میں پیدائشی قادیانی تھا۔جس کا مجھے دکھ ہے۔ میں نے اپنی زندگی کے ۵۵سال قادیانی ماحول میں گزارے جس کا مجھے پچھتاوا ہے، پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی گزری ہوئی زندگی ایک خوفناک اژدھے کی مانند دکھائی دیتی ہے جس نے زندگی کی تمام خوصورتیوں کو نگل لیا ہو۔
مجھے بچپن سے ہی جھوٹ سے شدید نفرت ہے اور قادیانیت کی چونکہ بنیاد ہی جھوٹ پر ہے اس لیے مجھے قدرتی طور پر قادیانیت سے نفرت تھی۔ میں نے کبھی بھی قادیانیت کی تبلیغ نہیں کی۔ نہ ہی کسی الزام لگنے پر قادیانیت کا دفاع کیا۔ کیونکہ بطور قادیانی جتنا اندر سے قادیانیت کو میں جانتا تھا کوئی مسلمان تو اس کا عشر عشیر بھی نہیں جانتا۔ پھر بھی میں ’’روایتی قادیانی‘‘ کی سی زندگی گزار رہا تھا۔ یہ ’’روایتی قادیانی‘‘ کون ہیں؟ یہ دراصل عام قادیانی میں جو مرزا صاحب اور ان کے جانشینوں کی جعلی نبوتوں خلافتوں اور حماقتوں کو اچھی طرح سے جانتے ہیں لیکن پھر بھی ان کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے۔ خاموشی سے زندگی گزارے چلے جاتے ہیں۔ جماعت احمدیہ میں ایسے مرزائیوں کی کثرت ہے۔ یہ لوگ مرزا غلام احمد قادیانی ان کے نام نہاد خلفاء اور قادیانیوں کی ام المؤمنین(معاذ اللہ) اور چھوٹی آپا اور بڑی آپا کو اپنی نجی محفلوں میں ننگی گالیاں دیتے ہیں لیکن جماعت کے عہدیداروں کے سامنے ان کا احترام کرتے ہیں۔ اس طرح یہ ایک دوہری زندگی گزار رہے ہیں جو کہ بجا طور پر منافقت کی زندگی ہے۔ ان کے اعصاب اس دوہری اداکاری سے ٹوٹ چکے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب خاتم الانبیاء محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے مجھے قادیانی زندگی کے عذاب سے نکالاجس کے لیے میں اللہ عزو جل کا بے شمار شکر ادا کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ وہ باقی قادیانیوں کو بھی اس مصیبت سے نکالے۔ آمین یہ قادیانی بے چارے بے حد مجبور ہیں۔ ان کے آپس میں رشتے ہیں جنھوں نے انھیں مجبور کر رکھا ہے کہ خاموشی سے جماعت احمدیہ کے اندر ہی زندگی گزاریں۔ بعض نے تو مجبوری کی بنا پر جماعت احمدیہ کو نہ چھوڑنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ مثلاً میں نے اپنے ایک قریبی رشتہ دار قادیانی کو ڈنمارک کے محمد اسلم علی پوری صاحب کا مضمون پڑھنے کے لییدیا تو اس نے کہاہم نے جماعت نہ چھوڑنے کا اور جماعت کے خلاف مضامین نہ پڑھنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ سچ کا تو سامنا کرو۔ کہنے لگا کہ ہم سچے ہیں یا جھوٹے ہم بہرحال یہ جماعت نہیں چھوڑیں گے۔ ہمارا جینا مرنا رشتہ داری سب کچھ جماعت کے اندر ہی ہے ہم کہاں جائیں؟ میں نے کہا کہ تمہیں خوف ہے کہ سچ پڑھ لو گے تو جھوٹ بھاگ جائے گا ضمیر ملامت کرتا رہے گا۔ میں یہ منافقانہ زندگی گزارتے تنگ آچکا تھا۔ آخر خدا تعالیٰ کو مجھ پر ترس آگیا اور اس نے مجھے جماعت احمدیہ سے نکلنے کا راستہ دکھایا۔ جب میں نے جماعت احمدیہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو اپنے قادیانی دوستوں اور رشتہ داروں کو اپنے اس فیصلہ سے آگاہ کیا تو انھیں بھی مشورہ دیا کہ وہ بھی قادیانیت چھوڑ کر اسلام کے دامن میں پناہ لے لیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ بڑی جرات کا کام ہے ہمارے ماں باپ بہن بھائی بیویاں بیٹیاں داماد اور سب رشتہ دار دوست احمدی ہیں ہم ان سب کو چھوڑ کر احمدیت سے نکلنے کی جرأت نہیں کر سکتے۔ میں نے کہا کہ تم منافقت کی زندگی گزار رہے ہو اسی سے تو یہ زیادہ آسان ہے کہ ایک دفعہ ہمت کر کے جماعت احمدیہ کو خیر باد کہہ دو اور حقیقی زندگی گزارنا شروع کر دو ۔ لیکن وہ یہ جرأت نہ کر سکے اور جب میں نے احمدیت یعنی قادیانیت چھوڑی تو وہ مجھ پر رشک کرتے تھے۔ کیونکہ وہ قادیانیت کے چنگل میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں وہ جھوٹ کو سچ کہنے پر مجبور ہیں۔ وہ جماعت کو چندے ادا کرنے سے تنگ ہیں اس مہنگائی کے دور میں غریبوں سے زبردستی چندہ لینا کہاں کی شرافت ہے؟
شرافت کی جبیں پر ہے پسینہ !
میں نے اپنے قادیانی دوستوں کو جب مرزا غلام احمد قادیانی کی جعلی اور جھوٹی نبوت کے بارے میں لٹریچر بھیجا تو انھوں نے مجھے کہا ہمیں لٹریچر دے کر کیا آپ نے ہمارے وارنٹ نکلوانے ہیں؟ میں نے انھیں کہا کہ کیا تم مرزا غلام احمد قادیانی کو سچا سمجھتے ہو؟ تو وہ مرزا صاحب اور ان کے متعلقین کو ننگی گالیاں دینے لگے۔ میں ان لوگوں کا نام نہیں لینا چاہتا وگرنہ ان کے لیے مشکلات کھڑی ہو جائیں گی ان کا ناطقہ بند کر دیں گے مجھے ان پر ترس آتا ہے وہ میری تحریریں پڑھ کر مسکراتے ہیں۔
الفاظ کے پردے میں ہم جن سے مخاطب ہیں وہ جان گئے ہوں گے کیوں نام لیا جائے۔جماعت احمدیہ کے بعض سادہ دل لوگ بڑوں کی بددعا اور لعنتوں سے بھی ڈرتے ہیں کیونکہ جماعت احمدیہ کے راہنماؤں کا وطیرہ ہے کہ وہ شروع سے ہی اپنے مخالفوں کو موت سے ڈراتے ہیں۔ ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جسے چاہے زندہ رکھے جسے چاہے اپنے ہاں بلا لے۔ اس لیے وہ کسی ایسی موت کی دھمکی سے نہیں ڈرتے اور اسے ان کی دماغی بیماری سے تعبیر کرتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کے بڑے جماعت چھوڑ کر چلے جانے والوں اور جماعت کے اندر رہ کر ان کی مخالفت کرنے والوں کے لیے بددعائیں کرتے ہیں لعنتیں بھیجتے ہیں اور دنیا میں ان کے ذلیل و خوار ہونے کی پیشگوئیاں کرتے رہتے ہیں اور کرتے چلے آئے ہیں۔ جب کہ ختم نبوت کی حفاظت کرنے والے ہمیشہ سرخرو ہوتے ہیں اور یہ ذلیل و خوار!
مرزا غلام احمد قادیانی نے امام مہدی ، مسیح موعود نبی رسول کرشن ہونے اور اس طرح دوسرے مختلفدعوے کیے۔ یہ بیمار ذہنیت کا آدمی تھا جو خود کو حاملہ ہو جانے اور حضرت عیسیٰ کی روح اپنے اندر نفخ ہونے کا دعویٰ کرتا رہا۔(کشتی نوح مندرجہ روحانی خزائن جلد۱۹،صفحہ ۵۰از مرزا غلام احمد قادیانی)
مرزا قادیانی کا ایک صحبت یافتہ قاضی یار محمد لکھتا ہے کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام (یعنی مرزا غلام احمد قادیانی) نے ایک موقع پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے رجولیت کی (مردانہ) طاقت کا اظہار فرمایا تھا۔ سمجھنے کے لیے اشارہ کافی ہے۔‘‘ (اسلامی قربانی ٹریکٹ نمبر۱۳۴،ازقاضی یار محمد)
جب سے یہ کائنات تخلیق ہوئی ہے۔ گھٹیا سے گھٹیا ذہنیت کے کسی شخص نے بھی خالق کائنات اللہ وحدہ لا شریک کی پاک ہستی پر ایسا گندا ،گھناؤنا، کفریہ اور شرمناک الزام نہیں لگایا۔ ہو سکتا ہے یہ شیطان ہو جس نے مرزا صاحب کے ساتھ یہ جنسی ڈرامہ کھیلا ہو ۔ مرزا صاحب کے گندے خیالوں اور گندی حرکتوں کا بدلہ اللہ تعالیٰ نے خوفناک عذاب سے دیا اور دنیا ہی میں اپنی نجاست کے ڈھیر پر اس نے آخری سانس لیا۔ (سیرۃ المہدی،جلد۱صفحہ ۱۱،ازمرزا بشیر احمد ولد مرزا غلام احمد ،روایت نمبر۱۲)
کاش مرزائی مرزا صاحب کے خاتمہ کے حالات پڑھ کر ہی کانوں کو ہاتھ لگا لیں اور قادیانیت کو خیر باد کہہ دیں! مرزا غلام احمد قادیانی آنجہانی ہونے کے بعد ان کے پہلے گدی نشین حکیم نور الدین تھے جن کو قادیانی جماعت’’خلیفہ اول‘‘ کے نام سے پکارتی ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے بیٹے کی روایت کے مطابق حکیم نور الدین انتہائی گندے شخص تھے جو مدتوں نہیں نہاتے تھے۔ یہ ’’بدبودار قادیانی خلیفہ گھوڑے پر سوار ہو کر کہیں جا رہا تھا کہ خدا تعالیٰ نے گھوڑے کو حکم دیا کہ خلیفہ اوّل کا خاتمہ کر دو۔ وہ خلیفہ بحکم الٰہی اس گھوڑے کے بدکنے سے اس نیچے گرنے لگا تو اس کا پاؤں رکاب میں پھنس گیا گھوڑا سرپٹ دوڑتا رہا اور نبوت پر ڈاکہ ڈالنے والی جماعت کے خلیفہ کی ہڈیاں چٹخاتا رہا۔ جب گھوڑا رکا تو قدرت اپنا حساب پورا کر چکی تھی زخموں نے گنگرین(ناسور) کی صورت اختیار کر لی اور خلیفہ اوّل نور الدین بسترِ مرگ پر ایڑیاں رگڑتے رگڑتے عذابِ الٰہی دنیا میں جھیلتے ہوئے ملک عدم کو سدھار گئے۔ بعد میں خاندان پر بھی مصائب کا پہاڑ ٹوٹا۔ حکیم نور الدین کے درد ناک انجام کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر الدین محمود جسے قادیانی جماعت’’خلیفہ ثانی‘‘ کے نام سے جانتی ہے جانشین ہوا خلافت پر جھگڑا ہوا مولوی محمد علی لاہوری کو خلافت نہ ملی مرزا قادیانی کی بیوی نے ریشہ دوانیوں سے اپنے نوجوان بیٹے کو زبردستی خلیفہ بنوا دیا۔ یہ عیاش اور لااُبالی جوان تھا جسے خلافت ملنے پر مرزا قادیانی کے وفادار ساتھی مولوی محمد علی لاہوری احتجاجاً اس جماعت سے نکل گئے۔ اور اپنا لاہور ی مرزائیوں کا گروپ تشکیل دے دیا۔ بشیر الدین محمود نے خلیفہ بنتے ہی ایسی گھناؤنی حرکتیں کیں کہ خود شرم بھی شرما گئی۔ ان کی قصرِ خلافت نامی رہائشگاہ دراصل ’’قصرِخباثت‘‘ تھی جہاں عینی شاہدین کے مطابق صرف عقیدتوں کا خراج ہی بھینٹ نہیں چڑھا بلکہ مختلف حیلے بہانوں سے یہاں عصمتیں بھی لٹتی رہیں اس مقدس عیاش نے اپنے شکار گرفت میں لانے کے لیے نہایت دلکش پھندے لگا رکھے تھے اسے معصوم لڑکیوں کو رام کرنے کا ایسا سلیقہ آتا تھا کہ قصرِ خلافت کے عشرت کدے میں جانے والی بہت سی عورتیں اپنی عزت لٹا کر واپس آئیں۔ خلیفہ ثانی مذہب کی آڑ میں عصمتوں پر ڈاکے ڈالتا رہا۔ چناب نگر(سابقہ ربوہ) میں مختلف حیلوں بہانوں سے اس عیاش خلیفہ نے عصمتیں لوٹیں اور ظلم پہ ظلم کرتا رہا۔ اس خلیفہ کی رنگین داستانوں کے قادیانی جماعت کے اپنے ہی لوگوں کے تبصرے حلفی بیانات مباہلے اور قسمیں موجود ہیں۔ خدائے برتر ایسے ظالم انسان کو کبھی معاف نہیں کرتے چنانچہ احمدی جماعت کے اس خلیفہ’’ثانی‘‘ جسے قادیانی ’’فضل عمر‘‘ بھی کہتے ہیں کی زندگی کا خاتمہ بھی انتہائی دردناک حالات میں ہوا۔ اسے زندگی کے آخری بارہ سال میں بستر مرگ پر ایڑیاں رگڑتے مرتے دیکھ کر لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے۔ اس کو فالج ہو گیا تھا اس کی شکل و صورت جنونی پاگلوں کی سی بن گئی تھی۔ وہ سر ہلاتا رہتا منہ میں کچھ ممیاتا رہتا اس کے سرکے زیادہ تر بال اڑچکے تھے۔ پھر بھی انھیں کھینچتا رہتا،داڑھی نوچتا رہتا۔ وہ اپنی ہی نجاست ہاتھ منہ پر مل لیا کرتا تھا۔ بہت سے لوگ ان واقعات اور حالات کے عینی شاہد ہیں۔ اس ’’خلیفہ ثانی‘‘ نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ جماعت احمدیہ میں اٹھانوے فیصد منافق ہیں جس کی بنا پر جماعت کو ان کے پاگل ہونے کی افواہ اڑانی پڑی۔ ایک لمبا عرصہ اذیت ناک زندگی بستر پر گزارنے کے بعد جب یہ شخصیت دنیا سے رخصت ہوئی تو اس کا جسم بھی عبرت کا نمونہ تھا۔ ایک لمبا عرصہ تک ایک ہی حالت میں بستر پر لیٹے رہنے کی وجہ سے لاش اکڑ کر گویا کہ مرغ کا چرغہ بن چکی تھی۔ ٹانگوں کو رسیوں سے باندھ کر بمشکل سیدھا کیا گیا۔ چہری پر گھنٹوں ماہرین سے خصوصی میک اپ کروایا گیا۔ جسم کی کافی دیر تک صفائی کی گئی اور پھر عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لیے مرکری بلب کی تیز روشنی میں لاش کو اس طرح رکھا گیا کہ چہرے پر مصنوعی نور نظر آئے لیکن قادیانی تو ساری باتوں سے واقف تھے۔ خدا تعالیٰ ایسے حقیقی انجام اور مصنوعی نور سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے،آمین۔
قادیانی جماعت کے خلیفہ دوم کی تدفین کے بعد اس کے عزیز واقارب اور پوری جماعت احمدیہ نے سکھ کا سانس لیا۔ پھر مورثی وراثت اور چندوں کے نام پر لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھنے کے خاطر انھی کے بڑے بیٹے مرزا ناصر احمد گدی نشین ہوئے۔ یہ حضرت گھوڑوں کی ریس کے بڑے شوقین تھے۔ ان کے اس شہنشاہی شوق نے چناب نگر(سابقہ ربوہ) میں گھڑ دوڑ کے دوران ایک غریب شخص کی جان بھی لے لی۔ خلیفہ مرزا ناصر احمد نے ۷۸ سال کی عمر میں فاطمہ جناح میڈیکل کی ایک ۲۷ سالہ طالبہ کو یہ کہتے ہوئے اپنے عقد میں لے لیا کہ ’’آج دولہا اپنا نکاح خود ہی پڑھائے گا‘‘ اس ۷۸ سالہ بوڑھے دولہا نے اپنے ازکار رفتہ اعضاء میں جوانی بھرنے کے لیے کشتوں کا استعمال شروع کر دیا اور کشتوں کے راس نہ آنے پر خود ہی کشتہ ہو گیا۔ اس کا جسم پھول کر کپا ہو گیا اور آناً فاناً خدائے قہار کے قہر کی گرفت میں آکر کشتوں ہی کی آگ میں جھلس کر ملک عدم کو سدھار گیا۔
Bookmarks