وہ یکسر مختلف ہے منفرد پہچان رکھتا ہے
اک آئینے کی صورت شہر کو حیران رکھتا ہے
کوئی اس میں بھی ہوگی اس کی منطق پوچھ لیں گے ہم
بہاروں میں وہ خالی کس لئے گلدان رکھتا ہے
تعلق کس لئے ترک تعلق پر بھی قائم ہے؟
وہ کیوں اپنے سرہانے اب مرا دیوان رکھتا ہے
یہ دل یادوں سے بھر جاتا ہے اکثر سرد راتوں میں
یہ کمرہ سردیوں میں گرم آتشدان رکھتا ہے
ہر اک آہٹ پہ آخر کیوں دھڑک اٹھتا ہے دل میرا
ابھی تک کیا ترے آنے کا کچھ امکان رکھتا ہے
فقط تم اپنے دل کو رو رہے ہو آج تک ساجد
وہ اپنے کھیلنے کے اور بھی میدان رکھتا ہے
Bookmarks