خوشبوؤں* کی بارش تھی، چاندنی کا پہرہ تھا
میں بھی اُس شبستاں* میں ایک رات ٹھہرا تھا
تو مری مسیحائی، جان! کس طرح* کرتا
تیری جھیل آنکھوں *سے میرا زخم گہرا تھا
میں* نے اس زمانے میں* تیرے گیت گائے ہیں
تیرا نام لینا بھی جب گناہ ٹھہرا تھا
اس گھڑی نبھایا تھا اس نے وصل کا وعدہ
جب تمام رستوں* پر چاندنی کا پہرہ تھا
رنگ یاد ہے اس کا شام کے دھندلکے میں
آنسووں* سے میں* تر چہرہ کس قدر سنہرا تھا
Bookmarks