پچھلے ماہ ہی ان سترہ افغان مسلمانوں کے بارے میں سنا جن میں اکثریت ماؤں اور ان کے بچوں کی تھی،جو ایک امریکی فوجی کی گولیوں کا نشانہ بنے اور اس نے ان کی لاشوں کو بھی جلا دیا۔ یہ تو صرف چند کہانیاں ہیں جو شہ سرخیوں تک پہنچ پاتی ہیں، تاہم اسلام کے جو تصورات میں نے سب سے پہلے سیکھے ان میں بھائی چارہ اور وفادرای بھی شامل ہے، کہ ہر مسلمان خاتون میری بہن ہے اور ہر مرد میرا بھائی اور مل جل کر ہم سب ایک جسم کی مانند ہے اور ہمیں ایک دوسرے کی حفاظت کرنی ہے۔بالفاظ دیگر ،میں یہ نہیں دیکھ سکتا تھا کہ میرے بہن بھائیوں کے ساتھ یہ کچھ ہوتا رہے، امریکہ بھی ظالموں میں شامل ہو اور میں غیر جانبدار رہوں۔مظلوموں کے لئے میری حمایت جاری رہی تاہم اس بار اس میں اپنائیت بھی تھی، اور یہی احساسات ان لوگوں کے لئے بھی تھے جو ان مظلومین کے دفاع میں اٹھے۔ میں نے پال ریور کا تذکرہ کیا تھا، وہ آدھی رات کو لوگوں کو خبردار کر نے کے لئے نکلا کہ برطانوی سام ایڈمز اور جان ہینکاک کو گرفتار کرنے کے لئے لیگزنگٹن کی طرف پیش قدمی کررہے ہیں اور اس کے بعد کانکورڈجائیں گے تاکہ وہاں آزادی کے لئے لڑنے والی ملیشیا کے ذخیرہ کردہ اسلحہ کو ضبط کریں۔جس وقت تک برطانوی کانکورڈ پہنچے آزادی کے لئے لڑنے والے لوگ اپنے ہاتھوں میں اسلحہ لئے ا ن کے سامنے مقابلے کے لئے کھڑے تھے۔انہوں نے برطانویوں پر گولیاں چلائیں، ان سے لڑائی کی اور انہیں ہرا دیا۔
اسی جنگ سے امریکی انقلاب کا آغا ز ہوا۔ جو کام ان لوگوں نے کیا اس کے لئے ایک عربی لفظ ہے ،اور وہ لفظ ’جہاد ‘ہے، اور میرا مقدمہ بھی اسی سے متعلق تھا۔وہ ساری ویڈیوز اور تراجم اور بچکانہ بحثیں کہ’ اوہ! اس نے اس جملے کا ترجمہ کیا تھا ‘اور ’اوہ ! اس نے اس جملے پر نظر ثانی کی تھی!‘،اور وہ تمام پیش کردہ باتیں ایک ہی معاملے کے گرد گھومتی تھیں:وہ مسلمان جو امریکہ کے خلاف اپنا دفاع کررہے تھے جو ان کے ساتھ وہی سلوک کررہا ہے جو برطانیہ نے امریکہ کے ساتھ کیا تھا۔پیشیوں کے اندر یہ بات بالکل واضح ہوگئی تھی کہ میں کبھی بھی بازاروں میں ’امریکیوں کے قتل‘ کے کسی منصوبے میں شامل نہیں رہا، یا جو بھی کہانی بنائی گئی تھی اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔حکومتی گواہوں نے خود بھی اس دعوے کا رد کیا، اور ایک کے بعد دوسرا ماہر اس جگہ آکر کھڑا ہوتا رہا، جنہو ں نے میرے تحریر کردہ ہر ہر لفظ کے حصے بخرے کرنے میں کئی گھنٹے گزارے کہ میرے عقائد کو بیان کرسکیں۔ اس کے بعد جب میں آزاد ہواتو حکومت نے اپنا ایک خفیہ ایجنٹ بھیجا کہ وہ مجھے اپنے کسی چھوٹے سے’دہشتگردانہ منصوبے‘ میں ملوث ہونے کی ترغیب دے سکے، لیکن میں نے شمولیت سے انکار کردیا۔ تاہم حیرت کی بات ہے کہ جیوری کو اس بارے میں کوئی خبر نہیں۔
لہذا ،میرا یہ مقدمہ امریکی شہریوں کے قتل پر میرے موقف کے لحاظ سے نہیں تھا، بلکہ یہ امریکیوں کے ہاتھوں مسلمان شہریوں کے قتل کے لحاظ سے میرے موقف پر تھا، اور وہ یہی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی اراضی پر غاصب قوتوں کے خلاف دفاع کرنا چاہئے چاہے وہ امریکی ہوں ، روسی ہوں یا مریخی ہوں۔میں اسی بات پر یقین رکھتا ہوں، ہمیشہ سے میرا یہی یقین رہا ہے اور ہمیشہ یہی یقین رہے گا۔یہ نہ دہشت گردی ہے ،نہ انتہا پسندی ہے۔یہ تو بس دفاع نفس کی سادہ سی منطق ہے۔یہ وہی چیز ہے جس کی نمائندگی آپ کے اوپر موجود علامت کے تیر کررہے ہیں، وطن کا دفاع۔چنانچہ میں اپنے وکلاء کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ آپ کو میرے عقائد ماننے کی ضرورت نہیں۔نہیں،بلکہ جس کے اندر بھی تھوڑی سی عقل اور انسانیت ہوگی لامحالہ اسے یہ بات ماننی ہی پڑے گی۔
اگر کوئی آپ کے گھر میں گھس کر چوری کرنا چاہے اور آپ کے اہل و عیال کو نقصان پہنچانا چاہے تو عقل یہی کہے گی کہ اس جارح کو باہر نکالنے کے لئے جو کچھ ہو سکتا ہے وہ کیا جائے۔ لیکن جب وہ گھر کوئی مسلم سرزمین ہو، اور وہ جارح امریکی فوج ہو، تو کسی وجہ سے یہ اصول بدل جاتے ہیں۔عقل کا نام’دہشت گردی ‘رکھ دیا جاتا ہے، اور جو لوگ سمندر پار سے آئے قاتلوں کے خلاف اپنا دفاع کرتے ہیں وہ ’دہشت گرد‘ بن جاتے ہیں جو ’امریکیوں کو قتل‘ کررہے ہیں۔ ڈھائی صدی پہلے امریکہ جس ذہنیت کا شکار تھا جب برطانوی ان سڑکوں پر چل رہے تھے وہی ہے جس کا شکا ر آج مسلمان ہیں جن کی سڑکوں پر امریکی فوجی مٹر گشت کررہے ہیں۔ یہ استعماریت کی ذہنیت ہے۔جب سرجنٹ بیلز نے پچھلے مہینے ان افغانوں کو قتل کیا تو ذرائع ابلاغ کا سارا زور اس کی ذات پر تھا، اس کی زندگی، اس کی پریشانی، اس کے گھر کا گروی ہونا، گویا وہی ظلم کا نشانہ بنا ہے۔اور جن لوگوں کو اس نے ماراتھا ان کے لئے کم ہی ہمدردی دکھائی گئی،گویا وہ حقیقی لوگ نہیں تھے، انسان نہیں تھے۔بدقسمتی سے یہی ذہنیت معاشرے کے ہر فرد میں راسخ ہوچکی ہے،چاہے اسے اس بات کا احساس ہو یا نہ ہو۔حتی کہ میرے وکلاء بھی، دو سال گفتگو کرنے، سمجھانے اور وضاحتیں پیش کرنے میں لگے اور پھر کہیں جاکر وہ اس قابل ہوئے کہ اپنے خول سے باہر جھانک سکیں اور کم ازکم میری بات میں موجود منطق و عقل کو بناوٹی طور پر ہی قبول کرسکیں۔
دو سال!اگر اتنے ذہین لوگوں کو اتنا وقت لگا، جن کا کام میرا دفاع کرنا تھا، اپنی ذہنیت تبدیل کرنا تھا ، اور پھر مجھے یونہی کسی جیوری کے سامنے پیش کردیا گیا اس بات کے تحت کہ وہ میرے’غیر جانبدار موکل‘ ہیں ، مطلب یہ کہ مجھے اپنے ساتھیوں کی جیوری کے سامنے نہیں پیش کیا گیا کیونکہ جو ذہنیت امریکہ پر چھائی ہوئی ہے اس کی وجہ سے میرے کوئی ساتھی ہی نہیں۔اسی حقیقت کو بنیاد بناتے ہوئے حکومت نے مجھ پر مقدمہ چلایا، اس لئے نہیں کہ انہیں کوئی حاجت تھی، بس صرف اس لئے کیونکہ وہ ایسا کرسکتے تھے۔ میں نے تاریخ کی کلاسوں میں ایک او ر بات بھی سیکھی تھی۔
امریکہ نے تاریخ میں ہمیشہ اپنی اقلیتوں کے خلاف غیر منصفانہ ترین حکمت عملیاں اپنائی ہیں، ایسے افعال جنہیں قانون کا تحفظ بھی حاصل تھا، اور پھربعد میں پیچھے دیکھ کر یہی کہا گیا’آخر ہم کیا سوچ رہے تھے؟‘غلامی، جم کرو،جنگ عظیم دوئم میں جاپانیوں کی نظر بندی، یہ سب امریکی معاشرے میں بالکل قابل قبول تھا، اور سپریم کورٹ کی پشت پناہی کے ساتھ تھا۔لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اور امریکہ بدل گیا، عوام اور عدلیہ دونوں نے پیچھے دیکھ کر یہی کہا کہ ’آخر ہم کیا سوچ رہے تھے؟‘ جنوبی افریقہ کی حکومت نیلسن منڈیلا کودہشت گرد سمجھتی تھی، اور اسے قید حیا ت کی سزا سنائی گئی تھی۔لیکن وقت گزر گیا اور دنیا بدل گئی،انہیں احساس ہوا کہ ان کی پالیسی کتنی ظالمانہ تھی، کہ دراصل وہ دہشت گرد نہیں تھا، اور اسے قید سے آزاد کردیاگیا۔ وہ صدر بھی بن گیا۔ لہذا ہر چیزذہنیت سے تعلق رکھتی ہے، یہ ’دہشت گردی‘ کا سارا معاملہ بھی اور یہ کہ کون ’دہشت گرد ‘ہے۔یہ سب تو وقت اور مقام پر منحصر ہے اور یہ کہ کون اس وقت ’عالمی قوت ‘ ہے۔
آپ کی نظروں میں میں دہشت گردہوں، صرف ایک میں ہی یہاں پر ایک زرد لباس میں کھڑا ہوں اور میرا یہاں زرد لباس میں کھڑا ہونا بالکل معقول ہے۔ لیکن ایک دن امریکہ بدل جائے گا اور لوگوں کو اس دن کی حقیقت کا احساس ہوگا۔وہ دیکھیں گے کہ کس طرح ہزاروں لاکھوں مسلمان غیر ممالک میں امریکی فوج کے ہاتھوں قتل ہوئے اور اپاہج ہوئے۔ تاہم کسی طریقے سے آج میں ہوں جسے ان ممالک میں’قتل اور اپاہج کرنے کی سازش ‘ کی وجہ سے قید میں بھیجا جارہا ہے، کیونکہ میں ان لوگوں کا دفاع کرنے والے مجاہدین کی حمایت کرتا ہوں۔لوگ پیچھے مڑ کر دیکھیں گے کہ کس طرح حکومت نے مجھے’دہشتگرد‘ کی حیثیت سے قید کرنے کے لئے لاکھوں ڈالر خرچ کئے، لیکن اگر ہم کسی طرح امیر الجنبی کو اس موقع پر زندہ کرکے لاکھڑا کریں جب وہ آپ کے فوجیوں کے ہاتھوں ذلیل ہورہی تھی، اسے اس گواہی کے کٹہرے میں کھڑا کریں اور اس سے پوچھیں کہ دہشت گرد کون ہیں، تو یقیناًاس کا اشارہ میر ی طرف نہیں ہوگا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مجھ پر شدت کا بھوت سوار ہے، ’امریکیوں کے قتل ‘کا بھوت سوار ہے۔ لیکن اس دور میں رہنے والے مسلمان کی حیثیت سے، میں اس سے زیادہ طعن آمیز جھوٹ سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔
Bookmarks