بلکل درست کہا آپ نے . قرآن و حدیث پہلے باقی بعد میں . لیکن جن مجدیدین و مفسرین کو خد مرزا نے مستنند تسلیم کیا ہے ان کی تفسیر آپ کو ماننا لازم ہوگی
اور ان مجدیدین کے متعلق آپ کیا کہے گے کہ جن کو خد مرزا نے مجدد تسلیم کیا ہے
بلکل درست کہا آپ نے . قرآن و حدیث پہلے باقی بعد میں . لیکن جن مجدیدین و مفسرین کو خد مرزا نے مستنند تسلیم کیا ہے ان کی تفسیر آپ کو ماننا لازم ہوگی
اور ان مجدیدین کے متعلق آپ کیا کہے گے کہ جن کو خد مرزا نے مجدد تسلیم کیا ہے
Last edited by Ustaad; 31st August 2012 at 06:01 PM.
Max img size for signature is 30KB or Less
فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِمْ بِآيَاتِ اللَّهِ وَقَتْلِهِمُ الْأَنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ ۚ بَلْ طَبَعَ اللَّهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا وَبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَىٰ مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًا وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ ۚ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا
اور ان کے کفر او رمریم پر بڑا بہتان باندھنے کے سبب سے اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے مسیح عیسیٰ مریم کے بیٹے کو قتل کیا جو الله کا رسول تھا حالانکہ انہوں نے نہ اسے قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھایا لیکن ان کو اشتباہ ہو گیا اورجن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں ان کے پا س بھی اس معاملہ میں کوئی یقین نہیں ہے محض گمان ہی کی پیروی ہے انہوں نے یقیناً مسیح کو قتل نہیں کیا بلکہ اسے الله نے اپنی طرف اٹھا لیا اور الله زبردست حکمت والا ہے
سورہ نساء 155-158
مختصر تفسیر انشاءاللہ بعد میں
Allah en ko adayat dy or sab ko sai rasty par chaly...ameen..
اللہ ان کے قول کی تکذیب فرماتا ہے کہ یہودیوں نے نہ حضرت عیسٰی علیہ اسلام کو نہ قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا یہودی جو مختلف باتیں اس بارہ میں کہتے ہیں اپنی اپنی اٹکل سے کہتے ہیں اللہ نے ان کو شبہ میں ڈال دیا. خبر کسی کو بھی نہیں ، واقعی بات یہ ہے کہ اللہ نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور اللہ سب چیزوں پر قادر ہے اور اس کے ہر کام میں حکمت ہے، قصہ یہ ہوا کہ جب یہودیوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے قتل کا عزم کیا تو پہلے ایک آدمی ان کے گھر میں داخل ہوا حق تعالٰی نے ان کو تو آسمان پر اٹھا لیا اور اس شخص کی صورت حضرت عیسٰی علیہ السلام کی صورت کے مشابہ کردی جب باقی لوگ گھر میں گھسے تو اس کو مسیح سمجھ کر قتل کردیا پھر خیال آیا تو کہنے لگے کہ اس کا چہرہ تو مسیح کے چہرہ کہ مشابہ ہے اور باقی بدن ہمارے ساتھی کا معلوم ہوتا ہےکسی نے کہا کہ یہ مقتول مسیح ہے تو وہ آدمی کہا گیا اور ہمارا آدمی ہے تو مسیح کہا گیا . اب صرف اٹکل سے کسی نے کچھ کہا کسی نے کچھ کہا علم کسی کو بھی نہیں حق یہی ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام ہر گز مقتول نہیں ہوئے بلکہ آسمان پر اللہ نے اٹھا لیا اور یہود کو شبہ میں ڈال دیا
تفسیر عثمانی
حدیث
مرزائی جی
میں آپ کو اپنے اور تمام مسلمانوں کے حیات عیسٰی علیہ السلام کے عقیدہ کے متعلق قرآن و حدیث اور تفسیر کی روشنی میں وضاحت کرچکا ہوں. اب آپ اپنے عقیدہ کے مطابق عیسٰی علیہ السلام کے متعلق قرآن و حدیث اور تفسیر کی روشنی میں وضاحت کریں
mirazi bhaag gya.kaha gay mirzai jwaab do.Muslmaan zinda baad
mirzayoo ko to Quran Shareef ki puri samj e nai hai pata nai kiu in ko hidayat nai mil rahi.Allah in ko hidayat ataa farmay aor ham sab ka khatmaa bil khair farmay.Ameen!
سب پر اللہ کی سلامتی ھو؛
اُستاد صاحب؛
وہ تمام مجددین جن کی مرزا صاحب نے تصدیق کی ھے۔ ھمارے مطابق وہ اللہ کے
پاک بندے ھیں۔یہ تمام بزرگ( مجددین) قابلِ احترام ھیں۔اسی طرح اِن بزگانِ دین کی
کی تصانیف(دینی کاوششیں/خِدمات) بھی قابلِ احترام ھیں۔
لیکن یھاں یہ واضع کر دوں کہ ؛
نمبر ایک۔
کہ اگر کوئی ایسی تحریر جو قرآنِ پاک کے خلاف ھو اور اِن بزرگانِ دین سے منسوب
کی جائے تو ایسی تحریر کو چھوڑ دیا جائے گا۔کیونکہ صرف قرآنِ پاک کی حفاظت کا
وعدہ اللہ نے کیا ھے۔اِن بزرگانِ دین کی تصانیف کی حفاظت کی ضمانت نہ تو اللہ نے
دی اور نہ ھی اِن بزرگانِ دین نے دی۔اور نہ کوئی اور دے سکتا ھے۔
اس لئیے ھر حال میں فوقیت قرآنِ پاک کو ھی حاصل رھے گی۔
ایسی تحریر جو قرآنِ پاک کے خلاف ھو اور اِن بزرگانِ دین سے منسوب
کی جائے تو ایسی صورت میں یہ ھی تصور کیا جا سکتا ھے کہ ایسی تحریر غلط منسوب کی
گئی ھے۔ تحریر میں تحریف کی گئی ھے، ترجم غلط کیا گیا ھے یا سمجھنے میں غلطی کی گئ ھے۔
یھی وجہ ھے کہ اِن بزرگانِ دین سے مختلف فرقوں کے لوگ مختلف باتیں منسوب کرتے ھیں۔
اور اِن اختلافی باتوں/ نظریات کہ تحت قرآنِ پاک کا فیصلہ کرنا چاھتے ھیں ۔حلانکہ قرآن۔پاک کو اختیار حاصل
کہ کہ وہ ان اختلافی باتوں/ نظریات میں حق اور باطل کا فیصلہ کرے۔ کیونکہ اللہ کی ضمانت صرف قرآنِ پاک کو
حاصل ھے۔صرف قرآنِ پاک ھی حجت ھے۔ آپ مجددین کی بات کر رھے ھیں تو انھیں مجددین کے نزدیک بھی
احادیث شریف،اقوالِ صحابہ کے لئے قرآن پاک ھی معیار/حجت/کسوٹی ھے ۔ جو احادیث شریف،اقوالِ صحابہ
قرآنِ پاک کے مطابق وہ صحیح اور جو قرآن پاک سے متضاد وہ ضعیف ۔ یہ سادہ سا اصول/قانون تصانیفِ مجددین
پر بھی لاگو ھوتا ھے امید ھے کہ آپ کو اختلاف نھیں ھو گا۔
نمبر دوم؛
اگر کسی بات /نظریہ کو قرآنِ پاک سے صراحت نھیں ملتی یعنی قرآنِ پاک میں اُس معملہ میں وضاحت نھیں ملتی
تو پھر احادیث شرییف سے صراحت لی جاتی ھے۔ اگر احادیث شرییف سے بھی صورتِ حال واضع نھیں ھوتی
تو پھر اجتھاد سے کام لیا جاتا ھے۔ یعنی جو مجدد کے نزدیک مختلف امکانات/خیلات میں سے سب سے
بھتر امکان/خیال(قرینِ قیاس)ھو گا۔وہ اجتھاد کھلاتا ھے۔سارے کہ سارے اجتھاد ٹھیک ھوں گے یہ لازم نھیں
کیونکہ اجتھاد نہ تو کلاِم اللہ ھے اور نہ ھی مجدد نبی اللہ ھے۔اس لیئے ایسےاجتھاد کا ماننا فرض نھیں۔
جو قرآن و احادیث سے متضاد ثابت و جائے۔
یعنی جو اللہ(قرآنِ پاک) نے نھیں کھا اور رسول اللہ(احادیث مبارکہ) نے بھی نھیں کھا بلکہ مجدد نے اپنی
سب سے بھتر رائے/خیال(قرین قیاس) کو اجتھاد بنایا۔ یہ اجتھاد ( رائے/خیال(قرین قیاس) غلط بھی ھو سکتا ھے۔
کیونکہ نیک نتیی سے کیئے گئے غلط اجتھاد پر بھی مجدد کو دو میں سے ایک نیکی ملتی ھے۔
اس لیے مجدد کو کوئی گناہ نھیں ملتا۔ یعنی غلط اجتھاد کی وجہ سے مجدد گناہ گار یا مجرم نھیں بنتا۔
بلکہ اجتھاد کہ غلط ھونے پر بھی نیکیوں میں اضافہ ھوتا ھے جس سے مجدد کے روحانی مرتبہ میں
اضافہ ھوتا ھے۔ اسی طرح جو لوگ مجدد کی اطاعت کرتے ھوئے کسی غلط اجتھاد کو اپناتے ھیں
وہ بھی گناہ گار نھیں ھوتے بلکہ بسبب اطاعت اِن کی نیکیوں میں اضافہ ھوتا ھے۔
حاصلِ بحث؛
احادیث شریف ، اقوالِ صحابہ ،تصانیفِ مجددین و بزرگانِ دین سب کے لیئے کلامِ اللہ(قرآنِ پاک) حجت/ میعار ھو گا۔
اسی طرح کسی اجتھاد کہ لیئے لازم ھے کہ وہ کلامِ اللہ(قرآنِ پاک) اور احادیث شریف کے خلاف نہ ھو۔
امید ھے آپ کو اِس پر اعتراض نہ ھو گا۔اور اگر اعترض ھے تو دلیل کے ساتھ وضاحت کریں۔
یا پھر اتفاق کریں اس کہ بعد حیاتِ مسیح پر قرآنِ پاک سے جو آپ نے دلایئل دیئے ھیں اُس کو سمجھتے ھیں۔
جواب کا منتظر
Bookmarks