کتاب اللہ کا اطلاق صرف قرآنِ مجید پر نہیں ہوتا کیونکہ لغت کی کتب میں معروف ہے کہ کتاب سے مراد فرائض اور حکم ہیں۔ (قاموس المحیط ۱۶۵/۱) یہ بات کسی پر مخفی نہیں ہے کہ قرآن مجید کی تفصیل بعین منشاء الہٰی کے مطابق صرف احادیث صحیحہ ہی ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا
﴿اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ
﴾ (التوبہ: ۳۶/۹)
ترجمہ:’’مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ (مہینوں) کی ہے۔ اسی دن سے جب آسمان اور زمین کو پیدا کیا ان میں چار حرمت اور ادب کے ہیں۔‘‘
آیت کریمہ نے بارہ مہینوں کی گنتی کتاب اللہ میں قرار دی ہے، اور لازمی سی بات ہے کہ اگر کتاب اللہ صرف قرآن ہی کو کہا گیا ہے تو اس میں بارہ ماہ اور ساتھ ہی چار مہینوں کی تفصیل جو حرمت والے ہیں لازمی ہونی چاہیے۔ مگر برعکس ہمیں قرآن مجید سے نہ ہی بارہ مہینوں کی گنتی اور نہ ہی ان چار ماہ کی تفصیل ملتی ہے جسے حرمت والے مہینوں سے قرآن نے متعارف کروایا ۔ بعضے لوگوں کا خیال ہے کہ کتاب اللہ سے مراد لوح محفوظ ہے، مگر یہ خیال صرف خیال ہی ہے کیونکہ اگر یہاں سے مراد لوح محفوظ ہے تو ہم کس طرح سے ان مہینوں کا حساب و کتاب رکھیں گے۔ یقیناً لوح محفوظ تک کسی کی بھی پہنچ نہیں ، تو لہٰذا اگر ایمان والوں کی پہنچ لوح محفوظ تک نہیں تو یہ تقاضا کرنا کہ حرمت والے مہینوں میں لڑنا حرام ہے ، ان مہینوں کا تقدس و احترام کیا جائے، بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ بعضے لوگوں کا خیال ہے کہ مہینوں کا تعین جس طرح سے نبی ﷺ سے قبل چلا آ رہا ہے اب اسی طریقے سے چلتا رہے گا، یہ خیال بھی باطل ہے کیونکہ کیا اللہ کا دین غیروں، یہودیوں، یا نصرانیوں کا محتاج ہے کہ جس طرح سے چلتا رہا اسی طرح سے آپ بھی شمار کریں۔ ہم جانتے ہیں کہ سورة توبہ کی آیت نمبر ۳۷ میں واضح اعلان کر دیا گیا کہ مہینوں کے آگے پیچھے کرنا کفر میں زیادتی ہے۔ لہٰذا ہم کسی قسم کا رسک نہیں اٹھا سکتے ۔ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ رسول اللہ ﷺ نے ان بارہ مہینوں کی گنتی اور چار مہینوں کی تفصیل واضح کر دی جن کی تفصیل ان جگہوں پر دیکھی جا سکتی ہے۔
صحیح البخاری کتاب التفسیر ج ۸ ، حدیث نمبر ۴۶۶۲۔
صحیح بخاری کتاب الطب ج ۱۰، حدیث نمبر ۵۷۰۷۔
صحیح بخاری کتاب الصوم ج ۳، حدیث نمبر ۱۸۹۸،۹۹۔
المنتظم لابن الجوزی ج ۳، صفحہ ۳۹۔
امام نسائی کی’الکبری‘ رقم الحدیث
۵۵۷۲
ان مقامات پر بارہ مہینوں کے نام درج ہیں ۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ کتاب اللہ کا اطلاق حدیثِ رسول پر بھی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنی احادیث کو کتاب اللہ قرار دیا ہے، کتب احادیث میں یہ واقعہ ’’واقعہ عسیف‘‘ (بمعنی مزدوری) کے معروف ہے۔ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے کہا میں آپ کو قسم دے کر کہتا ہوں کہ آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کر دیجیے۔ مختصراً یہ کہ دونوں گروہ نے اپنا معاملہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے بیان کیا تو آپ نے فرمایا
اس پروردگار کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اور جس کا ذکر بلند ہے ! میں تم دونوں کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ سو بکریاں اور غلام (جو تونے دیئے) تجھے واپس ہوں گے اور تیرے بیٹے کی سزا سو کوڑے ہوں گے اور ایک سال کی جلا وطنی ، اور اے انیس رضی اللہ عنہ کل صبح اس عورت کے پاس جاؤ اگر وہ زنا کا اعتراف کرے تو اسے رجم کر دو ۔ چنانچہ صبح انیس رضی اللہ عنہ اس کے پاس گئے ، اس نے اعتراف کیا تو انیس رضی اللہ عنہ نے اسے رجم کر دیا۔
(صحیح البخاری ، کتاب المحاربین، رقم: ۲۶۹۵)
مندرجہ بالا حدیث سے واضح ہوا کہ حدیث بھی کتاب اللہ ہے ، کیونکہ جو حکم رسول اللہ نے نافذ فرمایا اور رجم کا حکم دیا ، یہ حکم قرآن میں موجود نہیں۔ مگر یہ حکم احادیث میں موجود ہے اور رسول اللہ نے قسم کھا کر یہ بات فرمائی کہ میں تم میں کتاب اللہ سے ضرور فیصلہ کروں گا۔
امام ابو جعفر الطحاوی رحمۃاللہ علیہ مندرجہ بالا حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں
’’کتاب اللہ سے رسول اللہ ﷺ نے (واللہ اعلم) اللہ کا حکم مراد لیا ہے۔ اگرچہ وہ حکم کتاب اللہ (قرآن مجید) میں بالتصریح مذکور نہیں ہے، لیکن ہم نے رسول اللہ ﷺ کا حکم کتاب اللہ (قرآن مجید) کے ساتھ قبول کیا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے ’’جو کچھ رسول تمہیں دے تو وہ لے لو اور جس سے تمہیں منع کرے تو باز آجاؤ۔ لہٰذا جب وہ (رسول اللہ ﷺ کی اطاعت) کتاب اللہ کی وجہ سے ہے تو آپ کا حکم قبول کرنا بھی واجب ہوا۔ یقیناً رسول اللہ ﷺ کا ہر فیصلہ جو آپ نے صادر فرمایا پس وہ کتاب اللہ کے ساتھ ہے ، اگرچہ وہ حکم کتاب اللہ میں بالتصریح مذکورہ نہ ہو۔
(ذم الکلام واٴھلہ ۹۱/۲)
محترم قارئین جب صاحب وحی ہی اپنی احادیث کو کتاب اللہ قرار دے رہے ہیں تو ہمیں ماننے سے کس چیز نے روکا ہے؟ ایمان والوں کے سامنے جب اللہ کا حکم آجائے تو وہ فوراً اپنی بات کو چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر لبیک کہتے ہیں۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کے سامنے ایک خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں آپ رضی اللہ عنہ نے احادیث کو کتاب اللہ قرار دیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی تھی، تمام صحابہ کا یہ خطبہ سننا ، جس میں عمر رضی اللہ عنہ نے حدیث کو کتاب اللہ کہا اور صحابہ کرام خاموش رہے تو اس سے مراد یہی ہے کہ صحابہ کا اس بات پر اجماع تھا کہ حدیث بھی کتاب اللہ ہے، اور اس فیصلے کے خلاف کسی ایک صحابی کا بھی قول مروی نہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ ارشاد فرمایا
ان اللہ بعث محمد ﷺ بالحق وانزل علیہ الکتب فکان مما انزل اللہ اٰیة الرجم فقرانا ھا وعقلناھا ووعیناھا۔ رجم رسول اللہ ورجمنا بعدہ فاخشیٰ ان طال بالناس ذمان ان یقول قائل واللہ ما نجد اٰیة الرجم فی کتاب اللہ فیضلوا بترک فریضة انزلھا اللہ والرجم فی کتاب اللہ حق علی من ذنٰی اذا احصن من الرجال والنساء
(صحیح البخاری المعاربین، رقم الحدیث ۶۸۳۰)
ترجمہ: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور آپ ﷺ پر کتاب اتاری اور جو کچھ اللہ نے نازل فرمایا اس میں آیت رجم بھی ہے۔ ہم نے اسے پڑھا ، سمجھا اور محفوظ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے رجم کیا اور ہم نے آپ کے بعد بھی رجم کیا ہے۔ میں ڈرتا ہوں کہ ایک مدت دراز کے بعد کہنے والا یہ نہ کہے کہ ہم رجم کی آیت کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے۔ اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے اس فریضے کو جس کو اللہ نے نازل فرمایا ہے چھوڑ کر گمراہ نہ ہو جائیں اور (خبردار) رجم کی سزا اللہ کی کتاب میں حق ہے اس مرد عورت کے لیے جو شادی شدہ ہو کر زنا کرے۔
رجم کا حکم قرآن مجید میں کہیں موجود نہیں ہے، لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ حکم ہم کتاب اللہ میں پاتے ہیں۔ اس سے واضح یہی مراد ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کا ایمان تھا کہ قرآنِ مجید کے علاوہ احادیثِ و سنت بھی کتاب اللہ ہی ہیں اور عمر رضی اللہ عنہ اسے بھی منزل من اللہ ہی سمجھتے تھے اور علی الاعلان حدیث کو کتاب اللہ قرار دیا اور کسی صحابی نے اس کا انکار نہیں کیا ۔ تو معلوم ہوا اس مسئلے پر اجماع صحابہ ہے۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے واضح فرمایا دیا تھا کہ
’’یا ایھا الناس انی ترکت فیکم ما ان اعتصمتم بہ فلن تضلوا ابداً کتاب اللہ وسنة لنبیہ‘‘
(المستدرک الحاکم، ج۱، رقم۲۱۷)
اے لوگو! میں تم میں وہ چیز چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم اس کو مضبوطی سے تھامے رہو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے وہ چیز اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت ہے۔
ان احادیث سے واضح ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے فرامین کو ماخذ قانون ٹھہرایا اور اس کا اعلان فرما کر تمام انسانیت کے لیے حق کا پیمانہ مقرر فرما دیا ۔ اب قرآن اور صحیح حدیث یہ دونوں ہدایت کا منبہ اور سر چشمہ ہیں۔ آپ ﷺ نے خود فرمایا تھا کہ
’’إنی ترکت شیئین لن تضلوا بعدھما کتاب الہ وسنتی ولن یتفرّقا حتّی یردا علیّ الحوض‘‘
(مستدرک للحاکم، ج۱، صفحہ ۹۳)
میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں، ان کے بعد تم ہر گز گمراہ نہیں ہو سکتے۔ اللہ کی کتاب اور میری سنت اور یہ دونوں ایک دوسرے سے ہر گز علیحدہ نہیں ہوں گی یہاں تک کہ وہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر آئیں۔
اسی لیے سلف صالحین نے یہ برملا اعلان فرما دیا کہ جس نے سنت کا انکار کیا اس نے یقیناً کفر کیا کیونکہ یہ دونوں ماخذ قانون اور وحی پر مبنی ہیں۔ اور وحی کا انکار سو فیصد کفر ہے۔ اب ہم یہاں ائمہ کرام سے اقوال اور محدثین کے اقتباسات نقل کیے دیتے ہیں۔ جس سے یہ بات آشکارا ہوگی کہ کسی بھی صحیح حدیث کا انکار کہ جب اس کی صحت کا علم ہو جائے کفر ہے۔
عن اٴبی ایوب عن قلابة قال اذا حدثت الرجل بالسنة فقال دع ھذا وھات کتاب اللہ فاعلم انہ ضال۔
(ذم الکلام للھروی ۱۴۳/۲)
ابو ایوب بیان کرتے ہیں کہ ابو قلابہ رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں جب تم کسی آدمی کے سامنے سنت بیان کرو تو وہ کہے اس (سنت ) کو چھوڑ دو اور اللہ کی کتاب لاؤ! تو جان لو کہ وہ گمراہ آدمی ہے۔
قال المعتمر بن سلیمان سمعت ابی یقول: احادیث النبی عندنا کالتنذیل: قالو ابو موسیٰ: یعنی فی الاستعمال یستعمل سنة رسول اللہ ﷺ کما یستعمل کلام اللہ عزوجل۔
(ذم الکلام ، ج۲، صفحہ ۱۵۷)
’’معتمر بن سلیمان سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ سلیمان بن طرفان کو کہتے ہوئے سنا نبی کریم ﷺ کی احادیث ہمارے نزدیک قرآن مجید کی طرح ہیں ابو موسیٰ کہتے ہیں یعنی عمل کے اعتبار سے جس طرح اللہ کے کلام (قرآن مجید) پر عمل کیا جاتا ہے ویسے ہی رسول اللہ ﷺ کی سنت پر بھی عمل کیا جائے۔‘‘
جلال الدین السوطی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں
اعلموا رحمکم اللہ ان من انکر ان کون حدیث النبی ﷺ قولا کان او فعلاً بشرطہ المعروف فی الاصول حجة کفر وخرج عن دائرة الاسلام وحشر مع الیھود والنصاری۔
(مفتاح الجنة، صفحہ ۵)
جان لو! اللہ تم پر رحم کرے جو شخص رسول اللہ ﷺ کے قول یا فعل کا انکار کرے اس کے معروف شرائط جو اصول میں حجت ہیں تو وہ شخص (حدیث کے انکار کے سبب) اسلام کے دائرے سے خارج ہے اس کا حشر یہود و نصاری کے ساتھ ہوگا۔
امام احمد بن حنبل رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں
من ردّ حدیث رسول فھو علی شفر ھلکة فقال تعالیٰ:’’فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ‘‘(النور ۶۳/۲۴)، وای فتنة انما ھی الکفر۔
(مختصر الصواعق المرسلة ، صفحہ ۵۴۴)
’’جو شخص رسول اللہ ﷺ کی حدیث کو رد کرتا ہے وہ ہلاکت کے گھڑے پر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’پس وہ لوگ جو رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے م یں مبتلا نہ کر دیئے جائیں۔‘‘(تو یہاں آیت میں جو لفظ) ’’فتنة‘‘ ہے اس سے مراد کفر ہے (یعنی جس نے حدیث کا انکار کیا اس نے کفر کیا)۔‘‘
حافظ ابن حزم اندلسی فرماتے ہیں
وکل من کفر بما بلغہ وصح عندہ عن النبی ﷺ او اجمع علیہ المومنون مما جاء بہ النبی فھو کافر کما قال اللہ تعالیٰ:’’ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین ‘‘ الآیہ۔
(المعلی لابن حزم، ج۱، مسئلہ ۲۰)
’’جو شخص نبی ﷺ کی صحیح حدیث معلوم ہو جانے یا نبی ﷺ جو لائے ہیں اس پر مومنین کا اجماع ہونے کے بعد اس کا انکار کرے تو وہ کافر ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اور جو شخص ہدایت معلوم ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور مومنین کے راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے پر چلے تو وہ جدھر جاتا ہے ہم اُسے اسی طرف پھیر دیتے ہیں اور اُسے جہنم میں داخل کریں گے۔
Bookmarks