دل اپنا دکھاۓ رکھتا ہوں
نظر اپنی جھکاۓ رکھتا ہوں
دل اپنا دکھاۓ رکھتا ہوں
میں نے مانا کہ یہ آنکھیں میری ہیں
مگر ان میں خواب پراۓ رکھتا ہوں
یوں تو اس ہنر کی قدر نہیں اب تو
خودی کو عشق سکھاۓ رکھتا ہوں
ڈالتا ہوں اس پر اشک کا پانی
میں دل کی آگ بجھاۓ رکھتا ہوں
محل موتی تو نہیں پاس میرے لیکن
میں بھی ایک سراۓ رکھتا ہوں
مشکل ہے مگر تجھ سے دوری رکھ کر
میں اپنے جذبات گرماۓ رکھتا ہوں
امید کی دوا انہیں دے کر
میں اپنے حوصلے سلاۓ رکھتا ہوں
شاید میرے ارمان مچل جائيں
تبھی تو چراغ بجھاۓ رکھتا ہوں
دیکھ کر حوادث لکھتا ہوں عثماں
شکوہ دوستوں کا ہے میں بات بڑھاۓ رکھتا ہوں
Bookmarks