عجیب طرح سے سوچا ہے ذندگی کے لیئے
کہ ذخم ذخم میں کھیلتا ہوں ہر خوشی کے لئیے
وہ مجھ کو چھوڑ گیا تو یقین آیا مجھے
کوئی بھی شخص ضروری نہں کسی کے لیئے
سوال یہ ہے کہ اس نے کبھی نہں پوچھا
کہ آپ سوچتے کیسے ہیں شاعری کے لیے؟
اسے خبر ہے کہ اس کا کوئی نہیں ہے اپنا
ایک آشنائی بھی کافی ہے اجنبی کے لیے
خطا کسی کی ہو لیکن سزا کسی کو ملے
یہ بات جبر نے چھوڑی ہے ہر صدی کے لیے
یہ سادگی تھی میری یا کہ چاہت تھی
کہ ھم نے خود کو پیش کیا دل لگی کے لئے
Bookmarks