Results 1 to 7 of 7

Thread: اختلاف میں اعتدال

  1. #1
    Abu Dajana's Avatar
    Abu Dajana is offline Senior Member+
    Last Online
    4th July 2015 @ 04:21 PM
    Join Date
    21 Oct 2011
    Age
    38
    Gender
    Male
    Posts
    602
    Threads
    28
    Credits
    965
    Thanked
    131

    Default اختلاف میں اعتدال

    مولانا خالد سیف الله ربانی

    اس وقت نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں مسلمان ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں ، اشتراکی نظام کی تباہی کے بعد پوری دنیا نے اسلام کے خلاف کمر کس لی ہے او راس مقصد کے لیے مشرق ومغرب کے روایتی حریف ورقیب بھی ایک دوسرے سے ہاتھ ملا چکے ہیں ، خود ہمارے ملک میں جن لوگوں کو دریا کے دو کنارے کہا جاتا تھا انہوں نے بھی اسلام او رمسلمانوں کے مقابلہ میں اپنے فاصلے ختم کر لیے ہیں ، ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے دو باتیں نہایت ضروری ہیں ، ایک اتحاد واتفاق ، دوسری حکمت وتدبیر۔

    اتحاد واتفاق کا یہ مطلب نہیں ہے کہ امت میں کوئی اختلاف ہی باقی نہ رہے، اختلاف رائے پہلے بھی رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا اور اس کے باقی رہنے ہی میں خیر ہے ، لیکن اختلافِ فکر نہ اتحاد عمل میں مانع ہے، نہ باہمی توقیر واحترام میں ، اگر ہم نے اس بات کو نہیں سمجھا تو یہ ایسی بدبختی کی بات ہو گی کہ شاید اس کی تلافی ممکن نہ ہو اور تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی مسلمانوں کے باہمی اختلاف کچھ تو عقائد میں ہیں اور زیادہ تر عملی احکام میں ، عقائد میں بعض اختلاف یقینا گمراہی کے قبیل سے ہیں ، لیکن جو لوگ اہلِ سنت والجماعت کی راہسے منحرف ہوں ان کو بھی کافر کہنے میں سلف صالحین نے بہت احتیاط کا ثبوت دیا ہے ، چناں چہ حضرت علی رضی الله عنہ نے خوارج کو باوجود ان کے فساد فکر وعمل کے کافر قرار دینے سے اجتناب فرمایا، معتزلہ سے دسیوں اعتقادی مسائل میں اختلاف کے باوجود اہل علم نے ان کی تکفیر سے گریز کیا اور قدریہ وجبریہ وغیرہ کا شمار تقدیر کے مسئلہ میں اہل سنت والجماعت سے سخت اختلاف کے باوجود بھی مسلمان فرقوں میں کیا گیا، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سلف کے اختلاف رائے میں کس قدر اعتدال تھا!

    خود اہلِ سنت والجماعت کے درمیان بھی بعض اعتقادی مسائل میں اختلاف رہا ہے اور یہ عہدِ صحابہ سے ہے ، حضرت عبدالله بن عباس شب معراج میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے باری تعالیٰ کو دیکھنے کے قائل تھے ، حضرت عائشہ کو اس سے انکار تھا، بعض صحابہ اس کے قائل تھے کہ مردہ پر اس کے اہل وعیال کے رونے سے عذاب ہوتا ہے ، حضرت عائشہ اس کی تردید کرتی تھیں، بعض صحابہ کی رائے تھی کہ مردے سنتے ہیں او ربعض صحابہ اس کے قائل نہیں تھے ، یہ اختلاف صحابہ کے بعد بھی صدیوں اہلِ علم، بلکہ عوام کے درمیان بھی زیرِ بحث رہا۔

    بعد کے ادوار میں جب اسلام کے اعتقادی تصورات علم کلام کے نام سے مرتب کیے گئے تو اصولی مسائل میں اتحاد کے باوجود ان عقائد کی تشریح وتوضیح اور تعبیر وتفہیم میں خاصا اختلاف پیدا ہوا اور اشعری، ماتریدی او رحنبلی دبستان فکر ابھرے ، لیکن اس اختلاف نے کبھی جھگڑے اور نزاع کی صورت اختیار نہیں کی، لوگ ایک دوسرے سے علمی استفادہ کرتے، ان کی اقتدا میں نماز ادا کرتے ، ان کے علم وفضل، ورع اور تقویٰ کا برملا اعتراف کرتے، علامہ ابن تیمیہ نے اس طرح کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سلف اس بات پر متفق تھے کہ اس کی وجہ سے کسی کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔”اتفقوا علی عدم التکفیر بذلک“․ (مجموعة الفتاوی:495/12)

    دوسری قسم کا اختلاف وہ ہے جو فقہی مسائل میں پیدا ہوا ہے ، یہ اختلاف عہدِ صحابہ سے ہے اور جواختلاف صحابہ کے دور میں رہا ہے اس کے باقی رہنے میں خیر ہی ہے نہ کہ شر، غور کیا جائے تو اس اختلاف کو باقی رکھنا خود الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کا منشا ہے اور یہ بات ادنیٰ غور وتامل سے معلوم ہو سکتی ہے، مثلاً الله تعالیٰ نے وضو میں سر کا مسح کرنے کا حکم ان الفاظ میں دیا ہے ﴿وامسحوا برؤسکم﴾ یہاں لفظ ”ب“ استعمال کیا گیا ہے، ”ب“ کے معنی عربی زبان میں بعض یعنی کچھ حصہ کے بھی ہوتے ہیں اور ”ب“ زائد بھی ہوتی ہے ، پہلی صورت میں معنی ہو گا سر کے بعض حصہ کا مسح کر لو اور دوسری صورت میں معنی ہو گا کہ پورے سرکا مسح کرو، چناں چہ بعض فقہاء پورے سر کے مسح کو ضروری قرارا دیتے ہیں اور دوسری رائے کے مطابق سر کے کچھ حصہ کا مسح کافی ہو گا، ظاہر ہے کہ الله تعالیٰ کے علم میں”ب“ کے یہ دونوں معنی پہلے سے موجود ہیں ، اگر الله چاہتے تو بعض کا لفظ استعمال فرماتے اورمتعین ہو جاتا کہ پورے سر کا مسح ضروری نہیں ، یا ”کل“ کا لفظ ارشاد فرماتے اور یہ بات پوری طرح بے غبار ہو جاتی کہ پورے سر کا مسح کرنا فرض ہے، لیکن خدائے علیم وخبیر نے اس صراحت کے بجائے اپنی کتاب میں ایک ایسا لفظ ذکر فرمایا جس میں دو معنوں کا احتمال ہے ، اس سے ظاہر ہے کہ ایسے مسائل میں اختلاف رائے کا باقی رہنا خود منشائے ربانی ہے۔

    اسی طرح قرآن مجید میں عورت کی عدت کے لیے تین”قرء“ گزارنے کا حکم دیا گیا ہے ،” قرء“ کے معنی حیض کے بھی ہیں او رزمانہ پاکی کے بھی ، اسی لیے بعض فقہاء نے تین حیض مدت قراردی ہے او ربعض نے تین پاکی ، ظاہر ہے کہ ” قرء“ کے دونوں معانی الله تعالی کے علم محکم میں پہلے سے تھے ، اگر الله تعالیٰ کا یہ منشا ہوتا کہ احکام شرعیہ میں کوئی اختلاف رائے نہ ہو تو قرآن میں بجائے ” قرء“ کے صریحاً حیض یا طہر کا لفظ استعمال کیا جاتا، یہی صورت حال احادیث نبویہ میں بھی ہے ، مثلا آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حالت اغلاق کی طلاق واقع نہیں ہوتی ، اغلاق کے معنی جنون وپاگل پن کے بھی ہیں اور اکراہ ومجبور کے بھی ، چناں چہ اپنے اپنے فہم کے مطابق بعضوں نے ایک معنی کو ترجیح دی ہے او ربعضوں نے دوسرے معنی کو ، حالاں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم افصح العرب یعنی عرب کے سب سے زیادہ فصیح شخص تھے ، اگر آپ صلی الله علیہ وسلم چاہتے تو ایسی واضح تعبیر اختیار فرماتے کہ ایک ہی معنی متعین ہو جاتا، دوسرے معنی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

    ایک ہی واقعہ میں مختلف مواقع پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے مختلف عمل ثابت ہے ، جیسے نماز ہی کو لے لیجیے کہ تکبیر تحریمہ میں کبھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے کانوں تک ہاتھ اٹھایا، کبھی مونڈھوں تک او رکبھی ان دونوں کے درمیان، دونوں ہاتھ کبھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے ابتدا نماز ہی میں اٹھائے ہیں ، کبھی رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد بھی، کبھی دو سجدوں کے درمیان اور دوسرے مواقع پر بھی، ہاتھ آپ صلی الله علیہ وسلم نے کبھی ناف کے نیچے باندھے ہیں او رکبھی ناف سے اوپر ، آمین کبھی آہستہ کہی ہے او رکبھی زور سے، قعدہ میں کبھی پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھے ہیں او رکبھی کولھوں پر ، عیدین میں کبھی چھ تکبیرات زوائد کہی ہیں کبھی اس سے زیادہ ، یہ خدا نخواستہ تناقض اورتضاد نہیں، بلکہ اس کا مقصد توسع اور فراخی ہے۔

    یہ اختلاف رائے چنداں بُرا نہیں، اسی لیے علامہ ابن قدامہ نے اپنی شہرہ آفاق تالیف” المغنی“ کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ فقہاء کا اتفاق حجت قاطعہ ہے او راختلاف ”رحمت واسعہ، ”اتفافھم حجة قاطعة اختلافھم رحمة واسعة“ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کے پوتے مشہو رفقیہ قاسم بن محمد فرمایا کرتے تھے کہ الله تعالیٰ نے صحابہ کے اختلاف سے فائدہ پہنچایا ہے کہ انسان ان میں سے کسی کی رائے پر عمل کر لے تو اسے خیال ہو گا کہ اس میں گنجائش ہے او راس سے بہتر شخص نے اس پر عمل کیا ہے ۔ ( جامع بیان العلم: لابن عبدالبر:80/2)

    طلحہ بن مصرف کے بارے میں منقول ہے کہ جب ان کے سامنے فقہاء کے اختلاف کا ذکر کیا جاتا تو فرماتے، اسے اختلاف کا نام نہ دو، بلکہ اسے فراخی او رگنجائش کہو ، لاتقولوا الاختلاف، ولکن قولوا: السعة․“ (حلیة العلماء:119/5)

    علامہ ابن تیمیہ نے نقل کیا ہے کہ ایک صاحب نے فقہاء کے اختلاف کی بابت ایک کتاب تالیف کی۔ تو امام احمد نے فرمایا کہ اس کو ”کتاب ِ اختلاف“ کا نام نہ دو بلکہ اسے وسعت وفراخی کی کتاب کہو ۔ ”لا تسمہ کتاب الاختلاف، ولکن سمہ کتاب السعة۔“ ( مجموعة الفتاوی:79/30)

    یہی وجہ ہے کہ فقہاء کے درمیان یہ اختلاف کبھی باہمی توقیر واحترام اور ان کے مرتبہ ومقام کے اقرار واعتراف میں مانع نہیں ہوتا تھا، امام اوزاعی شام کے مشہور فقیہ ہیں ، امام ابوحنیفہ کے بارے میں انہیں بعض غلط فہمیاں تھیں، چناں چہ اس سلسلہ میں امام صاحب کے شاگرد امام عبدالله بن مبارک سے انہوں نے کچھ دریافت کیا ، ابن مبارک نے حکمت سے کام لیتے ہوئے خاموشی اختیار کی اور اگلے روز امام صاحب سے سنے ہوئے کچھ مسائل کو تحریرکرکے اس پر شیخ ثابت بن نعمان ،جو امام صاحب کا اصل نام تھا اور جس سے عام طور پر لوگ واقف نہیں تھے، تحریر فرما کرامام اوزاعی کو پیش کیے ، امام اوزاعی پڑھ کر بہت متاثر ہوئے او رابن مبارک سے ان مضامین کی بہت تعریف کی ، ابن مبارک نے بتایا کہ یہی اصل میں امام ابوحنیفہ ہیں، پھر جب حج کے موقع پر امام ابوحنیفہ او رامام اوزاعی دونوں بزرگوں کی ملاقات ہوئی اورامام صاحب  سے بالمشافہ ملاقات ہوئی تو امام اوزاعی نے برملا اعتراف فرمایا کہ مجھے اس شخص پر ان کی کثرت علم او ر وفور عقل کی وجہ سے رشک آیا، میں الله سے مغفرت کا طلب گار ہوں ، میں ان کے بارے میں نہایت واضح غلط فہمی میں مبتلا تھا، مجھے ان کے بارے میں جو کچھ بات پہنچی ہے ، یہ تو اس کے بالکل برخلاف ہیں اور ابن مبارک کو ہدایت فرمائی کہ ان کا ساتھ نہ چھوڑو۔ (مناقب ابیحنیفہ: للکردری،45)

    اس سلسلہ میں امام مالک اور امام لیث کی باہمی مراسلت اختلاف رائے کے باوجود ایک دوسرے کی رعایت کے بارے میں خاص کر، اس دور کے اہلِ علم کے لیے پڑھنے کی چیز ہے ، جس سے غور وفکر کا ایک نیا منہج سامنے آتا ہے، امام شافعی کے ایک شاگرد یونس بن عبدالاعلیٰ صدفی ہیں، ان کا ایک بار اپنے استاذ امام شافعی سے ایک مسئلہ میں بھی مباحثہ ہو گیا اور دونوں کسی ایک رائے پر متفق نہ ہو سکے ، پھر جب امام شافعی کی ان سے ملاقات ہوئی تو امام صاحب  نے ہاتھ تھاما اور فرمایا کہ کیا یہ بہتر نہیں کہ گوایک مسئلہ میں بھی ہمارا اتفاق نہ ہو، لیکن پھر بھی ہم بھائی بھائی بن کر رہیں؟”ألا یستقیم أن نکون إخوانا وإن لم نتفق فی مسئلة؟“ ( سیر اعلام النبلاء16/100)یہ تھا ہمارے سلف صالحین کا طرز اختلاف!

    [IMG]http://i445.***********.com/albums/qq172/soni_006/th_Ryu-3.gif[/IMG]

  2. #2
    Abu Dajana's Avatar
    Abu Dajana is offline Senior Member+
    Last Online
    4th July 2015 @ 04:21 PM
    Join Date
    21 Oct 2011
    Age
    38
    Gender
    Male
    Posts
    602
    Threads
    28
    Credits
    965
    Thanked
    131

    Default

    یوں تو صحابہ  اور بعد کے ادوار میں سینکڑوں فقہاء مقام اجتہاد پر فائز تھے، لیکن ان میں سے ائمہ اربعہ کو ایسے شاگرد ملے کہ انہوں نے اپنے تمام اساتذہ کی آراء کو جمع کر دیا، ان ائمہ اربعہ کی فقہ کتاب وسنت کا نچوڑ او رصحابہ کے فتاوی کا خلاصہ ہے ، اس نے قرآن وحدیث کے دائرہ میں آنے والے تمام مفاہیم اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تمام سنتوں کو نہایت ہی خوبی کے ساتھ جمع کر لیا ہے، چناں چہ کم سے کم گیارہ سو سال سے امت ان مکاتب فقہ پر متفق ہے او ررسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق یہ امت کبھی غلط بات پر اکٹھی نہیں ہو سکتی او ران کو دین کا شارح مان کر ان کی تشریحات کو قبول کیا گیا ہے ، نہ یہ کہ ان کو شارع کا درجہ دیا گیا ہے۔ چوں کہ یہ دور فتنہ اورخواہش نفس کی اتباع کا ہے، اس لیے اہلِ علم نے ان میں سے کسی ایک فقیہ کی تشریحات کو مشعلِ راہ بنانے کا حکم ضرور دیا ہے ، لیکن کبھی کسی نے حق وصواب کو ان میں محدودو محصور نہیں سمجھا، اسی لیے خو داحناف نے کئی مسائل میں امام ابوحنیفہ کی آراء او رشوافع نے امام شافعی کی آرا کے خلاف فتاوی دیے ہیں اور ان مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان کبھی کوئی نزاع، جنگ وجدال اور ایک دوسرے کی مذمت واہانت کی نوبت نہیں آئی ، اس ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ میں مختلف قومیں دامن اسلام میں آئیں ، لیکن ان کو کبھی یہ فیصلہ کرنے میں دقت پیش نہیں آئی کہ وہ کس فقہ پر عمل کریں گے۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ امت میں دین کے مزاج ومذاق کے بارے میں صحیح فہم تھا، وہ جانتے تھے کہ یہ دین کے اصول وبنیاد او راساس نہیں ہے ، بلکہ ایسے مسائل ہیں جن میں ایک سے زیادہ رائے کی گنجائش ہے، ان میں ایک رائے پر اصرار اور دوسری رائے کے بارے میں عناد کا رویہ رکھنا صحیح نہیں ، اس لیے انہوں نے اس اختلاف کو کبھی اہمیت نہیں دی ، علماء کاتو کیا سربراہان مملکت، جن کا اصل میدان سیاست ہے، نہ کہ علم وتحقیق، ان کا ذہن بھی اس بارے میں بہت واضح تھا، علامہ ابن قتیبہ نے اس سلسلہ میں مامون الرشید کا ایک دلچسپ واقعہ نقل کیا ہے ، مامون کے زمانہ میں ایک شخص عیسائیت کی طرف مُرتد ہو گیا، مامون نے اس پر سزا جاری کرنے سے پہلے اس کو مطمئن کرنے کی غرض سے دریافت کیا کہ تمہارے مُرتد ہونے کا کیا باعث ہوا؟ اس نے کہا کہ تم لوگوں کا اختلاف، مامون نے کہا کہ ہمارے اختلاف دو طرح کے ہیں ، ایک تو جیسے اذان کے کلمات ، جنازہ کی تکبیرات اور تشہد وغیرہ کے بارے میں تویہ اختلاف نہیں، بلکہ تنگی کے بجائے توسع اور تخفیف ہے، اس لیے جو اذان واقامت کے دہرے کلمات کہتا ہے وہ اس شخص کو غلط قرار نہیں دیتا جواقامت کے اکہرے کلمات کہتا ہے ، ان فقہی اختلافات کی وجہ سے نہ ہم ایک دوسرے کو حقیر سمجھتے ہیں اور نہ برُا بھلا کہتے ہیں”لا یتعایرون بذالک ولا یتعاتبون“ دوسرا اختلاف وہ ہے جو کسی آیت یا حدیث کی تشریح میں ہوتا ہے ، اگر تم کو اس سے وحشت ہے تو تورات وانجیل کی تشریح میں بھی علمائے یہود ونصاری متفق نہیں ہیں ، کیوں کہ جب کوئی بات تفصیل طلب ہو گی تو اس کی تشریح میں یقینا اختلاف کا امکان ہو گا، اگر الله کو یہ بات منظور ہوتی کہ ان کے درمیان کوئی اختلاف ہی نہ ہو تو الله نے اپنی کتاب میں کوئی ایسی بات نازل نہ کی ہوتی جو تفسیر وتشریح کی محتاج ہو ، مامون کی اس بات نے اس شخص کے ذہن کی گتھی کھول دی اور وہ فوراً ارتداد سے تائب ہو گیا۔ ( عیون الاخبار:154/2، الرد علی الملحدین)

    غرض کہ کچھ مسائل میں اختلاف رائے عہدِ صحابہ سے ہے ، یہ اختلاف امت کے لیے رحمت ہے اور یہ الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے منشا کے عین مطابق ہے ، اس اختلاف کو مذموم سمجھنا سلف کے طریقہ کے بھی خلاف ہے او رعقل سلیم کے بھی مغائر، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اختلافات کے معاملہ میں انسان کا قلب وقیع ہو ، تمام سلفِ صالحین کے بارے میں اس کی زبان محفوظ او راس کا قلم محتاط ہو ، وہ صلحائے امت کے اختلاف کے بارے میں حسنِ ظن رکھے اور اختلافِ رائے کو برداشت کرے، یہ وہ مسائل نہیں ہیں جن کی امت پر تبلیغ کی جائے او راس کو اپنی دعوت کا موضوع بنایا جائے ، اسی طرح اعتقادی احکام کی تشریح میں اہل سنت والجماعت کے درمیان جو معمولی سا اختلاف ہے او راکثر یہ اختلاف محض تعبیر کا ہوتا ہے ان میں غُلو او ران کی بنیاد پر دوسروں کو گمراہ قرار دینا نہایت ہی مذموم او رناشائستہ بات ہے۔

    جیسا کہ ایک زمانہ میں مغرب کی استعماری طاقتوں نے ان غیر اہم مسائل کو مسلمانوں میں اختلاف بھڑکانے او ران کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کا ذریعہ بنایا تھا ، اسی طرح اس وقت بھی اسلام کے مخالفین اس قسم کے مسائل میں امت کو الجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جس قدر مسلمانوں کا شیرازہ منتشر ہو گا ان کی راہ آسان ہو گی ، وقت کی لکیر کو نہ پڑھنا اور غیر اہم باتوں میں اپنے آپ کو الجھا کر رکھنا کسی قوم کے انحطاط کی علامت ہوتی ہے ، ہمیں تاریخ کا وہ واقعہ یاد رکھنا چاہیے کہ جب مسلمان فوجیں صلیبیوں کو شکست دے رہی تھیں تو عیسائیوں کے درمیان اس موضوع پر مناظرہ کا بازار گرم تھا کہ زمین افضل ہے یا آسمان؟ کہیں ہم اسی تاریخ کو دھرا تو نہیں رہے ہیں؟؟

  3. #3
    Fast_Ismail's Avatar
    Fast_Ismail is offline Advance Member
    Last Online
    5th August 2023 @ 05:03 AM
    Join Date
    19 Aug 2008
    Location
    Hyderabad India
    Age
    40
    Gender
    Male
    Posts
    3,005
    Threads
    257
    Credits
    1,366
    Thanked
    825

    Default

    السلام علیکم و رحمتہ اللہ
    بھائی بہت ہی علمی مضمون آپ نے حوالوں کے ساتھ اشتراک کیا
    آپ کی اس مضمون میں بہت ہی سلیس انداز میں بات بیان ہوئی
    ہاں کوئی بھی بات کو سمجھ نے میں علم اور صحیح فکر استاد کی ضرورت ہوتی ہے
    اگر کسی کو اس مضمون میں اختلاف ہے تو اس میں اُس کی سمجھ کی غلطی ہے
    اللہ تعالیٰ آپ کے اس مضمون کو امت میں عام فرمائے
    اور آپ کواس کا ثواب دارین عطاء فرمائے آمین ثم آمین
    بھائی آپ کے ایسی ہی اچھی اچھی اشتراکت کا انتظار رہے گا

  4. #4
    Join Date
    14 Mar 2009
    Location
    IN YOUR MIND
    Age
    35
    Gender
    Male
    Posts
    9,563
    Threads
    334
    Credits
    152
    Thanked
    1125

    Default

    جزاک اللہ

  5. #5
    Meena Nawaz's Avatar
    Meena Nawaz is offline Senior Member+
    Last Online
    11th December 2013 @ 07:20 AM
    Join Date
    14 Nov 2011
    Gender
    Female
    Posts
    2,007
    Threads
    95
    Credits
    935
    Thanked
    156

    Default


  6. #6
    MHanif828's Avatar
    MHanif828 is offline Advance Member
    Last Online
    28th February 2020 @ 10:34 PM
    Join Date
    18 Mar 2012
    Location
    Dera Ghazi Khan
    Age
    32
    Gender
    Male
    Posts
    1,275
    Threads
    21
    Credits
    514
    Thanked
    54

    Default

    Nice

  7. #7
    Abu Dajana's Avatar
    Abu Dajana is offline Senior Member+
    Last Online
    4th July 2015 @ 04:21 PM
    Join Date
    21 Oct 2011
    Age
    38
    Gender
    Male
    Posts
    602
    Threads
    28
    Credits
    965
    Thanked
    131

    Default

    آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔۔

Similar Threads

  1. Replies: 38
    Last Post: 26th December 2016, 08:47 PM
  2. میں کہتی تھی
    By ~*SEEP*~ in forum Urdu Adab & Shayeri
    Replies: 24
    Last Post: 7th August 2014, 07:48 AM
  3. سورۃ الناس
    By Prince Ahmad in forum Quran
    Replies: 18
    Last Post: 25th April 2012, 03:51 AM
  4. Suicide Bombers
    By NAVEED BHATTI in forum General Knowledge
    Replies: 7
    Last Post: 30th May 2011, 05:39 PM
  5. Replies: 2
    Last Post: 21st March 2010, 03:50 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •