زرمبادلہ کے ذخائرکی کمی کے شکارملک پاکستان میں نجی بینک کی جانب سے بیرون ملک کی جانے والی ٹرانزیکشنز پرانوکھاسرچارج عائد کردیاگیاہے۔
یوبی ایل بینک کے کریڈٹ کارڈزاستعمال کرنے والے صارفین سے بھیجی گئی رقم کی مالیت کا 3 اعشاریہ 5فیصد”فارن ٹرانزیکشن چارجز”کے نام پر وصول کیاجا رہاہے۔
یادرہے کہ پاکستان میں بیرونی آمدن کا اہم ترین ذریعہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم کو قراردیاجاتارہاہے۔اس رقم کا خاصا حصہ ان اداروں کی جانب سے موصول ہوتاہے جو یہاں رہ کربیرونی دنیاکے کلائنٹس کو کمپیوٹرٹیکنالوجی،کال سینٹرزاوراسی سے ملتی جلتی دیگرخدمات مہیاکرتے ہیں۔ان خدمات کے لئے مذکورہ ادارے بیرونی دنیاکوجوادائیگیاں کرتے ہیں حالیہ چارجز ان پرعائدکئے گئےہیں۔
آف شوربزنس کانام اختیارکرجانے والے اس شعبے نے ناصرف پاکستان میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو معاش فراہم کرنے میں اہم کرداراداکیاہے بلکہ بیرونی دنیامیں پاکستان کا وہ امیج بھی مثبت بنانے میں اہم کرداراداکیاہے جو حکومتی نااہلیوں کے سبب خراب ہواہے۔
14سومقامی اور19بیرون ملک برانچزکے ساتھ یوبی ایل کا دعوی ہے کہ وہ پاکستان کے بڑے بینکوں میں سے ایک ہے۔
کمپیوٹرٹیکنلوجی کے کاروبارسے وابستہ سعدشاہ نے آزادبرطانوی نیوزویب سائٹ دی نیوزٹرائب کے نمائندہ کو بتایاکہ “کسی پیشگی اطلاع یامرضی معلوم کئے بغیریونائٹیڈبینک کی جانب سے ساڑھے تین فیصدچارجزعائدکردئے گئے ہیں۔مذکورہ رقم عالمی سطح پر سخت مسابقت کا سامناکرنے والے افرادواداروں کے لئے سنگین مشکلات کا سبب بن رہی ہے۔”
پاکستان کے نجی بینکوں میں اپنی عجیب وغریب پالیسیوں کے سبب شہرت رکھنے والے یونائٹیڈ بینک نے کارڈہولڈرزسے اضافی رقم منہاکرنے کے علاوہ اس پرفیڈرل ایکسائزڈیوٹی بھی عائدکردی ہے۔”ایف ای ڈی چارجزآن فارن ٹرانزیکشن”کہے جانے والا یہ ٹیکس خدمات فراہمی کے اخراجات کومزید بڑھارہاہے۔
“حکومتی سطح پر بیرون ملک خدمات فراہم کرنے والے پاکستانیوں کو ناصرف سائبرکرائم سے تحفظ نہیں ملتابلکہ انہیں انڈینز کا مقابلے کرنے کے علاوہ عالمی اداروں کی جانبدارانہ پالیسیوں کا بھی تنہاسامناکرنا پڑتاہے”سعدشاہ کایہ بھی کہناتھا کہ “جدید ٹیکنالوجیزکے حوالے سے پالیسی سازی کرنے والے اپنی کم علمی یاکام سے جان چھڑانے کی عادت کے سبب معاشی قتل عام کی وجہ بن رہے ہیں”۔
پاکستان میں اسٹیٹ بینک کے گورنربھی اس بات کا اقرارکرچکے ہیں کہ گزشتہ 3ماہ میں ملکی زرمبادلہ کے ذخائرمیں 25فیصدکی کمی واقع ہوئی ہے۔کرپشن،بدنظمی،ناجائزمنافع خوری اورشعبہ جات کو درست طورپرسمجھے بغیراختیارکی گئی پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ پاکستان کا ہر شہری تقریبا80ہزارروپے کا مقروض قراردیاجاتاہے۔
پاکستانیوں کی صلاحیتوں کا اقرارکرنے والے اندرون وبیرون ملک حلقے اس بات کوتسلیم کرتے ہیں کہ حکومتی پالیسیوں کے سبب خدمات کی فراہمی یا مصنوعات کی تیاری پر آنے والی لاگت میں غیرمنطقی اضافہ بنیادی مسئلہ ہے۔معاشی ماہرین کامطالبہ رہاہے کہ اگریہ سلسلہ بند کر دیاجائے تومقامی افرادوادارے بیرونی دنیاکامیرٹ پرمقابلہ کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے سب سے بڑی شہرکراچی میں بینکوں سے وابستہ معاملات کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی اورتجزیہ نگارمحمدامین نے دی نیوزٹرائب کو بتایاکہ یوبی ایل کا حالیہ اقدام نجی بینکوں کے من مانے فیصلوں کا ایک اورثبوت ہے۔امین کاکہناہے کہ صارفین سے طرح طرح کے ناموں پرچارجزکی وصولی ناجائزمنافع خوری کے رجحان کا حصہ ہیں
Bookmarks