دانہ تو،کھیتی بھی تو،باراں بھی تو،حاصل بھی تو
آہ، کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تو، رہرو بھی تو،رہبر بھی تو،منزل بھی تو
کانپتا ہے دل تیرا اندیشہ طوفاں سے کیا
ناخدا تو ۔بحر تو،کشتی بھی تو، ساحل بھی تو
دیکھ آکر کوچہ چاک گریباں میں کبھی
قیس تو،لیلی بھی تو، صحرا بھی تو، محمل بھی تو
واِے نادانی کی تو محتاج صاقی ہو گیا
مے بھی تو،مینا بھی تو،ساقی بھی تو،محفل بھی تو
شعلی بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو
خوف باطل کیا ہے کہغارت گرے باطل بھی تو
Bookmarks