قرب قیامت کی علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا۔۔۔صحیح بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ بندوں کے سینوں سے علم نکال لے۔ بلکہ علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہ رہے گا تو جاہلوں کو سردار بنا لیا جائے گا۔ اور ان سے دینی مسائل پوچھے جائیں گے۔ اور وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے۔ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔۔۔ صحیح بخاری۔۔۔

سب سے پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ علم سے کیا مراد ہے۔ اور ہمارے ہاں مروجہ تعلیمی نظام کی کیا حیثیت ہے۔۔۔
ہمارے اسلاف جب کہیں علم کا لفظ استعمال کرتے تھے تو اس سے مراد علم حدیث ہوتا تھا۔ یعنی قرآن و سنت کا علم۔۔۔ اس لئے قرآن و سنت کی کوئی بھی بات چاہے وہ سکول و کالجز و یونیورسٹیوں میں پڑھائی جا رہی ہو یا علماء و صوفیاء کی خانقاہوں میں بتائی جا رہی ہو، یا سائبر ورلڈ کے ذریعے پھیلائی جا رہی ہو ، علم ہی کے زمرے میں آئے گی۔۔۔

لیکن یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے اداروں میں جو تعلیم دی جاتی ہے وہ صرف قرآن و سنت کی تعلیم نہیں ہوتی بلکہ دیناوی علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ جیسے صنعت و حرفت وغیرہ کے علوم۔۔۔ چونکہ مخلوق کے تمام مقاصد دین و دنیا میں منحصر ہیں۔ اور دین کا نظام دنیا کے انتظام کے بغیر ممکن نہیں۔ کیونکہ آقا علیہ الصلاہ والسلام کے ارشاد کے مطابق : الدنیا مزرعہ الآخرہ۔ یعنی دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ تو یہ دنیاوی علوم بھی ہماری آخرت کی بہتری کے لئے معاون و مددگار ہیں۔ اس لئے یہ علوم حاصل کرنے پر بھی ہم اپنی نیت کے مطابق اجروثواب کے حقدار ہوں گے۔۔۔ لیکن وہ علم جس پر ہماری نجات کا دارومدار ہے بہرحال علم آخرت یا علم دین ہی ہے۔ اور یہی وہ علم ہے جس کے قیامت سے پہلے اٹھا لئے جانے کے متعلق ارشاد فرمایا گیا ہے۔۔۔

اب علم کی حقیقت کیا ہے۔ تو ہمارے خیال میں علم سے مراد معرفت ہے۔ یعنی کسی چیز کے بارے میں جاننا۔۔۔ اور معرفت حاصل کرنا قلب انسانی کا خاصہ ہے۔ کہ اللہ عزوجل نے معرفت کی استعداد انسان کے قلب کو عطا فرمائی ہے۔ یہ کتابیں ، مدرسے اور سکول و کالجز جیسے ادارے ذرائع علم ہیں، نفس علم نہیں۔ یعنی یہ علم حاصل کرنے کے ذریعے ہیں، بذات خود علم نہیں ہیں۔۔۔ تو کسی شخص کا علم اتنا ہی ہے جتنے کا ادراک یا معرفت اس کے قلب کو حاصل ہے۔ اور اس میں ہر شخص کے مختلف درجے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہر شخص ایک خاص درجے کا عالم ہے۔۔۔ چونکہ علوم دل کی تختی پر لکھے ہوتے ہیں۔ تو جس عالم کا وصال ہو جائے۔ اس کا علم بھی اس کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔۔۔ اب اگر ہم تاریخ اسلامی پر ایک نظر ڈالیں اور اپنے اسلاف ، محدثین کرام، ائمہ مجتہدین، فقہائے اسلام اور اولیاء و مشائخ عظام کے متعلق غور کریں تو واضح طور پر احساس ہوگا کہ علم کا ایک خطیر حصہ اس دنیا سے رخصت ہو چکا ہے۔ باقی جو موجود ہیں وہ زیادہ تر انہیں گزرے ہوئے لوگوں کے خوشہ چین ہیں۔ اور انہیں کے مدون کئے ہوئے علم سے فیض حاصل کرتے آ رہے ہیں۔ اور اب ایسے لوگ بھی بہت کم رہ گئے ہیں۔۔۔
دوسری طرف ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ بہت سے نئے فرقے مختلف نظریات کے ساتھ معرض وجود میں آ رہے ہیں۔ اور یہ لوگ قرآنی آیات اور احادیث نبوی کی نئی نئی تاویلیں کر کے اپنے نظریات کو قرآن و سنت کے علم کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ اور پچھلے گزرے ہوئے لوگوں پر طعن و ملامت کرتے نظر آتے ہیں۔ اور یہ بات بذات خود علامات قیامت میں سے ہے کہ لوگ گزرے ہوئے صلحائے امت کو برا کہیں گے اور ان پر الزام لگائیں گے۔۔۔ اور حدیث کے آخری حصے میں ایسے ہی لوگوں کو جاہلوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کہ جو بغیر علم کے فتوے دیں گے اور خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔۔۔

اللہ عزوجل اپنے کرم خاص سے ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے اور اپنے خزانہ علم سے ہمیں علم نافع عطا فرمائے۔۔۔

۔۔۔۔۔