جنگ شروع ہونے قبل رات کو اہل کفار کے لشکر میں ہنگامہ ہاﺅہو تھا، عیش و نشاط کی محفلیں تھیں، راگ رنگ ناچ گانا ہو رہا تھا۔ اور دوسری جانب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے دربار میں سرکو جھکائے ہوئے ہیں اور نہایت عاجزی سے دعائیں مانگ رہے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر آپکے کندھوں سے ڈھلک ڈھلک جاتی تھی،یار غار اوررفیق سفر حضرت ابوبکرؓ بار بار اس چادرکو درست کررہے ہیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے دربار میں دعا کی کہ”اے خدا! یہ قریش سامان ِغرورکے ساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں۔ اے اللہ اب تیری وہ مدد آجائے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا۔ اے اللہ! اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت بھی ہلاک ہو گئی تو پھر روئے زمین پرتیری عبادت کہیں نہیں ہوگی“ اور پھراللہ تعالیٰ نے اس جنگ میں اہل ایمان کی غیب سے مدد کی قرآن کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار فرشتوں کو مسلمانوں کی نصرت کے لئے بھیجا۔
سورہ انفال میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا ہے۔”اور وہ موقع جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لئے پے درپے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں، یہ بات اللہ نے تمہیں صرف اس لئے بتادی کہ تمہیں خوشخبری ہو اور تمہارے دل اس سے مطمئن ہو جائیں، ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ یقیناً اللہ زبردست اوردانا ہے( سورہ الانفال آیت 9-10 )
جب جنگ شروع ہوئی تو کفار کے سرغرور سے تنے ہوئے تھے اور اکڑتے ہوئے چلتے تھے انکا خیال تھا کہ محض ایک زورکا جھٹکا لگے گا اورمدینہ کی نوزائیدہ ریاست زمین بوس ہوجائے گی اور اسلام کا نام ونشان مٹ جائے گا (نعوذ باللہ )لیکن جب جنگ کا اختتام ہواتو غرور سے تنے ہوئے سرندامت سے جھکے ہوئے تھے،تکبر سے اٹھتے قدموں کے بجائے مرے مرے قدم تھے اورطاقتور جسم یا توخاک میں مل چکے تھے یا زخم خوردہ ۔ یوں اللہ تعالیٰ نے ان کے غرورکو توڑ کر رکھ دیا، اس غزوہ میں 14مسلمان شہید ہوئے جبکہ کفار کے 70 افراد ہلاک ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لئے گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں مکہ کے کئی سردار اور با اثر افراد بھی تھے جن میں سرفہرست ابوجہل ہے جو کہ دوکم عمرصحابہ کرام حضرت معاذؓ اور حضرت معوذ ؓ کے ہاتھوں جہنم رسید ہوا۔اس کے علاوہ عتبہ بن ربیعہ،شیبہ،ولید بن عتبہ،امیہ بن خلف جیسے مشہور سرداران قریش بھی اس جنگ میں کام آئے۔ فاعتبرو یا اولی الابصار
غزوہ بدر میں اللہ اہل ایمان کو رہتی دنیا تک کے لئے ایک سبق دیدیا کہ اگر دلوں میں کامل ایمان ہو، دین پر مرمٹنے کا جذبہ ہو،اور اللہ پر توکل ہو تو باطل کی بڑی سے بڑی طاقت کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ عددی اکثریت اور مادی وسائل کی کمی کے باوجود اہل ایمان ہی کامیاب ہونگے ۔اس ضمن میں کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں لیکن زیادہ دور کیوں جائیں ابھی ماضی قریب میں بھی وقت کی ایک ”سپر پاور“ روس نے طاقت کے نشے میں افغانستان میں لشکر کشی کردی۔ اس وقت بھی اللہ پر توکل کرنے والے میدان عمل میں نکل آئے قرآن کی اس آیت کی تفسیر بن کر کہ ”نکلو اللہ کی راہ میں خواہ ہلکے ہو یا بوجھل “اس لئے سچے اہل ایمان دستیاب وسائل کے ساتھ مقابلے پرکھڑے ہوگئے۔ اس وقت بھی نام نہاد مسلمانوں درحقیقت منافقین نے نہ صرف یہ کہ خود جہاد میں حصہ نہیں لیا بلکہ دیگر لوگوں کا حوصلہ توڑنے کی بھی کوشش کی۔کہا گیا کہ کہاں سپر پاور روس اورکہاں یہ خستہ حال افغان، ان کا اور روس کا توکوئی جوڑ ہی نہیںہے۔ شکست ان کا مقدر ہے اس لئے بہتر یہی ہے کہ مقابلے کے بجائے روس سے شکست مان لی جائے۔ کچھ کا کہنا تھا کہ سفید ریچھ (روس) جس ملک میں داخل ہوا وہاں سے کبھی نہیں نکلا بلاوجہ اپنی جان کو جوکھوں میںنہ ڈالو۔ لیکن میرے رب نے ایک بار پھر اقلیت کو اکثریت پر فتح دی۔ ایک بار بھر اہل کفار کو شکست اور اہل ایمان کو فتح نصیب ہوئی۔ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق ان عقلیت پرستوں ،روشن خیالوں نے روس کی اس شکست کا ایک جواز تراش کر مجاہدین کے کارنامے کو دھندلانے کی کوشش کی۔کہاگیاکہ آئی ایس آئی نے مجاہدین کو سپورٹ کیا اور امریکہ نے مجاہدین کا ساتھ دیا اس لئے روس کو شکست ہوئی وگرنہ مجاہدین کوکبھی کامیابی نہیں ملتی۔
اس کے محض گیارہ بارہ سال بعد ہی اللہ نے ایک بار پھر سچے اہل ایمان کی مدد کی ۔ ایک بار پھر افغانستان میدان جنگ بنا۔اوراس بارسپر پاورامریکہ اپنے 22 اتحادیوں سمیت مجاہدین کے مقابلے پرتھا۔ اس بارآئی ایس آئی یا پاکستانی فوج بھی مجاہدین کی پشت پر نہ تھی۔اپنی خستہ حالی اوربے سروسامانی کے باوجود اہل ایمان مقابلے پر ڈٹ گئے ۔اس بار بھی روشن خیالوں ۔عقل پرستوں کا گروہ مجاہدین کو دیوانہ کہہ رہا تھا۔ اس بار بھی روشن خیال مفکرین دنیا کو یہ باور کرا رہے تھے کہ ”اگر امریکہ سے ٹکر لی تو وہ ہمیں پتھر کے دور میں بھیج دے گا“ امریکہ سپر پاور ہے،ایٹمی طاقت ہے،اس کے ساتھ اتحادی ہیں ہم اس سے ٹکر نہیں لے سکتے اس لئے بہتر یہی ہے کہ امریکہ سے جنگ کرنے کے بجائے شکست تسلیم کرلی جائے اور امریکہ کے آگے جھک جائیں “ لیکن !
لیکن میرے رب کا وعدہ سچا ہے۔ جو کیفیت غزوہ بدر وتبوک میں تھی وہی کیفیت یہاں بھی تھی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ وہی امریکہ جس نے افغانستان میں فوج کشی کے وقت ”صلیبی جنگ “ کا نعرہ بلند کیا اور مجاہدین کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا،جب غیر انسانی سلوک پر احتجاج کیا گیا تو امریکہ نے رعونت سے کہا تھا کہ ہ انسان ہی نہیں ہیں بلکہ وحشی درندے ہیں ان پر انسانی قوانین لاگو نہیں ہوتے “ وہی امریکہ آج مجاہدین سے مذاکرات کررہا ہے۔ آج اس کے اتحادی بددل ہیں۔فوج شکست خوردہ ہے،امریکہ مجاہدین سے باعزت واپسی کا راستہ مانگ رہا۔وہ لوگ جنہیں انسان ہی نہیں سمجھا گیا تھا آج ان کو حکومت میں شامل کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔
دنیا کو قرضے اور امداد دینے والے امریکہ کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔آج اس کی کریڈٹ ریٹنگ کم ہوتی جارہی ہے ۔آج امریکہ کے آمدنی اور قرضوں کا حجم برابر ہوگیا ہے یعنی اس کی جتنی بھی آمدنی ہے وہ اس کے قرضوں کی ادائیگی میں ختم ہوجائےگی اور اس کو اپنی معیشت کو چلانے کے لئے مزید قرضے لینے ہونگے۔ فاعتبرو یا اولی الابصار!یاد کیجئے ماضی قریب میں جب روس نے افغانستان پر چڑھائی کی تھی تو گیارہ سال کی جنگ میںاس کی فوج کو بعد میں شکست ہوئی تھی اس کی معیشت پہلے تباہ ہوئی تھی،لوگ معاشی طور پر تباہ ہوگئے تھے،بیروزگاری بڑھ گئی تھی۔ بھوک کا یہ حال تھا کہ لوگ پھپوندی لگی ڈبل روٹی کے لئے بھی بیکری کے سامنے قطاروں میں کھڑے ہوتے تھے۔آج امریکہ بھی اسی انجام سے دوچار ہونے والا ہے۔
یہ وقت کس کی عونت پہ خاک ڈال گیا۔
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں۔
ایسا کیوں ہوا؟ پہلے روس اور اب امریکہ کو شکست کیوں ہورہی ہے؟ وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ مجاہدین نے دنیا کے دھوکے میں آنے کے بجائے اللہ پر توکل کیا،جذبہ جہاد کو زندہ کیا اور دین پر مرمٹنے کا عزم کیا تو اللہ نے فتح ان کی جھولی میں ڈال دی۔دراصل غزوہ بدر میں ہمارے لئے یہی سبق ہے کہ مادی وسائل اور دشمن کی عددی برتری کے باوجود اگر مسلمان اللہ پر توکل کریں تو فتح ان کی ہی ہوگی
فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو —
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
Bookmarks