اب ہر خواہش ہر خیال تمام شد
ہجر اپنی جگہ مگر ملال تمام شد
فقیر سے آ پڑے ہیں درجاناں پر
ہم میں انا کا اب جاہ و جلال تمام شد
لیجیے! عشق نے بنا ڈالی اپنی ہی شریعت
رضائے محبوب لاحق، فکرجزا و سزا تمام شد
حیرانی ہے دنیا کے آئینے میں دیکھیے
تصاویر ہیں بہت ، اشکال تمام شد
مصروفیت؟ مصلحت؟ یا پھر نیا کوئی بہانہ؟
جواب تو بہت ہیں پر سوال تمام شد
تپتا جھلستا صحرا، اور تنہا جان بلب مسافر
والی واحد عرش والا، باقی ہر ڈھال تمام شد
(`'•.¸*¤*¸.•'´)
*••*ناصر *••*
Bookmarks