السلام علیکم
میں نے کئی بار سنا تھا کہ
انسان اشرف المخلوقات ہے۔
میں ایک تھریڈ لکھنا چاہتا ہوں
جس کے لئے مجھے معلومات چاھئیں،
کیا انسان اشرف المخلوقات ہے؟؟؟؟
السلام علیکم
میں نے کئی بار سنا تھا کہ
انسان اشرف المخلوقات ہے۔
میں ایک تھریڈ لکھنا چاہتا ہوں
جس کے لئے مجھے معلومات چاھئیں،
کیا انسان اشرف المخلوقات ہے؟؟؟؟
وعلیکم السلام
اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے تخلیق انسانی کے مقصد پر غور کریں ، ارشاد باری تعالیٰ ہے ،
“اور میں نے جن و انس اسلیے بنائے کہ میری بندگی کریں “۔ ( الزُزیت؛٥٦)
اس کی تفسیر میں ابن جریح تابعی فرماتے ہیں ، ام لیعر فون ( تفسیر ابن کثرج 3 ) یعنی جن و انس کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ کی معرفت کاحصول ہے کہ جسے حاصل کیے بغیر اللہ عزوجل کی بندگی کاحق ادا نہیں کیا جاسکتا اسی مضمون کو سورﺓ الاحزاب کی آیت 72 میں یوں بیان فرمایا گیا ہے،
“بے شک ہم نے امانت پیش فرمائی آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر تو انہوں اسکے اٹھانے سے ( معذرت اور ) انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور آدمی نے ( یہ امانت ) اٹھالی “۔(کنز الایمان)
جمہور مفسریں کے نزدیک اس امانت سے مراد احکام شریعت اور اوامر و نواہی ہیں جبکہ بعض مفسرین کے نزدیک اس امانت میں معرفت ربانی اور عشق الہیٰ ہے کہ جسے حاصل کیے بغیر احکام شریعت پر کماحقہ عمل نہیں ہوسکتا۔ علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی تفسیر مظہری میں فرماتے ہیں ،
اس آیت میں امانت سے مراد وہ امانت ہے جیسے صرف انسان ہی اٹھا سکتا ہے اگر اس امانت سے مراد شریعت کے احکام ہوں تو انسان کے ولاوہ جن اور فرشتہ بھی اس کے مکلف ہیں کیونکہ فرشتوں کے بارے میں قرآن حکیم بتاتا ہے کہ وہ شب و روز اللہ تعالیٰ کی تسبیح میں مصروف رہتے ہیں اور وہ بالکل نہیں تھکتے اس لیے صوفیہ کرام فرماتے ہیں کہ
امانت سے مراد وقل کا نور ہے
جس سےاستدلال کے ذریعے معرفت الہیٰ حاصل ہوتی ہے اور اس
امانت سے مراد عشق کی آگ بھی ہے جو احجابات جلا کر معرفت تک پہنچاتی ہے بلا شبہ فرشتے بھی اعلیٰ مخلوق ہیں لیکن وہ ایک خاص مقام سے آگے نہیں بڑھ سکتے یہ صرف انسان ہی کی خصوصیت ہے کہ وہ عشق کے سوز و گداز کے ذریعے لامتناہی درجات تک ترقی کرسکتا ہے۔
اے عشق ترے صدقے جلنے سے چُھٹے سستے
جو آگ بجھا دے گی وہ آگ لگائی ہے
امام غزالی احیاء العلوم میں فرماتے ہیں ،
“ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات اس لیے بنایا کہ اس میں معرفتِ ربانی کے حصول اور تجلیات الہیٰ کے مشاہدے کی صلاحیت ہے“۔
اسی صلاحیت کو ذریعے وہ مقام قرب الہیٰ تک جاپہنچتا ہے اور اگر وہ اس صلاحیت کو ضائع کردے یعنی کھانے پینے جماع کرنے اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کو ہی اپنا نصب العین بنالے اور اللہ عزوجل اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کا باغی و نافرمان ہو جائے تو ایسے انسام کو اشرف المخلوقت کہنا قرآنی تعلیمات کے منافی ہوگا،
ارشاد باری تعالیٰ ہے،
“ کیا تم نے اسے دیکھا جس نے جی کی خواپش کو اپنا خدا بنالیا تم اسکی نگہبانی کا ذمہ لوگے یا یہ سمجھتے ہو کہ ان میں بہت کچھ سنتے یا سمجھتے ہیں وہ تو نہیں مگر جیسے چوپائے بلکہ ان سے بھی بدتر گمتاہ“ ، ( الفرقان 43،
اپنے تھریڈ کے لیے ایک بات ہے اِس پر بھی غور کریں تو آپ کو آپ کے سوال کا جواب یا تھریڈ کے لیے میٹر مل جائے گا کئی بار آپ نے لوگوں کو یہ کہتے سنا ہوگا
کہ
تم تو جانور سے بھی بدتر ہو
اور کبھی سنا ہوگا
وہ انسان نہیں فرشتہ ہے
تو اِن دونوں باتوں کے پیچھے کچھ نہ کچھ راز تو ہوگا
اب آپ نے اپنے دوستوں، خاص طور پر بزرگوں سے یہ معلوم کرنا ہےکہ وہ ایسا کیوں کہتے ہیں ۔۔یا۔۔ایسا کہنے کا کیا مطلب ہے۔
السلام علیکم
ساجد بھائی بہت شکریہ۔
آپ کے کہنے پر بڑوں سے پوچھا اور جو جواب ملا وہ پیش کر رہا ہوں۔
،
پیارے ساجد بھائی،
میں نے معاشرے میں بہت بار یہ سنا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے یعنی تمام مخلوقات میں سے بہتر ہے۔ لیکن اس فقرہ کی حقیقت کو تلاش کیا تو حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ دلائل تحریر کر رہا ہوں۔:
اللہ تعالیٰ [الإسراء: 70] میں فرماتاہے:
{وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا }
یقیناً ہم نے اوﻻد آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزه چیزوں کی روزیاں دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی ۔
خط کشیدہ الفاظ پر غور کیجئے اللہ نے یہ نہین فرمایا کہ ’’تمام مخلوق‘‘ پر فضیلت دی ، بلکہ کہا :’’ بہت سی ‘‘ مخلوق پر فضیلت دی یہ آیت اس سلسلے میں قاطع ہے کہ انسان اشرف المخلوقت نہیں ہے۔
حدیث* رسول ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي، فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً "[صحيح البخاري 9/ 121 رقم7405]
صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جو میرے متعلق وہ رکھتا ہے اور میں اس کے ساتھ ہوں جب وہ مجھے یاد کرے اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر مجھے ایک جماعت کے درمیان یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے ایسی جماعت(فرشتوں) میں یاد کرتا ہوں جو اس(انسان) کی جماعت سے بہتر ہے ۔ اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب ہو تو میں ایک گز اس کے قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ ایک گز قریب ہوتا ہے تو میں اس سے دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ کے برابر قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔
خط کشید الفاظ کو بغور پڑھیں حدیث* کے یہ الفاظ بتلارہے ہیں کہ فرشتے انسانوں* سے افضل واشرف ہیں یعنی انسان اشرف المخلوقات نہیں ہے۔
جزاک اللہ
Bookmarks