حقیقی ترقی خوراک ، لباس، رہائش ، تعلیم وتربیت ، تجارت
(Syed Qamar Ahmad Subzwari, Lahore)

ملک میں الیکٹرانک میڈیا ریٹنگ کی دوڑ میں بری طرح مصروف ہے کہ کسی بات کا خیال نہیں رکھا جا رہا ان کی اس دوڑ نے ملک پر کیا اثرات ڈال رکھے ہیں ۔ درست ہے میڈیا آزاد ہونا چاہیے لیکن اس کے باوجود سماجی ، مذہبی ، اخلاقی ، قانونی اقدار کا خیال رکھنا بھی ان کے فرائض میں شامل ہے لیکن افسوس کےساتھ کہا جا سکتا ہے کہ میڈیا ان اقدار کی دھجیاں بکھیر رہا ہے ۔ میڈیا پر ایسے پروگرام بھی آرہے ہیں جو سوسائٹی کے لوگ اپنے بچوں کے ساتھ کسی صورت نہیں دیکھ سکتے۔ ”بریکنگ نیوز“ کے نام پر سنسنی اور زرد صحافت پیش کی جاتی ہے ۔ اس وقت ضرورت اس امر کی تھی کہ میڈیا اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے عوام کے اصل مسائل کو اجاگر کرتا اور ان مسائل کے حل کےلئے قابل افراد کو تجزیات کےلئے عوام کے سامنے پیش کرتا۔ عوام کا مسئلہ نہ بیسویں ترمیم ہے نہ میمو سکینڈل اور نہ توہین عدالت ۔ اصل میں ”روٹی ای سوال تے روٹی ای ایدا جواب اے“ ہمیں اب عوام کے اصل مسائل کے حل کےلئے آگے بڑھنا ہے ۔ پوری دنیامیں معاشی بحران سرمایہ دارانہ نظام کے غروب کااشارہ دیتا نظرآرہا ہے ۔ امریکہ ویورپ کےساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات بھی اس دھچکے کا شکار ہو چکی ہے۔ دنیا میں آبادی بڑی تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے جس سے بے شمار مسائل جنم لے رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام نے بڑے بڑے پلازے، انٹریٹ، مشینری اور الیکٹرانکس پر زیادہ زور دیا اور اس کو معاشی و سماجی ترقی تصور کیا جاتا رہا جبکہ دراصل انسانی سوچ کی شروع دن سے ترجیح خوراک، صحت، لباس، رہائش، تعلیم اور فنی تعلیم رہی ہے ۔ تجارتی سرمایہ دارانہ نظام نے جو ترقی کی ہے اس میں شک نہیں کہ یہ بھی انسانی سماج کی ضرورت ہے لیکن یہ ضرورت اضافی ہے ۔ آج کا انسان کاغذ کے ایک ٹکڑے جس کا نام کرنسی ہے کا غلام بن کے رہ گیا ہے۔ اس کو حاصل کرنے کےلئے اس نے دن رات ایک کی ہوئی ہے لیکن یہ ہرجائی کرنسی کسی حد تک ہی سماج کا ساتھ دے سکتی ہے ۔ اس کے برعکس پیداواری کام جس میں زراعت، مویشی پال، شجرکاری وغیرہ معاشرہ کو خوراک کا تحفظ فراہم کرتی ہے ۔ تعلیم و فنی تربیت معاشرہ کو ترقی اور امن کی راہ دکھاتی ہے ۔ شجرکاری سے پھل کے علاوہ تعمیر و ایندھن کے وسائل کے ساتھ قدرتی موسم کے حسن کے قیام میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان دنیا کے خطے میں اپنی مثال آپ ہے ۔ اس کے موسم ، اس کے دریا، اس کے پہاڑ، سمندر ، اس کے میدان قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے۔ ہمیں دنیا میں آئندہ آنےوالے خوراک کے بحران کو مدنظر رکھ کر مستقل میعاد پالیسی تیار کرنا ہوگی ۔ ہم اپنے لوگوں کو تربیت دے کر گائے بھینس، بکری، بھیڑ، مچھلی ، مرغی ، شترمرغ، بطخ، خرگوش کے جدید تقاضوں کے مطابق فارمنگ کرکے نہ صرف اپنے ملک کی ضروریات بلکہ بیرون ملک بھی اس کی بڑی مارکیٹ جن میں یورپ، ویتنام، چائنہ اور امارات میں اپنا تجارتی مورچہ قائم کر سکتے ہیں ۔ اسی طرح زراعت میں باقاعدہ فنی تربیت دے کر کاشتکار کو زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے میں مدد دی جا سکتی ہے ۔ عالمی ضروریات کو مد نظر رکھ کر اپنی زراعت کی پیداوار کی بہتر مارکیٹ پیدا کی جا سکتی ہے ۔ پاکستان کا صوبہ بلوچستان معدنی ذخائر سے مالا مال ہے لیکن ان ذخائر کو نکالنے کےلئے ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے۔ اس کمی کو دور کرنے کےلئے ہمارے پاس چائنہ اور روس نزدیک ترین ہمسائے ہیں انکی ٹیکنالوجی اور سرمائے کےساتھ اپنی افرادی قوت شامل کرکے ملک کے اندر اس خام مال سے پیداوار تیار کرکے ملکی ضروریات پوری کرنے کےساتھ ساتھ بیرون ملک مارکیٹ تک رسائی حاصل کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ اپنے افراد کو فنی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے بیرون ملک ایکسپورٹ کیا جا سکتا ہے جو ملک کی ترقی میں اہم کردار کے حامل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں کاٹن اور ریشم کی پیداوار اور دیگر ممالک سے بہتر مواقع موجود ہیں ۔ ہماری افرادی قوت اس وقت بھی ہمارے نزدیک ترین ممالک سے سستی ہے اس افرادی قوت کا استعمال کرتے ہوئے ہم پیداواری سرگرمیوں میں بہتر مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ ان افراد کو متعلقہ شعبہ جات میں تربیت دے کر ملک کا سرمایہ بنایا جا سکتا ہے۔ آج ہمارے ملک کو بنے چھ دہائیوں سے زائد عرصہ گزر گیا ہے لیکن ابھی تک ہم نے تعلیم کی طویل مدتی پالیسی نہیں بنائی ہر دفعہ نئی حکومت اپنی نسلوں پر نت نئے تجربات کرتی آرہی ہے ۔ کہیں انگلش میڈیم، کہیں اردو میڈیم اور پتہ نہیں کیا کیا ۔پرائیویٹ سکولوں کا ایک جنگل اُگ آیا ہے جو اپنے اپنے نصاب نافذ کیے ہوئے ہیں۔ وائٹ کالر طبقہ اپنے بچوں کی تعلیم کےلئے سب سے زیادہ پریشان نظر آرہا ہے۔ میری تجویز ہوگی کہ نئے نئے تجربات کرنے کی بجائے تمام صوبائی اور وفاقی اکائیاں مل کر طویل مدتی تعلیمی پالیسی اپنائیں جو پورے ملک میں یکساں ہو اور پورے ملک میں کوئی بچہ بھی تعلیم سے محروم نہ رہے ۔ پرائمری سے لے کر ہائیر ایجوکیشن تک یکساں نصاب کو تمام اداروں میں قابل ترین اساتذہ کے ذریعے تعلیم دی جائے۔ امتحان بھی سنٹرلائز کیا جائے۔ اعلیٰ تعلیم کےلئے ملک کے نامور اساتذہ کےساتھ ساتھ بیرون ملک اچھی شہرت کے حامل تعلیمی اداروں کے قابل ترین اساتذہ کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہے ۔ کیونکہ علم حاصل کرنے کےلئے علاقہ کی قید نہیں ہونی چاہیے اور یہ جہاں سے بھی حاصل ہو حاصل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ طالبعلموں کی ریسرچ ورک میں دلچسپی کے ذرائع زیادہ سے زیادہ مہیا کیے جانے چاہئیں۔ ملکوں میں بڑے بڑے شہر اس کے لیے وجود میں آرہے ہیں کہ ہم نے تمام وسائل کو شہروں پر خرچ کرنے کو ترجیح دینا شروع کردی۔ اگر ہم اپنے لوگوں کو جدید زراعت ،جدید فارمنگ کے مواقع مہیا کریں ۔ تعلیم اور صحت انکے نزدیک ترین ہو ، رہائشی سہولیات میسر ہوں تو لوگ اپنے آبائی علاقے چھوڑ کر شہروں کا رخ نہیں کریں گے۔مختلف علاقوں سے شہروں میں اس سے بے شمار انتظامی ، معاشرتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا تدارک اسی طرح کیا جا سکتا ہے کہ ہر علاقہ میں رہنے والا شہری تعلیمی ،کاروباری، زراعتی ،فارمنگ اور دیگر ضروری معاشرتی ضرورتوں سے اپنے علاقے میں مستفید ہو رہا ہو۔ اس طرح نہ صرف انتظامی معاملات آسان ہونگے بلکہ ہر کسی کو با آسانی رہائش،خوراک، تعلیم حاصل ہو سکے گی ۔ یاد رکھیں جو قومیں آج فیصلہ کرلیں گی کہ انہیں پیداواری کام کو ترجیح دینی ہے عوام کو تعلیم کےساتھ ساتھ ہنر مند بنانا ہے اور خوراک کو اہم فیکٹر کے طور پر لینا ہے وہ دیگر اقوام کے مقابلہ میں بہتر مقام پر کھڑی ہونگی۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس اہم ترین نکتہ پر غور کرتے ہوئے اپنے منشور میں عوام کو آئندہ آنےوالے مسائل پر نہ صرف منصوبہ پیش کریں بلکہ اس بات کی ضمانت دیں کہ اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں اس منصوبہ پر عمل کریں گے۔ زراعت، فارمنگ، تجارت اور تعلیم کے شعبہ جات انبیاءکا پسندیدہ ترین سیکٹر رہا ہے ۔ ہم ان کی تقلید کرتے ہوئے معاشرہ کی بہتری میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں اور دیگر اقوام کےلئے دنیامیں اچھی مثال بن سکتے ہیں۔ اللہ رب العالمین وقادر مطلق میرے ملک کو ترقی دے اور حقیقی ترقی حاصل کرنے میں ہماری مدد فرمائے۔ آمین ۔ ٭٭
٭٭٭