عشق کی آگ سے میری ذات جلا دی جاۓ
دل کو روح کی یہ بات بتا دی جاۓ
عشق کی آگ سے میری ذات جلا دی جاۓ
میں نے خود کو جھونک دیا ہے محبت میں
کیوں نہ بجھتے ہوۓ شعلوں کو ہوا دی جاۓ
میری جان کو محبوب کا صدقہ اتار کر
میری ہستی_ شوق مٹا دی جاۓ
کوئ نہ اس دل کا اعتبار کرے
کیوں نہ اپنوں میں یہ بات پھیلا دی جاۓ
میری قربانی کا کچھ تو بھرم رکھو جہاں والو
کج ادائ میرے یار کی بھلا دی جاۓ
کون اک دکھیا کی بات سنے گا اب تو
پھر بھی رسما" زنجیر_ عدل ہلا دی جاۓ
اسی کا میں تو پیاسا ہوں عثمان.
بھلے اب اس امرت میں زہر ملا دی جاۓ
Bookmarks