برطانوی نفسیات دانوں کا دعویٰ ہے کہ بھوت پریت کا کوئی وجود نہیں ہوتا بلکہ یہ محض انسانی دماغ کا وہ جسمانی ردِ عمل ہے جو کسی خاص ماحول کو ظاہر کرنے کے لیے پیدا ہوتا ہے۔
جب آپ کسی ایسے کمرے یا گھر یا جگہ ہوں جس کی فضا میں ایک غیر مانوس سی چبھن ہو، ہر طرف نیم تاریکی اور ایک ایسی مقناطیسیت کا احساس بھی ہو جسے کوئی نام بھی نہ دیا جا سکے اور آپ کو یہ بھی یقین ہو کہ آپ کے علاوہ وہاں کوئی نہیں ہے لیکن پھر بھی آپ کو یہ محسوس ہونے لگے کہ کوئی اور بھی ہے جو وہاں موجود ہے تو آپ ان محسوسات کو کیا کہیں گے؟
بھوت پریتوں یا ارواح کے بارے میں یہ رائے یا وضاحت ایک ایسے تفصیلی مشاہداتی مطالعے کے بعد سامنے آئی ہے جس پر کام کرنے والے محققوں نے سینکڑوں رضاکاروں کو برطانیہ کے دو ایسے مقامات پر وقت گزارنے پر آمادہ کیا جنہیں آسیب زدہ تصور کیا جاتا ہے۔
ان مقامات میں سے ایک برطانیہ کا ہیمپٹن کورٹ پیلس تھا اور دوسرا اسکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرا کا ساوتھ برج والٹ۔
ہرٹ فورڈ شائر یونیورسٹی کے ڈاکٹر رچرڈ وائزمین اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اس مشاہداتی مطالعے کے نتیجے میں انہیں اس بارے میں تو انتہائی اہم اور دلچسپ مواد ملا ہے کہ کچھ لوگ کچھ مقامات پر جا کر انتہائی خوف کیوں محسوس کرتے ہیں لیکن ایسی کوئی شہادت میسر نہیں آ سکی جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ بھوت پریت کا حقیقی وجود بھی ہوتا ہے۔
ہیمپٹن کورٹ کے بارے میں کہا جاتا کہ اس پر ہنری ہشتم کی پھانسی پانے والی پانچویں ملکہ کی روح کا سایہ ہے۔ مطالعہ کرنے والوں نے یہاں رضاکاروں کو اس لیے بھیجا کہ وہ وہاں جا کر اپنے اندر پیدا ہونے والے خوف کا سامنا کریں۔
ان رضاکاروں کو اس محل نما گھر میں رہ کر ان محسوسات کو محفوظ کرنا تھا جو انہیں غیر معمولی لگتی ہوں مثلاً اگر انہیں کسی اور کی چاپ سنائی دے، سردی سی محسوس ہو یا اپنے علاوہ کسی اور کی موجودگی بھی محسوس ہو یا اس کے علاوہ کوئی بھی اور احساس۔
اس سے پہلے ان رضاکاروں سے جو سوالات کیے گئے ان میں یہ سوال بھی شامل تھا کہ کیا اس سے پہلے بھی انہیں کبھی کسی ایسی جگہ جانے کا تجربہ ہے جسے آسیب زدہ تصور کیا جاتا ہو۔
محققین کا کہنا ہے کہ کسی جگہ کا آسیب زدہ ہونا ممکنات میں سے ہے کیونکہ اگر کسی ایک مقام کے بارے میں ایک عرصے تک ایک ہی طرح کا تصور مسلسل برقرار رہے تو اس میں اثر انداز ہونے کی صلاحیت پیدا ہونے لگتی ہے۔
خاص طور پر جب کسی ایک تصور یا بات کو کئی صدیوں سے مختلف النوع علاقوں اور ثقافتوں کے لوگ ایک طرح سے کہتے چلے آ رہے ہوں۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر وائم مین نے کہا: ’آسیب زدگی ان معنوں میں تو وجود رکھتی ہے کہ بعض مقامات پر جا کر لوگوں کی اکثریت غیر معمولی کیفیات اور تجربے سے دو چار ہوتی ہے لیکن بھوت پریت کا تجربہ یا ان کے ہونے کو محسوس کرنا اِن کیفیات کو اپنے اپنے انداز سے ظاہر کرنا ہے‘۔
لیکن ڈاکٹر وائز مین اور ان کے ساتھی اس کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہتے کہ بھوت پریت کا وجود ہوتا ہے یا نہیں۔
Bookmarks