اردو ادب میں ماں کا کردار پروفیسر سیما سراج ۸ مئی کو اقوام متحدہ نے ماں کا دن قرار دیا ہے۔ چنانچہ دنیا بھر میں اسی دن کا سواگت ماں کی اہمیت اور اس کے کردار کی عظمت و رفعت پر ذرائع ابلاغ بھی خصوصی پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں تعلیمی اور تہذیبی و ثقافتی ادارے بھی شایان شان تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں۔ مجھے خیال آیا کہ ذرا اپنے حافظے اور سابقہ مطالعے کا تجزیہ کرکے اجمالی طور پر شعر و ادب کی نگارشات میں ماں کے کردار کی جھلکیاں تلاش کروں جو یقینا بیشتر شائقین ادب کے لیے پرکشش ہوں گی۔ کیونکہ ”وہ ماں کسی کی بھی ہو محترم ہے سب کے لیے“۔ ہمارا تاریخ ادب کا مطالعہ یہ باور کراتا ہے کہ دبستان لکھنو¿ نے میر انیس و میرزا دبیر جیسے عظیم مرثیہ نگار پیدا کرکے اردو شاعری کو واقعی وہ حسن و جمال عطا کیا جن کا اثر بعد کے شاعروں اور شاعری پر فنی اور فکری توسیع و ترقی کی صورت میں نمودار ہوا، مثلاً مرثیہ نگاری کے لیے مسدس کی جو ہیئت (Farm) نسبتاً زیادہ سازگار ثابت ہوئی وہ موضوعی اور معروضی امکانات کو روشن تر کرنے کا سبب بنی۔ الطاف حسین حالی نے مسدی مدوجزر اسلام جیسی سدا بہار نظم تخلیق کرکے ایک تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا اور پنڈت برج نارائن چکبست نے ”رامائن کا ایک سین“ کے زیر عنوان اتنی پر تاثیر نظم مسدس ہی کی ہیئت میں تخلیق کی۔ وہ شاہکار نظم جس میں ماں کی عظمت اور اس کے کردار کی رفعت جلوہ گر ہی، جس کے کچھ بندوں کے وہ حصے پیش کرتی ہوں جو میرے حافظے میں تازہ ہورہے ہیں۔ شری رام چندر جی ۴۱ برس کے بن باس پر اپنے بھائی لچھمن اور اہلیہ سیتا جی کو ساتھ لے کر روانہ ہونے سے پہلے پیاری ماں کی خدمت میں حاضری دیتے ہیں۔ رخصت ہوا وہ باپ سے لے کر خدا کا نام راہ وفا کی منزل اول ہوئی تمام منظور تھا جو ماں کی زیارت کا اہتمام دامن سے اشک پونچھ کے دل سے کیا کلام سوچا یہی کہ جان سے بے کس گزر نہ جائی ناشاد ہم کو دیکھ کے ماں اور مر نہ جائی اس ابتدائی بند کے بعد جستہ جستہ جھلکیاں ملاحظہ ہوں مثلاً دیکھا تو ایک در میں وہ بیٹھی ہے خستہ حال سکتہ سا ہوگیا ہے یہ ہے شدت ملال یہ کیفیت دیکھ کر سعادت مند بیٹا ”خاموش ماں کے پاس گیا صورت ملال“ اور ماں نے غم گین آواز میں کہا میں جانتی ہوں کس لیے آئے ہو تم یہاں سب کی خوشی یہی ہے تو صحرا کو ہو رواں لیکن میں اپنے منہ سے نہ ہرگز کہوں گی ہاں کس طرح بن میں آنکھ کے تارے کو بھیج دوں جوگی بناکے راج دلارے کو بھیج دوں لیتی کسی فقیر کے گھر میں اگر جنم ہوتے نہ میری جان کو یہ سامان بہم ڈستے نہ سانپ بن کے مجھے شوکت و حشم تم میرے لال تھے مجھے کسی سلطنت سے کم مندرجہ بالا جھلکیاں پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ شعر و شاعری کے دلدادہ یہ پوری نظم پڑھ کر اندازہ لگائیں کہ اردو شاعری میں ماں کا کردار اجاگر کرنے کا فریضہ شعرائے کرام نے کتنے احسن طریقے سے انجام دیا ہے۔ اب علامہ اقبال کی نظم ”ماں کا خواب“ مسدس کی (Form) ہیئت میں تو نہیں ہے بلکہ مثنوی کا انداز بیان رکھتی ہے۔ ان کے اولین مجموعہ کلام ”بانگ درا“ میں شامل اشاعت ہے اس کا مجموعی تاثر ماں کی ممتاز کا کرب ہے جو پہلے ہی شعر سے واضح ہوجاتا ہے۔ میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب بڑھا اور جس سے مرا اضطراب علامہ اقبال کے بعد بیسویں صدی اور پھر موجودہ صدی کی اردو شاعری پر اگر تحقیقی نظر ڈالی جائے تو حفیظ جالندھری کے شاہنامہ اسلام، جناب احسان دانش کی منظومات اور دیگر نظم گو شعرا کے کلام میں ماں کا ذکر خیر بڑے پر تاثیر اسالیب کی صورت میں ملتا ہے۔ قارئین کو یاد دلاتی چلوں کہ شہر قائد کراچی میں پچھلے کئی برسوں سے بڑے پیمانے پر عالمی مشاعرے کا اہتمام ہوتا ہے۔ ان مشاعروں میں شریک ہونے والے شعرائے کرام میں ایک نام بھارتی شاعر منور رانا کا ہے جو ۹۰۰۲ءکے عالمی مشاعرے میں تشریف لائے اور غزل کی ہیئت میں ماں کی عظمت، محبت، کردار کو اتنی خوب صورتی سے اشعار کا روپ دیا کہ بے پناہ شہرت و مقبولیت پائی۔ موصوف کے شعری مجموعے بھی اسی بنا پر منفرد و مثالی قرار پائے اور شائقین ادب نے پذیرائی کا شرف بخشا۔ بڑے اختصار سے اردو کے شعری ادب میں ”ماں کے کردار“ کی چند مثالیں پیش کردیں، ان شاءاللہ تاریخ ادب اردو کا مطالعہ کرکے عنقریب ایک تحقیقی مقالہ سپرد قلم کروں گی۔ سروست ناگزیر مجبوریوں کے سبب جو کچھ عرض کرسکی وہ اس ہنگامی ضرورت کے لیے جانیے جس کو ابتدائی عبارت میں بیان کیا ہی، اور اب اردو کے نثری ادب سے استفادہ کرتے ہوئے درج ذیل معروضات حاضر ہیں۔ اردو نثر نگاری کی تاریخ میں سرسید احمد خان کا نام اور کام میرے نزدیک عہد زریں رہا ہے۔ اسی لیے مولانا حالی کی تحریر کردہ کتاب ”حیات جاوید“ جو سرسید کی سوانح حیات ہے اس کے حوالے سے ان کی والدہ محترمہ کا ذکر خیر کچھ یوں ہے کہ موصوف بڑی عظیم خاتون تھیں، انہوں نے بچپن ہی کے زمانے میں اپنے پیارے بیٹے کی اخلاقی تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ مثلاً جب سرسید خور و سال تھے اور اس کی پرورش میں ایک بوڑھے خاندانی ملازم کا کردار بھی نمایاں تھا سرسید کی ماں نے یہ دیکھا کہ بوڑھے ملازم پر انہوں نے ہاتھ اٹھایا یہ دیکھ کر محترم ماں کو جلال آگیا اور اپنے پیارے بیٹے کو گھر سے نکل جانے کا حکم صادر فرما دیا، بے چارے نے اپنی کسی قریبی عزیزہ کے گھر پناہ لی۔ ادھر ملازم نے بچے کی خطا معاف کرنے کی پیہم استدعا (التجا) کی اور موصوفہ اسی شرط پر کچھ نرم ہوئیں کہ وہ آکر میرے سامنے تم سے اپنی خطا پر معافی مانگے اور آئندہ ایسی حرکت نہ کرے تو اس کا جرم قابل معافی ہوسکتا ہے۔ بہر کیف ایسا ہی ہوا اور معصوم سرسید کومعافی مل گئی۔ اندازہ لگایئے کہ اس واقعہ کا سرسید کی ذہنی تربیت پر کیا اثر پڑا ہوگا جس نے آخر عمر تک ان کو سیرت و کردار کے اوصاف حمیدہ سے بہر ور رکھا۔ سرسید کے مضامین تہذیب الاخلاق میں ایک مثالی مضمون جو انشائیہ نگاری کی بھی ایک روشن مثال ہے۔ امید کی خوشی، پر ہے اس کی عبارت آرائی میں بھی ماں کا کردار بڑے دلکش پیرائے کی خوبیاں لیے ہوئے ہے۔ ان خوبیوں کو قارئین کے ذوق مطالعہ پر چھوڑتے ہوئے سرسید کی ماں کے کردار کا ایک اور نقش ”حیات جاوید“ کی وساطت سے اپنے الفاظ میں پیش کررہی ہوں۔ ہوا یہ کہ جب سرسید زیور تعلیم و تربیت سے آراستہ ہوکر سرکاری ملازمت میں آئے اور وطن مالوف دہلی سے دور رہنا پڑا تو ان دنوں ان کی والدہ محترمہ خاصی ضعیف ہوچکی تھیں۔ سرسید اپنی والدہ کا دیدار کرنے کو آئے تو بستر علالت پر پایا، اور فوری طور پر صحت یابی کے لیے ایک قیمتی معجون لاکر پیش خدمت کیا۔ کچھ دنوں کے بعد جب حسب معمول جائے ملازمت سے اپنی ماں کے پاس دہلی آئے تو دیکھا کہ والدہ محترمہ چاق و چوبند ہیں، دریافت کیا کہ جو معجون دے گئے تھے وہ کتنے دن نوش جاں کیی؟، جواب ملا کہ بے چاری خادمہ بھی اسی مرض کا شکار ہوگئی تھی، جس میں سرسید کی والدہ مبتلا تھیں۔ خدا ترس اور سچی انسانیت نواز خاتون نے وہ معجون خود کھانے کے بجائے خادمہ کو کھلا دیا۔ وہ صحت یاب ہوئی اور کارساز حقیقی نے سرسید کی ماں کو بغیر کسی دوا کے ٹھیک کردیا۔ آیئے اب ام الاحرار بی اماں کی عظیم ہستی اور مثالی ماں کی شخصیت کا کرداری تذکرہ کرتے ہیں۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کی والدہ محترمہ تھیں۔ ان کے اجداد مغل حکمرانوں کے دور میں اعلیٰ منصب پر فائز رہے۔ ۷۵۸۱ءمیں برطانوی حکومت نے ان کے خاندانی بزرگوں پر قیامت ڈھائی، سروں کو کاٹ کر دہلی کے خونی دروازے پر لٹکا دیا، سگے ماموں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا۔ بس آپ کے والد محترم باقی رہے جو اہل خانہ کے ساتھ رام پور منتقل ہوگئی، جہاں انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی عبدالعلی خان سے کردی جو ۰۸۸۱ءمیں اچانک وفات پاگئی، والدین حیات نہ رہے بے چاری ۸۲ برس کی عمر میں بیوہ ہوگئی تھیں۔ اس وقت مولانا محمد علی صرف دو سال کے تھے۔ خاندان والوں نے لاکھ کوشش کی کہ دوسری شادی کرلیں مگر وہ ہرگز رضامند نہ ہوئیں اور بہرطور اپنی زندگی بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے وقف کردی۔ دونوں بیٹوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کی سچی اور انتہائی ایثار پسندانہ لگن رکھتی تھیں۔ اپنا قیمتی زیور، بیش بہا تحائف اور کل اثاثہ بچوں کی تعلیم و تربیت پر صرف کردیا، یہاں تک کہ اجرت پر چکی تک پیسی مگر اپنی عزت نفس اور بیٹوں کی حریت پسندی پر حرف نہ آنے دیا۔ ہماری قومی تاریخوں میں تحریک آزادی، تحریک خلافت اور تحریک پاکستان کا تذکرہ تو بہت ہی، اور بی اماں کے حوالے سے یہ نعرہ حریت کہ ”بولیں اماں محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پر دے دو“ بے شک یہ درست ہے مگر بی اماں جو ام الاحرار اور خود بھی آزادی کی کتنی جرا¿ت مند مجاہدہ تھیں اس کا ذکر اس عظیم ماں کے حوالے سے ذرا کم ہی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ان تمام تر مجبوریوں کے باوجود انہوں نے صبر و استقامت اور جرا¿ت و کردار کا جو مظاہرہ کیا اس کا گواہ شہر قائد کا خالق دینا ہال ہی، جہاں برطانوی راج کے خلاف بغاوت کے الزام میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر پر مقدمہ چلا۔ دونوں بھائی کراچی سینٹرل جیل میں قید سخت برداشت کررہے تھے اور ادھر بی اماں بڑی دردمندی اور دلیری سے برطانوی راج کے ظلم و ستم کے خلاف مسلم خواتین کو مزاحمتی تحریک چلانے کا درس عمل دینے کے لیے پورے ملک کا دورہ کررہی تھیں۔ ۰۸ برس کی بوڑھی ماں کو اطلاع ملی کہ پابند سلاسل علی برادران کو ۲۔۲ سال کی قید سخت سنادی گئی ہے اور خفیہ طور پر زور ڈالا جارہا ہے کہ تحریری طور پر اگر معافی نامہ دیں تو رہائی ممکن ہے۔ اس اطلاع پر بی اماں نے لرزتے ہاتھوں سے بیٹوں کے نام خط لکھا جس میں یہ واضح کیا کہ ”ابھی میرے بوڑھے ہاتھوں میں اتنی قوت باقی ہے کہ تم دونوں کا گلا گھونٹ سکوں۔ اگر تم لوگوں نے معافی نامہ داخل کیا تو واقعی ایسا ہی کروں گی“۔ یقینا اردو ادب کے شعری اور نثری سرمایہ میں ماں کا کردار اجاگر کیا گیا ہی، اور تلاش کرکے اس کی جھلکیاں بھی پیش کی جاسکتی ہیں، تاہم میرا خیال ہے کہ اس موضوع پر تحقیقی نظر ڈالنے اور تواتر سے لکھنے کی ضرورت ہے۔ نپولین بونا پارٹ نے جو غریب سپاہی کا بیٹا تھا، اپنے والدین خصوصاً ماں کی عظمت کے کردار سے یہ سبق لیے کہ وہ اپنی لگاتار محنت، ثابت قدمی، ذہانت، سچی لگن سے فرانس کی فرمانروائی تک پہنچا اور اس نے اہل فرانس کو پیغام دیا کہ ”تم مجھے عظیم مائیں دو میں تمہیں عظیم قوم دوں گا؟“۔