے بازو
یہ مرد و عورت خود نبی جی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا؟
آپ سے کس نے کہا ہے کہ اپنی طرف سے اس کی تشریح کریں؟
ایک کام کرو حدیث میں اپنی رائے زنی کو بند کر دو ۔دین کو ئی کھلونے کا نام نہیں ۔
اس حدیث میں کوئ کا لفظ ہے مرد و عورت بریکٹ میں ہے جو آپ کی رائے ہے۔
چونکہ دونوں ہاتھ بچھانے پر عورت زیادہ باپردہ نظر آتی ہے اسلئے غیرمقلدین کو یہ بات پسند نہیں۔
باراں صدیوں تک عورت اور مرد کی نماز میں فرق ہی رہا مگر اسکے بعد غیر مقلد انگریز کے دور میں پیدا ہوئے اور ایسا دین نکالا اپنی رائے اور عقل سے قرآن و حدیث سمجھتے ہوئے جسکا پہلے وجود ہی نہ تھا۔
اور انکا کام یہی ہے جو نمازپڑھتا ہو اسکو کہتےہیں تیری نمازخلاف سنت ہے اور جو نمازنہ پڑھتا ہو اسکوکبھی نہیں کہیں گے
۔اب یہ دلائل بھی پڑھ لیں اور اب جو یہ کہے گا کہ صحابہ و تابعین تو دین کو سمجھنے میں غلطی بھی کر سکتے ہیں۔ اس لیے انکے قول سے استد لال کیوں۔تو میرا اسیے شخص سے سوال ہے کیا وہ خود معصوم ہے اور قرآن و حدیث سمجھنے میں کوئی غلطی نہیں کر سکتا۔
[IMG]http://www.itdunya.com/signaturepics/sigpic31663_2.gif[/IMG]
کیسی بات کر رہے ہیں حسان بھائی۔۔
صحیح حدیث کبھی بھی قرآن کے خلاف نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حکم سے ہی ارشاد فرماتے تھے۔۔ بلکہ قرآن کی تشریح فرماتے تھے۔۔
سورۃ النجم میں اللہ نے اپنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ کہا
وَمَا يَنطِقُ عَنِ ٱلۡهَوَىٰٓ
إِنۡ هُوَ إِلَّا وَحۡىٌ۬ يُوحَىٰ
آیت ۳ تا ۴
ترجمہ
اور نہ وہ اپنی خواہش سے کچھ کہتا ہے
یہ تو وحی ہے جو اس پر آتی ہے
کیا کبھی ایک ذریعہ سے آئی ہوئی دو باتیں غلط ہوسکتی ہیں؟
بالکل نہیں۔۔
اس کے بعد آپ کی دوسری بات جس میں آپ نے آیت نقل کی
تو جیسے میں نے کہا کہ آیت کبھی صحیح حدیث کے خلاف نہیں ہوسکتی، اس ہی طرح یہاں بھی ایسا نہیں ہے۔ وہ آیت کچھ یوں ہے۔۔
سورۃ ال عمران کی آیت ۳۵ تا ۳۶ ملاحضہ کریں
إِذۡ قَالَتِ ٱمۡرَأَتُ عِمۡرَٲنَ رَبِّ إِنِّى نَذَرۡتُ لَكَ مَا فِى بَطۡنِى مُحَرَّرً۬ا فَتَقَبَّلۡ مِنِّىٓ*ۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلسَّمِيعُ ٱلۡعَلِيمُ
فَلَمَّا وَضَعَتۡہَا قَالَتۡ رَبِّ إِنِّى وَضَعۡتُہَآ أُنثَىٰ وَٱللَّهُ أَعۡلَمُ بِمَا وَضَعَتۡ وَلَيۡسَ ٱلذَّكَرُ كَٱلۡأُنثَىٰ*ۖ وَإِنِّى سَمَّيۡتُہَا مَرۡيَمَ وَإِنِّىٓ أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ ٱلشَّيۡطَـٰنِ ٱلرَّجِيمِ
ترجمہ
جب عمران کی عورت نے کہا اے میرے رب جو کچھ میرے پیٹ میں ہے سب سے آزاد کر کے میں نےتیری نذر کیا سو تو مجھ سے قبول فرما بے شک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے
پھر جب اسے جنا کہا اے میرے رب! میں نے تو وہ لڑکی جنی ہے اور جو کچھ اس نے جنا ہے الله اسے خوب جانتا ہے اور بیٹا بیٹی کی طرح نہیں ہوتا اور میں نے اس کا نام مریم رکھا اور میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے بچا کر تیری پناہ میں دیتی ہوں
تو میرے بھائی آپ مجھے یہ بتائیں کہ ادھر اس آیت سے یہ منتق نہیں بن رہی کہ اس سے مراد نماز کا طریقہ یا سجدے کا طریقہ مراد ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہاں مراد یہ ہے کہ چونکہ انہوں نے لڑکے کی نیت کی تھی، تو وہ اس لڑکی جیسا نہ ہوتا، وہ کچھ دین کی خدمت کرتا، جبکہ یہ لڑکی نہیں کرسکتی بہرحال انہوں نے اس کا نام مریم رکھ دیا۔
Last edited by Skipper; 10th January 2012 at 10:31 AM.
Bookmarks