Page 5 of 5 FirstFirst ... 2345
Results 49 to 59 of 59

Thread: Haarta hooa america

  1. #49
    Kawish1's Avatar
    Kawish1 is offline Senior Member+
    Last Online
    19th April 2018 @ 01:10 PM
    Join Date
    14 Nov 2009
    Posts
    138
    Threads
    18
    Credits
    925
    Thanked
    17

    Default

    Zulfikaar Sahib k sath behs karna bewaqoofi hai, in ki aankhon pe DOLLARS ki patti bandhi hui hai, inhe US State Deptt waly issi kam ki tu pay de rahy hain. Mujy tu in k naam aur religion pe e doubt hone laga hai, kahin yeh b us training me shamil na rahy hon jis me non muslims ko islam ki training de k duniya bhar me bheja gya muslims me intishaar phelane k liye. Aur unhe is kaam k liye baqaida funding hoti thi.

  2. #50
    speedyboy3 is offline Advance Member
    Last Online
    1st March 2024 @ 09:20 PM
    Join Date
    30 Dec 2010
    Gender
    Male
    Posts
    2,397
    Threads
    240
    Credits
    1,924
    Thanked
    173

    Default

    wah zulfiqar sahib dehshat gardi ka adda afghanistan hai lol

    aslaha (weopons ) kon bana raha hai ...... kon poori dunya main aslaha bant ta phir raha hai.... sub ko maloom hai

    kashmir , falasteene main kion nhi gai ISAF kion k wahan muslman mar rhay hain.....

    mujahideen ko dehshat gard or aalmi dehshatgard america ko hero kehny waly Allah or Rasool s.a.w k Gaddar hain .....

    america main kitne hamly horahy hain roz btao ....

    roz afghanion ko mar ty hain ye yahood i .. iraq ka kia haal kara .... dehshat gard america hai,,, Insha Allah ab america ki barbadi hony wali hai ....

    kahan america super power or kahan mujahideen jin k pas na atom bomb hai na F-16 tayyary....

    sirf 1 F-16 tayyara taliban k hath lag gaya na america ki waatt lagadengy....mujahideen ki madad Allah kar raha hai .... or jahad taqayamat jari rahy ga Insha Allah

    کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
    مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

  3. #51
    zulfikar_DOT is offline Senior Member+
    Last Online
    3rd July 2012 @ 06:47 PM
    Join Date
    10 Jan 2011
    Location
    Washington DC
    Gender
    Male
    Posts
    124
    Threads
    5
    Credits
    0
    Thanked
    3

    Default

    Quote speedyboy3 said: View Post
    wah zulfiqar sahib dehshat gardi ka adda afghanistan hai lol

    Aslaha (weopons ) kon bana raha hai ...... Kon poori dunya main aslaha bant ta phir raha hai.... Sub ko maloom hai
    ی



    سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکی معيشت ترقی کے ليے دفاع کی صنعت پر انحصار نہيں کرتی۔ يہ بھی ياد رہے کہ صرف اسلحہ سازی ہی وہ واحد صنعت نہيں ہے جس ميں امريکہ عالمی رينکنگ ميں سب سے اوپر ہے۔ چاہے وہ تعليم ،زرعات، آئ – ٹی ،جہاز سازی يا تفريح کی صنعت ہو، امريکی معيشت کسی ايک صنعت پر مخصوص نہيں ہے۔

    يہ بھی ايک حقیقت ہے کہ امريکہ جنگ يا تشدد سے متاثرہ علاقوں کو معاشی اور سازوسامان پر مبنی امداد مہيا کرنے والوں ممالک ميں سر فہرست ہے۔

    اس بات کی کيا منطق ہے کہ امريکہ دانستہ فوجی کاروائيوں اور جنگوں کی ترغيب اورحمايت کرے اور پھر متاثرہ علاقوں کی مدد کے ليے اپنے بيش بہا معاشی اور انسانی وسائل بھی فراہم کرے؟

    امريکہ دوسرے ممالک کو ہتھيار برآمد کرنے سے پہلے اس بات کو يقينی بناتا ہے کہ يہ غلط ہاتھوں ميں نہ جائيں

    اعداد وشمار اور عملی حقائق اس تھيوری کو غلط ثابت کرتے ہيں۔




    ذوالفقار – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


  4. #52
    Abu Dajana's Avatar
    Abu Dajana is offline Senior Member+
    Last Online
    4th July 2015 @ 04:21 PM
    Join Date
    21 Oct 2011
    Age
    38
    Gender
    Male
    Posts
    602
    Threads
    28
    Credits
    965
    Thanked
    131

    Default

    [FONT="Jameel Noori Nastaleeq"][COLOR="Navy"][SIZE="6"][CENTER][QUOTE=zulfikar_DOT;3294080]
    Quote Abu Dajana said: View Post


    جناب اور باتوں کو چھوڑیں۔۔ یوں تو مکمل طور پر میڈیا امریکی اور اسرائیلی زبان بولتا ہے۔۔ بہر حال پھر بھی یہ لوگ اپنے جال میں پھنس جاتے ہیں۔۔۔کہ۔۔
    یوں آپ اپنی قید میں صیاد آگیا۔۔۔
    ۔
    ۔



    آپ جانتے ہیں کہ جو ويڈيوز ميں نے پوسٹ کی ہيں کہ ان ميں سے ايک اس پاکستانی چینل نے تيار کی ہے جواکثر امريکی حکومت کی پاليسيوں پر تنقيد کرتا ہے؟
    کيا آپ ان نمازيوں کے بیانات کی بھی ترديد کريں گے جنہوں نے اس مسجد ميں کھڑے ہو کر بات کی؟



    ذوالفقار – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ




    اچھا جی۔
    یہ آپ ہی کی میڈیا ہے۔۔۔ اور آپ ہی کی قانون کی بات کیجارہی ہے۔۔ امریکن قانون سے محبت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔۔ اور تلخ حقیقت بیان کی جارہی ہے۔۔
    اب کیا کہیں گے آپ۔۔

    What About The Hundreds Of Innocent People WE Are Killing With OUR Drone Strikes In Pakistan!"

    [IMG]http://i445.***********.com/albums/qq172/soni_006/th_Ryu-3.gif[/IMG]

  5. #53
    zulfikar_DOT is offline Senior Member+
    Last Online
    3rd July 2012 @ 06:47 PM
    Join Date
    10 Jan 2011
    Location
    Washington DC
    Gender
    Male
    Posts
    124
    Threads
    5
    Credits
    0
    Thanked
    3

    Default

    Quote
    کیا پاکستان میں ہونے والے تمام بم دھماکے اور تخریب کاری۔۔
    کیا ہمارے بڑے بڑے جید علماء کرام کی ٹارگٹ کلنگ۔۔
    کیا مساجد کو ہٹ کرنا۔۔
    کس کس چیز کے بارے میں ہم بتائیں۔۔۔
    کون کونسا ثبوت ہم پیش کریں۔۔؟؟؟
    ویسے میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو بھی حقیقت کا پتہ ہے۔۔ مگر بات دراصل یہ ہے۔۔ کہ آپ ہر بات کو امریکہ کے حق میں لے جانے کا معاوضہ جو لے رہے ہیںَ۔۔۔[/CENTER
    said:
    [/SIZE][/COLOR][/FONT]



    امريکہ پاکستان کے دشمنوں کی مدد کررہا ہے يا پاکستان میں انتشار پھیلا رہا ہے، يہ الزامات اور دعوے بلکل بے بنياد ہيں اورصرف ايک پروپیگنڈا ہے مخض لوگوں کو گمراہ کرنے کے ليے ۔
    ايک لحاظ سے اس نقطہ نظر پر مجھے کوئ خاص حيرت نہيں ہوئ۔ بدقسمتی سے پچھلی دو دہاہيوں سے پاکستان ميں ايک حلقے ميں يہ سوچ رہی ہے کہ ہر ملکی مسلۓ پر پر مغز اور تعميری بحث کے ذريعے مثبت اور ديرپا حل تلاش کرنے کی بجاۓ "بيرونی عناصر" اور "امريکی سازش" جيسے نعرے لگا کر اپنی تمام ذمہ داريوں سے ہاتھ صاف کر ليے جائيں۔

    ايک طرف تو پاکستانی حکومت خود بارہا يہ تسليم کر چکی ہے کہ گزشتہ 8 برسوں کے دوران امريکہ نے پاکستان کو دفاع اور فوجی اداروں کے استحکام اور دہشت گردی کے خاتمے کے ليے کئ بلين ڈالرز کی امداد دی ہے اور اس ضمن ميں مزيد امداد کی درخواست بھی کی جاتی ہے اور دوسری جانب امريکہ ہی کو دہشت گردی کا ذمہ دار بھی قرار ديا جاتا ہے۔ يہ کيسی منطق ہے کہ امريکہ دہشت گردی کے خاتمے کے ليے امداد بھی دے رہا ہے اور دہشت گردی کا مرتکب بھی ہو رہا ہے۔
    اس کے علاوہ اس بات پر بھی تو ذرا غور کريں کہ امريکہ سکول بنانے کے ليے پييسے دے رہا ہے اور يہ دہشت گرد ان کو تباہ کر رہے ہیں۔
    لہذا آپ کے ذہن ميں جو بھی خيال ہے آپ اس پر ڈ ٹے رہيں۔ ليکن حقیقت یہ ہے بے گناہ شہریوں اورعبادتگاہوں ميں ہزاروں کی تعداد ميں مارے جانے والے مسلمانوں کے خلاف دھماکا خیز مواد کے ساتھ خود کش بم دھماکے کرنے والوں کو امريکی حکومت نہيں بيجھتی۔خودکش حملہ آور ايک دن ميں تيار نہيں ہوتا۔ اس کے ليے مہينوں کی تربيت اور برين واشنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔

    http://unitednews.com.pk/ur/national/1080--18-

    ذوالفقار – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


  6. #54
    Abu Dajana's Avatar
    Abu Dajana is offline Senior Member+
    Last Online
    4th July 2015 @ 04:21 PM
    Join Date
    21 Oct 2011
    Age
    38
    Gender
    Male
    Posts
    602
    Threads
    28
    Credits
    965
    Thanked
    131

    Default


    امریکی عدالت میں ایک پاکستانی دہشت گرد کی تقریر جس نے بہت سے لوگوں کو رلا دیا طارق مھنا ایک پاکستانی مصری امریکن ہیں ان کے والدین پاکستان اور مصر سے امریکہ ہجرت کرگئے تھے اور طارق وہیں پیدا ہوئے اور پیدائش سےا مریکہ میں مقیم ہیں۔

    انہیں کچھ ہفتے قبل ہی امریکی حکومت نے انٹر نیٹ پر جہادیوں کی حمایت کرنے کے الزام میں کئی سال کے لئے جیل بھیج دیا ہے۔ جس وقت جج انہیں سزا سنا رہا تھا انہوں نے بھری عدالت میں ایک بیان دیا تھا۔ اس جذباتی بیان نے عدالت میں موجود بہت سے لوگوں کو مہبوت کردیا تھا اور کئی لوگ اپنی آنکھیں پونچھتے دیکھے گئے۔ اس تقریر کے بعد جج نے کہا کہ عدالت صرف قانون کے دائرے میں رہ کر فیصلہ دیتی ہے قانون بناتی نہیں اور امریکی قانون یہی کہتا ہے کہ آپ مجرم ہیں۔ ذیل میں دئی گئی تحریر دراصل وہ تقریر ہے جوطارق مھنّا نے۱۲ اپریل ۲۰۱۲ء کو سزا سنائے جانے پر امریکی جج کے سامنے کی، طارق مھنّا ان بہت سارے لوگوں میں سے ہیں جو اپنی حق گوئی کی بابت امریکی عقوبت خانوں میں قید ہیں اور امریکہ کی اسلام دشمنی کا ہد ف بن رہے ہیں۔ آپ ابو سبایا کے نام سے انٹرنیٹ پر جانے جاتے تھے اور بہت موثر مقرر ہیں۔




    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    آج سے چار سال قبل یہی اپریل کا مہینہ تھا جب میں ایک مقامی ہسپتال میں اپنا کام ختم کرکے گاڑی کی طرف جارہا تھا کہ میرے پاس امریکی حکومت کے دو ایجنٹ آئے ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے دو راہوں میں ایک کا انتخاب کرنا ہوگا، ایک راستہ آسان تھا اور دوسرا مشکل۔ ’آسان‘ راستہ ان کے مطابق یہ تھا کہ امریکی حکومت کا مخبر بن جاؤں اور یوں کبھی عدالت یا قیدخانے کی صورت نہ دیکھنی پڑے گی اور دشوار راستہ، سو وہ آپ کے سامنے ہے۔تب سے اب تک ان چار سالوں کا اکثر حصہ میں نے قید تنہائی میں ایک ایسے کمرے میں گزارا ہے جس کا حجم ایک چھوٹی سی الماری جتنا ہے اور مجھے دن کے تئیس گھنٹے اسی میں بند رکھا جاتا ہے۔ایف بی آئے اور ان وکلاء نے بہت محنت کی،حکومت نے مجھے اس کوٹھری میں ڈالنے، اس میں رکھنے، مقدمہ چلانے اور بالآخر یہاں آپ کے سامنے پیش ہونے اور اس کوٹھری میں مزید وقت گزارنے کی سزا سننے کے لئے لوگوں کے اداکردہ ٹیکسوں کے سینکڑوں ڈالر خرچ کئے۔

    اس دن سے ماقبل ہفتوں میں لوگوں نے مجھے بہت سے مشورے دیئے کہ مجھے آپ کے سامنے کیا کہنا چاہئے۔ کچھ نے کہا کہ مجھے رحم کی اپیل کرنی چاہئے کہ شاید کچھ سزا میں تخفیف ہوجائے، جبکہ دوسروں کی رائے تھی کہ کچھ بھی کرلوں میرے ساتھ سختی ہی کا معاملہ کیا جائے گا۔تاہم میں بس یہ چاہتا ہوں کہ چند منٹ اپنے بارے میں گفتگو کروں۔ جب میں نے مخبر بننے سے انکار کردیا تو حکومت نے ردعمل کے طور پرمجھ پر الزام لگایا کہ میں نے دنیا بھر میں مسلم ممالک پر قبضے کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کی حمایت کا’جرم‘ کیا ہے۔یا ’دہشتگردوں ‘ کی جیسا کہ وہ انہیں کہنا پسند کرتے ہیں۔حالانکہ میں کسی مسلمان ملک میں بھی پیدا نہیں ہوا۔ میں یہیں امریکہ میں پلا بڑھا ہوں اور یہی بات بہت سے لوگوں کو غضبناک کرتی ہے۔ایسا کیسے ممکن ہے کہ میں امریکی ہونے کے باوجود ان باتوں پر یقین رکھوں جن پر میں رکھتا ہوں اور وہ موقف اختیار کروں جو میں نے کررکھا ہے؟ آدمی اپنے ماحول میں جو کچھ دیکھتا ہے وہ ایک جز بن جاتا ہے جو اس کا نقطہ نظر تشکیل کرتا ہے، اور یہی حال میرا بھی ہے۔لہذا، ایک نہیں بلکہ بہت سی وجوہات کے سبب میں جو کچھ ہوں امریکہ ہی کی وجہ سے ہوں۔

    چھ سال کی عمر میں میں نے comic booksکا ذخیرہ جمع کرنا شروع کردیا۔بیٹ مین نے میرے ذہن میں ایک تصور بویا، میرے سامنے ایک نمونہ رکھا کہ کس طرح دنیا کا نظام چل رہا ہے،بعض ظالم ہوتے ہیں، بعض مظلوم ہوتے ہیں اور بعض وہ جو مظلمومین کی حمایت کے لئے آگے آتے ہیں۔یہ چیز میرے ذہن میں اس طرح پیوست رہی کہ اپنے پچپن کے پورے دور کے اندر میں ہر اس کتاب کی طرف کھنچا چلا جاتا جس میں یہ نمونہ پیش کیا جارہا ہوUncle Tom's Cabin, TheAutobiography of Malcolm X اور مجھے توThe Catcher in the Ryeمیں بھی ایک اخلاقی پہلو نظر آتا تھا۔ پھر میں ہائی اسکول پہنچ گیا اور تاریخ کے اسباق پڑھے ،اور مجھ پر یہ واضح ترہوگیا کہ دنیا کا یہ اصول کتنا حقیقی ہے۔میں نے امریکہ کے اصل باشندوں اور یورپی آبادکاروں کے ہاتھوں ان پر ہونے والے ظلم کے بارے میں پڑھا۔

    میں نے پڑھا کہ پھر ان یورپی آبادکاروں کی نسلوں کو کس طرح کنگ جارج سوم کی جابرانہ حکومت کے دوران ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔میں نے پال ریوراور ٹام پین کے بارے میں پڑھا اور یہ کہ کس طرح امریکیوں نے برطانوی فوج کے خلاف مسلح بغاوت کی،وہ بغاوت جس کا اب ہم امریکہ کی انقلابی جنگ کی حیثیت سے جشن مناتے ہیں۔آج جہاں ہم بیٹھے ہیں بچپن میں اس سے کچھ دور ہی اسکول کی فیلڈ ٹرپ پر جایا کرتے تھے۔میں نے ہیریئٹ ٹب مین،نیٹ ٹرنر،جان براؤن اور اس ملک میں غلامی کے خلاف جنگ کے بارے میں پڑھا۔میں نے ایما گولڈمین،یوجین ڈیبز، مزدوروں کی انجمنوں، ورکنگ کلا س اور غرباء کی جدوجہدوں کے بارے میں پڑھا۔

    میں نے این فرینک اور نازیوں کے بارے میں پڑھا کہ وہ کس طرح اقلیتوں کو اذیتیں دیتے تھے اورمخالفین کو قید کردیتے تھے۔میں نے روزا پارکس، میلکم ایکس، مارٹن لیوتھر کنگ اور شہری حقوق کی جدوجہد کے بارے میں پڑھا۔میں نے ہو چی منھ کے بارے میں پڑھا کہ کس طرح ویت نام کے باشندگان نے کئی دہائیاں یکے بعد دیگرے آنے والے غاصبین کے خلاف لڑنے میں گزاردیں۔ میں نے نیلسن منڈیلا اور جنوبی افریقہ میں نسلی عصبیت کے خلاف جنگ کے بارے میں پڑھا۔میں نے ان سالوں میں جو کچھ پڑھا وہ چھ سال کی عمر میں سیکھی گئی بات کی مزید تصدیق کررہا تھا، کہ پوری تاریخ میں ظالم اور مظلوم کے درمیان ایک مستقل جنگ جاری رہی ہے۔

    میں نے جس بھی جدوجہد کے بارے میں پڑھا ،میں نے اپنے آپ کو ہمیشہ مظلوم کا طرفدار پایا، اور ان کی حمایت میں کھڑے ہونے والوں کو میں نے ہمیشہ احترام کی نگاہ سے دیکھا، خواہ وہ کسی بھی ملک سے ہوں، کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ میں نے کبھی بھی اپنی کلاسوں کے نوٹس نہیں پھینکے۔ آج بھی جبکہ میں یہاں کھڑا ہوں وہ میرے کمرے کی الماری میں سلیقے سے رکھے ہیں۔ جتنی بھی تاریخی شخصیات کے بارے میں میں نے پڑھا ان میں سے ایک سب میں ممتاز تھی۔ملیکم ایکس کے بارے میں بہت سی چیزوں نے مجھے متاثر کیا لیکن جس چیز نے سب سے زیادہ دلچسپی بڑھائی وہ کایا پلٹ تھی، ان کی کایا پلٹ۔مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے سپائک لی کی فلم ’X‘ دیکھی ہے یانہیں، یہ تقریبا ساڑھے تین گھنٹے کی ہے، اور ابتدا میں نظر آنے والا میلکم آخر میں نظر آنے والے میلکم سے بہت مختلف ہے۔وہ ایک ان پڑھ مجرم ہوتا ہے جو بعدازاں ایک شوہر، ایک باپ ، اپنے لوگوں کا محافظ اور فصیح البیاں لیڈر بن جاتا ہے، ایک اصولی مسلمان جو مکہ میں حج کا فریضہ ادا کرتا ہے اور بالآخر شہید ہوجاتا ہے۔میلکم کی زندگی نے مجھے یہ سبق دیا کہ اسلام کوئی وراثتی دین نہیں ہے؛یہ کسی نسل یا تہذیب کا نام نہیں ہے۔ یہ تو طریقہ زندگی ہے،ایک فکری حالت ہے جو کوئی بھی اپنا سکتا ہے چاہے وہ کہیں سے بھی تعلق رکھتا ہو اور کسی بھی ماحول میں پلا بڑھا ہو۔اس چیز نے مجھے اسلام کو بنظر غائر دیکھنے کی ترغیب دی اور بس پھر میں اس کا دلدادہ ہوگیا۔

    میں تو صرف ایک نوجوان تھا اوراسلام اس سوال کا جواب پیش کرتا تھا جو بڑے بڑے سائنسی ذہن دینے سے قاصر ہیں۔اور جس کا جواب نہ پاکر امرا ء اور مشہور و معروف لوگ ڈیپریشن اور خودکشیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔زندگی کا مقصد کیا ہے؟اس کائنات میں ہمارا وجود کیوں ہے؟ اسلام نے جواباً بتایا کہ کس طرح ہمیں زندگی گزارنی ہے۔کیونکہ اسلام ہمیں کسی پیشوا یا راہب کا محتاج نہیں کرتا لہذا میں نے براہ راست قرآن اور سنت کی گہرائیوں میں جانا شروع کردیا،تاکہ اس فہم کے سفر کا آغاز کرسکوں کہ اسلام کیا ہے،بحیثیت انسان اسلام میرے لئے کیا پیش کرتا ہے، ایک فرد کی حیثیت سے، میرے اردگرد کے لوگوں کے لئے، ساری دنیا کے لئے، اور جتنا جتنا میں سیکھتا گیا،مجھے اسلام کی قدر وقیمت کا اتنا ہی احساس ہونے لگا گویا وہ کوئی ہیرا ہے۔یہ میرے عنفوان شباب کی بات ہے، لیکن آج بھی پچھلے چند سالوں کے دباؤ کے باوجود، میں یہاں آپ کے اور اس کمرہ عدالت میں موجود تمام لوگوں کے سامنے ایک مسلمان کی حیثیت سے کھڑا ہوں،الحمدللہ۔ اس کے ساتھ ہی میری توجہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے حالات کی طرف گئی۔اور جدھر بھی میں نے نگاہ ڈالی میں نے دیکھا کہ نام نہاد طاقتیں میری محبوب شے کے درپے ہیں۔مجھے پتہ چلا کہ سویت نے افغانستان کے مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا۔مجھے معلوم ہوا کہ سربوں نے بوسنیا کے مسلمانوں پرکیا قیامت ڈھائی۔مجھے روسیوں کے ہاتھوں چیچن مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے متعلق پتہ چلا۔مجھے پتہ چلا کہ اسرائیل نے لبنان میں کیا کیا تھا، اوراب امریکہ کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ فلسطین میں کیا کچھ کررہا ہے۔اور مجھے پتہ چلا کہ خود امریکہ مسلمانوں کے ساتھ کیا کررہا ہے۔مجھے جنگ خلیج کے متعلق اور ان یورینیم بموں کے متعلق علم ہوا جن سے ہزاروں لوگ مر گئے اور عراق میں کینسر کی شرح آسمان کو پہنچ گئی۔میں نے امریکہ کے صادر کردہ ان احکامات و قوانین کے بارے میں جانا جن کے باعث عراق میں کھانا، دوائیں اور طبی سامان جانے سے روک دیا گیا اور کس طرح ،اقوام متحدہ کے مطابق،نتیجتاً پانچ لاکھ سے زائد بچے ہلاک ہوئے۔

    مجھے میڈیلائن ایلبرائٹ کے ’۰ ۶ منٹ ‘ کے انٹرویو کا ایک حصہ یاد ہے جس میں اس نے اپنا یہ اظہار خیال کیا تھا کہ یہ بچے اسی قابل تھے۔میں نے گیارہ ستمبرکو دیکھا کہ کس طرح کچھ افراد نے ان بچوں کی ہلاکتوں پر ہوائی جہاز ہائی جیک کرنے اور انہیں عمارتوں میں اڑادینے کی صورت میں اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔پھر میں نے دیکھا کہ امریکہ نے براہ راست عراق پر حملہ کردیاہے۔میں نے حملے کے پہلے روزآپریشن ’Shock and Awe‘ کے نتیجے میں ہونے والی تباہی دیکھی، ہسپتال کے واڑدوں میں وہ بچے تھے جن کے سروں میں امریکی میزائلوں کے ٹکڑے کھبے ہوئے تھے(ظاہر ہے یہ سب کچھ سی این این پر نہیں دکھایا گیا)۔ مجھے حدیثہ کے قصبے کے بارے میں علم ہواجہاں چوبیس مسلمانوں کو جن میں ایک چھیتر سالہ ویل چیئر پربیٹھا بوڑھا، عورتیں اور ننھے بچے شامل ہیں، ان کے بستروں میں ہی گولیوں سے بھون دیا گیا۔ مجھے عبیر الجنبی کے بارے میں پتی چلا، ایک چودہ سالہ عراقی بچی جسے پانچ امریکی فوجیوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا، جنہوں نے پھر اس کے اور اس کے گھر والوں کے سروں میں گولیاں ماریں اور ان کی لاشوں کو جلا دیا۔میں بس اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں، آپ دیکھتے ہی ہیں کہ مسلم خواتین نامحرم مردوں کو اپنے بال تک نہیں دکھاتیں۔ ذرا تصور کریں ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والی بچی کو بے لباس کیا جائے اور پھر ایک نہیں، دو نہیں ، تین نہیں یکے بعد دیگرے پانچ فوجی اسے بے عزت کریں۔آج بھی جبکہ میں اپنے سیل میں بیٹھا ہوتا ہوں ،ان ڈرون حملوں کے بارے میں پڑھتا ہوں جو پاکستان ، صومالیہ اور یمن جیسے ممالک میں روزانہ مستقل بنیاد پر مسلمانو ں کو قتل کررہے ہیں۔



  7. #55
    Abu Dajana's Avatar
    Abu Dajana is offline Senior Member+
    Last Online
    4th July 2015 @ 04:21 PM
    Join Date
    21 Oct 2011
    Age
    38
    Gender
    Male
    Posts
    602
    Threads
    28
    Credits
    965
    Thanked
    131

    Default





    پچھلے ماہ ہی ان سترہ افغان مسلمانوں کے بارے میں سنا جن میں اکثریت ماؤں اور ان کے بچوں کی تھی،جو ایک امریکی فوجی کی گولیوں کا نشانہ بنے اور اس نے ان کی لاشوں کو بھی جلا دیا۔ یہ تو صرف چند کہانیاں ہیں جو شہ سرخیوں تک پہنچ پاتی ہیں، تاہم اسلام کے جو تصورات میں نے سب سے پہلے سیکھے ان میں بھائی چارہ اور وفادرای بھی شامل ہے، کہ ہر مسلمان خاتون میری بہن ہے اور ہر مرد میرا بھائی اور مل جل کر ہم سب ایک جسم کی مانند ہے اور ہمیں ایک دوسرے کی حفاظت کرنی ہے۔بالفاظ دیگر ،میں یہ نہیں دیکھ سکتا تھا کہ میرے بہن بھائیوں کے ساتھ یہ کچھ ہوتا رہے، امریکہ بھی ظالموں میں شامل ہو اور میں غیر جانبدار رہوں۔مظلوموں کے لئے میری حمایت جاری رہی تاہم اس بار اس میں اپنائیت بھی تھی، اور یہی احساسات ان لوگوں کے لئے بھی تھے جو ان مظلومین کے دفاع میں اٹھے۔ میں نے پال ریور کا تذکرہ کیا تھا، وہ آدھی رات کو لوگوں کو خبردار کر نے کے لئے نکلا کہ برطانوی سام ایڈمز اور جان ہینکاک کو گرفتار کرنے کے لئے لیگزنگٹن کی طرف پیش قدمی کررہے ہیں اور اس کے بعد کانکورڈجائیں گے تاکہ وہاں آزادی کے لئے لڑنے والی ملیشیا کے ذخیرہ کردہ اسلحہ کو ضبط کریں۔جس وقت تک برطانوی کانکورڈ پہنچے آزادی کے لئے لڑنے والے لوگ اپنے ہاتھوں میں اسلحہ لئے ا ن کے سامنے مقابلے کے لئے کھڑے تھے۔انہوں نے برطانویوں پر گولیاں چلائیں، ان سے لڑائی کی اور انہیں ہرا دیا۔

    اسی جنگ سے امریکی انقلاب کا آغا ز ہوا۔ جو کام ان لوگوں نے کیا اس کے لئے ایک عربی لفظ ہے ،اور وہ لفظ ’جہاد ‘ہے، اور میرا مقدمہ بھی اسی سے متعلق تھا۔وہ ساری ویڈیوز اور تراجم اور بچکانہ بحثیں کہ’ اوہ! اس نے اس جملے کا ترجمہ کیا تھا ‘اور ’اوہ ! اس نے اس جملے پر نظر ثانی کی تھی!‘،اور وہ تمام پیش کردہ باتیں ایک ہی معاملے کے گرد گھومتی تھیں:وہ مسلمان جو امریکہ کے خلاف اپنا دفاع کررہے تھے جو ان کے ساتھ وہی سلوک کررہا ہے جو برطانیہ نے امریکہ کے ساتھ کیا تھا۔پیشیوں کے اندر یہ بات بالکل واضح ہوگئی تھی کہ میں کبھی بھی بازاروں میں ’امریکیوں کے قتل‘ کے کسی منصوبے میں شامل نہیں رہا، یا جو بھی کہانی بنائی گئی تھی اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔حکومتی گواہوں نے خود بھی اس دعوے کا رد کیا، اور ایک کے بعد دوسرا ماہر اس جگہ آکر کھڑا ہوتا رہا، جنہو ں نے میرے تحریر کردہ ہر ہر لفظ کے حصے بخرے کرنے میں کئی گھنٹے گزارے کہ میرے عقائد کو بیان کرسکیں۔ اس کے بعد جب میں آزاد ہواتو حکومت نے اپنا ایک خفیہ ایجنٹ بھیجا کہ وہ مجھے اپنے کسی چھوٹے سے’دہشتگردانہ منصوبے‘ میں ملوث ہونے کی ترغیب دے سکے، لیکن میں نے شمولیت سے انکار کردیا۔ تاہم حیرت کی بات ہے کہ جیوری کو اس بارے میں کوئی خبر نہیں۔

    لہذا ،میرا یہ مقدمہ امریکی شہریوں کے قتل پر میرے موقف کے لحاظ سے نہیں تھا، بلکہ یہ امریکیوں کے ہاتھوں مسلمان شہریوں کے قتل کے لحاظ سے میرے موقف پر تھا، اور وہ یہی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی اراضی پر غاصب قوتوں کے خلاف دفاع کرنا چاہئے چاہے وہ امریکی ہوں ، روسی ہوں یا مریخی ہوں۔میں اسی بات پر یقین رکھتا ہوں، ہمیشہ سے میرا یہی یقین رہا ہے اور ہمیشہ یہی یقین رہے گا۔یہ نہ دہشت گردی ہے ،نہ انتہا پسندی ہے۔یہ تو بس دفاع نفس کی سادہ سی منطق ہے۔یہ وہی چیز ہے جس کی نمائندگی آپ کے اوپر موجود علامت کے تیر کررہے ہیں، وطن کا دفاع۔چنانچہ میں اپنے وکلاء کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ آپ کو میرے عقائد ماننے کی ضرورت نہیں۔نہیں،بلکہ جس کے اندر بھی تھوڑی سی عقل اور انسانیت ہوگی لامحالہ اسے یہ بات ماننی ہی پڑے گی۔

    اگر کوئی آپ کے گھر میں گھس کر چوری کرنا چاہے اور آپ کے اہل و عیال کو نقصان پہنچانا چاہے تو عقل یہی کہے گی کہ اس جارح کو باہر نکالنے کے لئے جو کچھ ہو سکتا ہے وہ کیا جائے۔ لیکن جب وہ گھر کوئی مسلم سرزمین ہو، اور وہ جارح امریکی فوج ہو، تو کسی وجہ سے یہ اصول بدل جاتے ہیں۔عقل کا نام’دہشت گردی ‘رکھ دیا جاتا ہے، اور جو لوگ سمندر پار سے آئے قاتلوں کے خلاف اپنا دفاع کرتے ہیں وہ ’دہشت گرد‘ بن جاتے ہیں جو ’امریکیوں کو قتل‘ کررہے ہیں۔ ڈھائی صدی پہلے امریکہ جس ذہنیت کا شکار تھا جب برطانوی ان سڑکوں پر چل رہے تھے وہی ہے جس کا شکا ر آج مسلمان ہیں جن کی سڑکوں پر امریکی فوجی مٹر گشت کررہے ہیں۔ یہ استعماریت کی ذہنیت ہے۔جب سرجنٹ بیلز نے پچھلے مہینے ان افغانوں کو قتل کیا تو ذرائع ابلاغ کا سارا زور اس کی ذات پر تھا، اس کی زندگی، اس کی پریشانی، اس کے گھر کا گروی ہونا، گویا وہی ظلم کا نشانہ بنا ہے۔اور جن لوگوں کو اس نے ماراتھا ان کے لئے کم ہی ہمدردی دکھائی گئی،گویا وہ حقیقی لوگ نہیں تھے، انسان نہیں تھے۔بدقسمتی سے یہی ذہنیت معاشرے کے ہر فرد میں راسخ ہوچکی ہے،چاہے اسے اس بات کا احساس ہو یا نہ ہو۔حتی کہ میرے وکلاء بھی، دو سال گفتگو کرنے، سمجھانے اور وضاحتیں پیش کرنے میں لگے اور پھر کہیں جاکر وہ اس قابل ہوئے کہ اپنے خول سے باہر جھانک سکیں اور کم ازکم میری بات میں موجود منطق و عقل کو بناوٹی طور پر ہی قبول کرسکیں۔

    دو سال!اگر اتنے ذہین لوگوں کو اتنا وقت لگا، جن کا کام میرا دفاع کرنا تھا، اپنی ذہنیت تبدیل کرنا تھا ، اور پھر مجھے یونہی کسی جیوری کے سامنے پیش کردیا گیا اس بات کے تحت کہ وہ میرے’غیر جانبدار موکل‘ ہیں ، مطلب یہ کہ مجھے اپنے ساتھیوں کی جیوری کے سامنے نہیں پیش کیا گیا کیونکہ جو ذہنیت امریکہ پر چھائی ہوئی ہے اس کی وجہ سے میرے کوئی ساتھی ہی نہیں۔اسی حقیقت کو بنیاد بناتے ہوئے حکومت نے مجھ پر مقدمہ چلایا، اس لئے نہیں کہ انہیں کوئی حاجت تھی، بس صرف اس لئے کیونکہ وہ ایسا کرسکتے تھے۔ میں نے تاریخ کی کلاسوں میں ایک او ر بات بھی سیکھی تھی۔

    امریکہ نے تاریخ میں ہمیشہ اپنی اقلیتوں کے خلاف غیر منصفانہ ترین حکمت عملیاں اپنائی ہیں، ایسے افعال جنہیں قانون کا تحفظ بھی حاصل تھا، اور پھربعد میں پیچھے دیکھ کر یہی کہا گیا’آخر ہم کیا سوچ رہے تھے؟‘غلامی، جم کرو،جنگ عظیم دوئم میں جاپانیوں کی نظر بندی، یہ سب امریکی معاشرے میں بالکل قابل قبول تھا، اور سپریم کورٹ کی پشت پناہی کے ساتھ تھا۔لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اور امریکہ بدل گیا، عوام اور عدلیہ دونوں نے پیچھے دیکھ کر یہی کہا کہ ’آخر ہم کیا سوچ رہے تھے؟‘ جنوبی افریقہ کی حکومت نیلسن منڈیلا کودہشت گرد سمجھتی تھی، اور اسے قید حیا ت کی سزا سنائی گئی تھی۔لیکن وقت گزر گیا اور دنیا بدل گئی،انہیں احساس ہوا کہ ان کی پالیسی کتنی ظالمانہ تھی، کہ دراصل وہ دہشت گرد نہیں تھا، اور اسے قید سے آزاد کردیاگیا۔ وہ صدر بھی بن گیا۔ لہذا ہر چیزذہنیت سے تعلق رکھتی ہے، یہ ’دہشت گردی‘ کا سارا معاملہ بھی اور یہ کہ کون ’دہشت گرد ‘ہے۔یہ سب تو وقت اور مقام پر منحصر ہے اور یہ کہ کون اس وقت ’عالمی قوت ‘ ہے۔

    آپ کی نظروں میں میں دہشت گردہوں، صرف ایک میں ہی یہاں پر ایک زرد لباس میں کھڑا ہوں اور میرا یہاں زرد لباس میں کھڑا ہونا بالکل معقول ہے۔ لیکن ایک دن امریکہ بدل جائے گا اور لوگوں کو اس دن کی حقیقت کا احساس ہوگا۔وہ دیکھیں گے کہ کس طرح ہزاروں لاکھوں مسلمان غیر ممالک میں امریکی فوج کے ہاتھوں قتل ہوئے اور اپاہج ہوئے۔ تاہم کسی طریقے سے آج میں ہوں جسے ان ممالک میں’قتل اور اپاہج کرنے کی سازش ‘ کی وجہ سے قید میں بھیجا جارہا ہے، کیونکہ میں ان لوگوں کا دفاع کرنے والے مجاہدین کی حمایت کرتا ہوں۔لوگ پیچھے مڑ کر دیکھیں گے کہ کس طرح حکومت نے مجھے’دہشتگرد‘ کی حیثیت سے قید کرنے کے لئے لاکھوں ڈالر خرچ کئے، لیکن اگر ہم کسی طرح امیر الجنبی کو اس موقع پر زندہ کرکے لاکھڑا کریں جب وہ آپ کے فوجیوں کے ہاتھوں ذلیل ہورہی تھی، اسے اس گواہی کے کٹہرے میں کھڑا کریں اور اس سے پوچھیں کہ دہشت گرد کون ہیں، تو یقیناًاس کا اشارہ میر ی طرف نہیں ہوگا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مجھ پر شدت کا بھوت سوار ہے، ’امریکیوں کے قتل ‘کا بھوت سوار ہے۔ لیکن اس دور میں رہنے والے مسلمان کی حیثیت سے، میں اس سے زیادہ طعن آمیز جھوٹ سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔

  8. #56
    Abu Dajana's Avatar
    Abu Dajana is offline Senior Member+
    Last Online
    4th July 2015 @ 04:21 PM
    Join Date
    21 Oct 2011
    Age
    38
    Gender
    Male
    Posts
    602
    Threads
    28
    Credits
    965
    Thanked
    131

    Default





    پچھلے ماہ ہی ان سترہ افغان مسلمانوں کے بارے میں سنا جن میں اکثریت ماؤں اور ان کے بچوں کی تھی،جو ایک امریکی فوجی کی گولیوں کا نشانہ بنے اور اس نے ان کی لاشوں کو بھی جلا دیا۔ یہ تو صرف چند کہانیاں ہیں جو شہ سرخیوں تک پہنچ پاتی ہیں، تاہم اسلام کے جو تصورات میں نے سب سے پہلے سیکھے ان میں بھائی چارہ اور وفادرای بھی شامل ہے، کہ ہر مسلمان خاتون میری بہن ہے اور ہر مرد میرا بھائی اور مل جل کر ہم سب ایک جسم کی مانند ہے اور ہمیں ایک دوسرے کی حفاظت کرنی ہے۔بالفاظ دیگر ،میں یہ نہیں دیکھ سکتا تھا کہ میرے بہن بھائیوں کے ساتھ یہ کچھ ہوتا رہے، امریکہ بھی ظالموں میں شامل ہو اور میں غیر جانبدار رہوں۔مظلوموں کے لئے میری حمایت جاری رہی تاہم اس بار اس میں اپنائیت بھی تھی، اور یہی احساسات ان لوگوں کے لئے بھی تھے جو ان مظلومین کے دفاع میں اٹھے۔ میں نے پال ریور کا تذکرہ کیا تھا، وہ آدھی رات کو لوگوں کو خبردار کر نے کے لئے نکلا کہ برطانوی سام ایڈمز اور جان ہینکاک کو گرفتار کرنے کے لئے لیگزنگٹن کی طرف پیش قدمی کررہے ہیں اور اس کے بعد کانکورڈجائیں گے تاکہ وہاں آزادی کے لئے لڑنے والی ملیشیا کے ذخیرہ کردہ اسلحہ کو ضبط کریں۔جس وقت تک برطانوی کانکورڈ پہنچے آزادی کے لئے لڑنے والے لوگ اپنے ہاتھوں میں اسلحہ لئے ا ن کے سامنے مقابلے کے لئے کھڑے تھے۔انہوں نے برطانویوں پر گولیاں چلائیں، ان سے لڑائی کی اور انہیں ہرا دیا۔

    اسی جنگ سے امریکی انقلاب کا آغا ز ہوا۔ جو کام ان لوگوں نے کیا اس کے لئے ایک عربی لفظ ہے ،اور وہ لفظ ’جہاد ‘ہے، اور میرا مقدمہ بھی اسی سے متعلق تھا۔وہ ساری ویڈیوز اور تراجم اور بچکانہ بحثیں کہ’ اوہ! اس نے اس جملے کا ترجمہ کیا تھا ‘اور ’اوہ ! اس نے اس جملے پر نظر ثانی کی تھی!‘،اور وہ تمام پیش کردہ باتیں ایک ہی معاملے کے گرد گھومتی تھیں:وہ مسلمان جو امریکہ کے خلاف اپنا دفاع کررہے تھے جو ان کے ساتھ وہی سلوک کررہا ہے جو برطانیہ نے امریکہ کے ساتھ کیا تھا۔پیشیوں کے اندر یہ بات بالکل واضح ہوگئی تھی کہ میں کبھی بھی بازاروں میں ’امریکیوں کے قتل‘ کے کسی منصوبے میں شامل نہیں رہا، یا جو بھی کہانی بنائی گئی تھی اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔حکومتی گواہوں نے خود بھی اس دعوے کا رد کیا، اور ایک کے بعد دوسرا ماہر اس جگہ آکر کھڑا ہوتا رہا، جنہو ں نے میرے تحریر کردہ ہر ہر لفظ کے حصے بخرے کرنے میں کئی گھنٹے گزارے کہ میرے عقائد کو بیان کرسکیں۔ اس کے بعد جب میں آزاد ہواتو حکومت نے اپنا ایک خفیہ ایجنٹ بھیجا کہ وہ مجھے اپنے کسی چھوٹے سے’دہشتگردانہ منصوبے‘ میں ملوث ہونے کی ترغیب دے سکے، لیکن میں نے شمولیت سے انکار کردیا۔ تاہم حیرت کی بات ہے کہ جیوری کو اس بارے میں کوئی خبر نہیں۔

    لہذا ،میرا یہ مقدمہ امریکی شہریوں کے قتل پر میرے موقف کے لحاظ سے نہیں تھا، بلکہ یہ امریکیوں کے ہاتھوں مسلمان شہریوں کے قتل کے لحاظ سے میرے موقف پر تھا، اور وہ یہی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی اراضی پر غاصب قوتوں کے خلاف دفاع کرنا چاہئے چاہے وہ امریکی ہوں ، روسی ہوں یا مریخی ہوں۔میں اسی بات پر یقین رکھتا ہوں، ہمیشہ سے میرا یہی یقین رہا ہے اور ہمیشہ یہی یقین رہے گا۔یہ نہ دہشت گردی ہے ،نہ انتہا پسندی ہے۔یہ تو بس دفاع نفس کی سادہ سی منطق ہے۔یہ وہی چیز ہے جس کی نمائندگی آپ کے اوپر موجود علامت کے تیر کررہے ہیں، وطن کا دفاع۔چنانچہ میں اپنے وکلاء کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ آپ کو میرے عقائد ماننے کی ضرورت نہیں۔نہیں،بلکہ جس کے اندر بھی تھوڑی سی عقل اور انسانیت ہوگی لامحالہ اسے یہ بات ماننی ہی پڑے گی۔

    اگر کوئی آپ کے گھر میں گھس کر چوری کرنا چاہے اور آپ کے اہل و عیال کو نقصان پہنچانا چاہے تو عقل یہی کہے گی کہ اس جارح کو باہر نکالنے کے لئے جو کچھ ہو سکتا ہے وہ کیا جائے۔ لیکن جب وہ گھر کوئی مسلم سرزمین ہو، اور وہ جارح امریکی فوج ہو، تو کسی وجہ سے یہ اصول بدل جاتے ہیں۔عقل کا نام’دہشت گردی ‘رکھ دیا جاتا ہے، اور جو لوگ سمندر پار سے آئے قاتلوں کے خلاف اپنا دفاع کرتے ہیں وہ ’دہشت گرد‘ بن جاتے ہیں جو ’امریکیوں کو قتل‘ کررہے ہیں۔ ڈھائی صدی پہلے امریکہ جس ذہنیت کا شکار تھا جب برطانوی ان سڑکوں پر چل رہے تھے وہی ہے جس کا شکا ر آج مسلمان ہیں جن کی سڑکوں پر امریکی فوجی مٹر گشت کررہے ہیں۔ یہ استعماریت کی ذہنیت ہے۔جب سرجنٹ بیلز نے پچھلے مہینے ان افغانوں کو قتل کیا تو ذرائع ابلاغ کا سارا زور اس کی ذات پر تھا، اس کی زندگی، اس کی پریشانی، اس کے گھر کا گروی ہونا، گویا وہی ظلم کا نشانہ بنا ہے۔اور جن لوگوں کو اس نے ماراتھا ان کے لئے کم ہی ہمدردی دکھائی گئی،گویا وہ حقیقی لوگ نہیں تھے، انسان نہیں تھے۔بدقسمتی سے یہی ذہنیت معاشرے کے ہر فرد میں راسخ ہوچکی ہے،چاہے اسے اس بات کا احساس ہو یا نہ ہو۔حتی کہ میرے وکلاء بھی، دو سال گفتگو کرنے، سمجھانے اور وضاحتیں پیش کرنے میں لگے اور پھر کہیں جاکر وہ اس قابل ہوئے کہ اپنے خول سے باہر جھانک سکیں اور کم ازکم میری بات میں موجود منطق و عقل کو بناوٹی طور پر ہی قبول کرسکیں۔

    دو سال!اگر اتنے ذہین لوگوں کو اتنا وقت لگا، جن کا کام میرا دفاع کرنا تھا، اپنی ذہنیت تبدیل کرنا تھا ، اور پھر مجھے یونہی کسی جیوری کے سامنے پیش کردیا گیا اس بات کے تحت کہ وہ میرے’غیر جانبدار موکل‘ ہیں ، مطلب یہ کہ مجھے اپنے ساتھیوں کی جیوری کے سامنے نہیں پیش کیا گیا کیونکہ جو ذہنیت امریکہ پر چھائی ہوئی ہے اس کی وجہ سے میرے کوئی ساتھی ہی نہیں۔اسی حقیقت کو بنیاد بناتے ہوئے حکومت نے مجھ پر مقدمہ چلایا، اس لئے نہیں کہ انہیں کوئی حاجت تھی، بس صرف اس لئے کیونکہ وہ ایسا کرسکتے تھے۔ میں نے تاریخ کی کلاسوں میں ایک او ر بات بھی سیکھی تھی۔

    امریکہ نے تاریخ میں ہمیشہ اپنی اقلیتوں کے خلاف غیر منصفانہ ترین حکمت عملیاں اپنائی ہیں، ایسے افعال جنہیں قانون کا تحفظ بھی حاصل تھا، اور پھربعد میں پیچھے دیکھ کر یہی کہا گیا’آخر ہم کیا سوچ رہے تھے؟‘غلامی، جم کرو،جنگ عظیم دوئم میں جاپانیوں کی نظر بندی، یہ سب امریکی معاشرے میں بالکل قابل قبول تھا، اور سپریم کورٹ کی پشت پناہی کے ساتھ تھا۔لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اور امریکہ بدل گیا، عوام اور عدلیہ دونوں نے پیچھے دیکھ کر یہی کہا کہ ’آخر ہم کیا سوچ رہے تھے؟‘ جنوبی افریقہ کی حکومت نیلسن منڈیلا کودہشت گرد سمجھتی تھی، اور اسے قید حیا ت کی سزا سنائی گئی تھی۔لیکن وقت گزر گیا اور دنیا بدل گئی،انہیں احساس ہوا کہ ان کی پالیسی کتنی ظالمانہ تھی، کہ دراصل وہ دہشت گرد نہیں تھا، اور اسے قید سے آزاد کردیاگیا۔ وہ صدر بھی بن گیا۔ لہذا ہر چیزذہنیت سے تعلق رکھتی ہے، یہ ’دہشت گردی‘ کا سارا معاملہ بھی اور یہ کہ کون ’دہشت گرد ‘ہے۔یہ سب تو وقت اور مقام پر منحصر ہے اور یہ کہ کون اس وقت ’عالمی قوت ‘ ہے۔

    آپ کی نظروں میں میں دہشت گردہوں، صرف ایک میں ہی یہاں پر ایک زرد لباس میں کھڑا ہوں اور میرا یہاں زرد لباس میں کھڑا ہونا بالکل معقول ہے۔ لیکن ایک دن امریکہ بدل جائے گا اور لوگوں کو اس دن کی حقیقت کا احساس ہوگا۔وہ دیکھیں گے کہ کس طرح ہزاروں لاکھوں مسلمان غیر ممالک میں امریکی فوج کے ہاتھوں قتل ہوئے اور اپاہج ہوئے۔ تاہم کسی طریقے سے آج میں ہوں جسے ان ممالک میں’قتل اور اپاہج کرنے کی سازش ‘ کی وجہ سے قید میں بھیجا جارہا ہے، کیونکہ میں ان لوگوں کا دفاع کرنے والے مجاہدین کی حمایت کرتا ہوں۔لوگ پیچھے مڑ کر دیکھیں گے کہ کس طرح حکومت نے مجھے’دہشتگرد‘ کی حیثیت سے قید کرنے کے لئے لاکھوں ڈالر خرچ کئے، لیکن اگر ہم کسی طرح امیر الجنبی کو اس موقع پر زندہ کرکے لاکھڑا کریں جب وہ آپ کے فوجیوں کے ہاتھوں ذلیل ہورہی تھی، اسے اس گواہی کے کٹہرے میں کھڑا کریں اور اس سے پوچھیں کہ دہشت گرد کون ہیں، تو یقیناًاس کا اشارہ میر ی طرف نہیں ہوگا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مجھ پر شدت کا بھوت سوار ہے، ’امریکیوں کے قتل ‘کا بھوت سوار ہے۔ لیکن اس دور میں رہنے والے مسلمان کی حیثیت سے، میں اس سے زیادہ طعن آمیز جھوٹ سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔

  9. #57
    Join Date
    09 May 2012
    Location
    Karachi
    Age
    33
    Gender
    Male
    Posts
    18
    Threads
    1
    Credits
    0
    Thanked
    2

    Default

    nice

  10. #58
    SMZAIN is offline Senior Member+
    Last Online
    6th July 2012 @ 05:31 PM
    Join Date
    04 Jul 2010
    Age
    34
    Posts
    34
    Threads
    11
    Credits
    940
    Thanked
    2

    Default

    nice abu dajana

  11. #59
    WorldDoN07 is offline Senior Member+
    Last Online
    27th June 2023 @ 01:33 PM
    Join Date
    14 May 2012
    Location
    Islamabad
    Age
    29
    Gender
    Male
    Posts
    88
    Threads
    14
    Credits
    178
    Thanked: 1

    Default

    hmm! nice

Page 5 of 5 FirstFirst ... 2345

Similar Threads

  1. Replies: 25
    Last Post: 9th December 2015, 08:31 AM
  2. America Ka Jaiza / A view on America
    By Mohammed Ishaq in forum Halat-e-Hazra
    Replies: 11
    Last Post: 9th December 2015, 08:29 AM
  3. Acha America or Bura America?
    By Mohammed Ishaq in forum Halat-e-Hazra
    Replies: 11
    Last Post: 9th December 2015, 08:29 AM
  4. Israel ka zulm aor America ki bay hisi???
    By ikram62 in forum Baat cheet
    Replies: 8
    Last Post: 7th June 2010, 11:17 PM
  5. Replies: 2
    Last Post: 8th April 2009, 12:05 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •