ویسے یہ بات تو اپنی جگہ درست ہے کہ اس وقت اس حکومت میں کرپشن اپنے عروج پر ہے اور ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق کرپشن کررہا ہے
لیکن ہمارا یہ سوال ہے کہ اس وقت ہماری پوری پاکستانی قوم میں کتنے ایسے لوگ ہیں جو اپنے ضمیر کو گواہ بنا کر کہہ سکیں کہ وہ کسی بھی قسم کی کرپشن میں* ملوث نہیں ؟
شاید اس کا جواب میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ ہوگا ....کیوں کہ ہماری قوم میں اکثریت اپنی اپنی پوزیشن پر اپنی اپنی بساط کے مطابق کرپشن میں* ملوث ہے ...
یعنی جب ایک ٹریفک پولیس والا 10 ، 20 روپے رشوت لیتا ہے ...یا کوئی معمولی چپڑاسی کسی کام کے لئے 10 ،20 لیتا ہے ....یا ٹیکسی والا خراب حالات کا فائدہ اٹھا کر زائد رقم کا مطالبہ کرتا ہے ..... یا کوئی بجلی چوری کرتا ہے ... یا کوئی دوکاندار کسی کو دھوکا دے کر مال بیچتا ہے ... یا پھل فروٹ والا مقرر مقدار سے زائد نفع لیتا ہے.... یا امپورٹ کرنے والا انڈر انوائسنگ کرتا ہے .... یا ڈیوٹی یا ٹیکسز میں ہیر پھیر کرتا ہے ..... یا کوئی سرکاری نوکر حاضری لگا کر دوسری جگہ نوکری کررہا ہوتا ہے ....غرض یہ کہ کوئی بھی شعبہ اٹھا کر دیکھ لیں تو آپ کو جواب یہی ملے گا کہ شاید ہی کچھ لوگ ہوں گے جو کسی بھی قسم کے کرپشن میں ملوث نہ ہوں .....بس فرق اتنا ہے کہ کوئی کم تو کوئی زیادہ ..... اور کم کرپشن بھی اس لئے کرتے ہیں کیوں کہ کم کرپشن مجبوری کے تحت ہوتی ہے .... یعنی وجہ خوف خدا نہیں بلکہ دائرہ اختیار کا محدود ہونا ہے ...جیسے کوئی ٹریفک پولیس والا 10 ،20 کی جگہ لاکھوں کی رشوت نہیں مانگ سکتا...کیوں کہ اُس کا دائرہ اختیار یہیں تک محدود ہے لہذا اگر ایسے 10 /20 کی کرپشن کرنے والے کو اگر لاکھوں کروڑوں کی کرپشن کا موقعہ مل جائے تو کیا وہ خوف خدا کرے گا ...جبکہ وہ معمولی رقم کے لئے اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا ؟؟؟
تو پھر ایسے لوگ کیوں حکومت کو کوستے ہیں کہ حکومت کرپشن کررہی ہے ؟؟؟ وہ یہ کیوں نہیں دیکھتا کہ وہ کیا کررہا ہے ؟؟؟
لہذا ثابت ہوتا ہے کہ ایسے حکمرانوں کا ہمارے درمیان ہونا.... عوام کے اعمال کا مکافات ہوتے ہیں .... یعنی جیسے عوام ویسے حکمران
کیوں کہ پاکستان یا معاشرہ کسی آدمی یا ادارے کا نام نہیں بلکہ وہ تو ہم اور آپ ہیں ..... اور ہم اس کو آسانی کے لئے یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستان ایک جیتا جاگتا جسم ہے.... اور ہم اٹھارہ کروڑ عوام اس جسم میں دوڑتے خون کے ذرات.... لہذا جب یہ خون کے کروڑوں ذرات کرپشن کے جراثیم سے آلودہ ہوں گے تو پھر اسی خون سے دماغ(حکومت) بنتی ہے.... اسی خون سے ہاتھ ( یعنی قانون نافذ کرنے والے ادارے) اور اسی خون سے پیر(معیشت) بنتے ہیں..... اور جب خون میں موجود کثیر جراثیم کی وجہ سے ہاتھ پیر دل دماغ سڑ رہا ہو تو بجائے دل دماغ ہاتھ پیر کو الزام دینے کے ہمیں اُن عوامل پر گہری نظر رکھنی چاہیے جو اس پورے جسم کو خراب کرنے کی بنیاد بنا ....اور پھر اس خراب جسم کے علاج کے لئے دل دماغ ہاتھ پیر کو نہیں بلکہ جسم میں*موجود اُن کرپشن کے جراثیم کو دور کرنے کی ضرورت ہے جو اس سارے جسم کی خرابی کے اصل بنیاد ہے .
یعنی ہر شخص کو اپنی نفسانی خواہشات کی قربانی دینے کی ضرورت ہے ..... یعنی جب ہر شخص اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اپنے آپ کو کرپشن کے جراثیم سے پاک کرنے کی کوشش کرے گا تو یقینا جب ان جراثیم سے پاک ذرات کی تعداد جراثیم والے ذرات پر حاوی ہونا شروع ہوجائے گی تو یقینا سارے جسم میں بہتری آنے شروع ہوجائے گی ...اور پھر خود بخود یہ حکومت ،معیشت، قانون نافذ کرنے والے ادارے غرض جسم کا ہر ہر حصہ صحت مند ہوجائے گا.
اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے.آمین