آئینہ دیکھ کے بولے یہ سنورنے والے
اب تو بے موت مریں گے مرے مرنے والے
آئینہ دیکھ کے بولے یہ سنورنے والے
اب تو بے موت مریں گے مرے مرنے والے
آشفتگی سے اس کی اسے بے وفا نہ جان
عادت کی بات اور ہے دل کا برا نہیں
اس اجنبی سے ہاتھ ملانے کے واسطے
محفل میں سب سے ہاتھ ملانا پڑا مجھے
ایک انگلی پہ نچاتے تھے زمانے بھر کو
ہم کسی دور میں فنکار ہوا کرتے تھے
اس کی سنجیدگی بتاتی ہے
اس کو ہنسنے کا شوق تھا پہلے
ان کو ناموس بھی،عزت بھی،پزیرائی بھی
مجھ کو رونے کو میسر نہیں تنہائی بھی
اپنے ہی حال پہ ہنسنا،کبھی ہنس کے رونا
میں بیک وقت تماشا بھی،تماشائی بھی
اب مجھ سے ترا بار اٹھایانہیں جاتا
لیکن یہ مرا عجز ہے،انکار نہیں ہے
التجا کرتے ہوئے شخص کا قیدی نہیں ہے تو
یہ تیرے پاؤں میں زنجیر نہیں ہے میں ہوں
اب یہی آخری حل ہے کہ مجھے ڈھال بنا
تیرے پاس اور کوئی تیر نہیں ہے میں ہوں
ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
آنکھ کھلتے ہی اسے دیکھ کے ڈر جاتا ہوں
چاند دیوار پہ رکھا ہوا سر لگتا ہے
Bookmarks