اب ملاقات میں وہ گرمیَ جذبات کہاں
اب تو رکھنے وہ محبت کا بھرم آتے ہیں
اب ملاقات میں وہ گرمیَ جذبات کہاں
اب تو رکھنے وہ محبت کا بھرم آتے ہیں
اب ذرا تفصیل سے اے قاصدِ خوش رو بتا
اس نے پہلے کیا کہا،پھر کیا کہا،پھر کیا کہا
اس لیے کوئی زیادہ نہیں رکتا ہے یہاں
لوگ کہتے ہیں مرے دل پہ ترا سایہ ہے
آنگن میں گھنے پیڑ کے نیچے تری یادیں
میلہ سا لگا دیتی ہیں،اچھا نہیں کرتیں
افلاس نے بچوں کوبھی تہذیب سکھا دی
سہمے ہوئے بیٹھے ہیں، شرارت نہیں کرتے
اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں
ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں
ایک مبحت اور وہ بھی ناکام محبت
لیکن اس سے کام چلایا جا سکتا ہے
الفت کا نشہ جب کوئی مر جائے تو جائے
یہ دردِ سر ایسا ہے کہ سر جائے تو جائے
اب آگئے ہو تو بیٹھو وفا کی بات کریں
وفا کی بات میں ہر بے وفا سے کرتا ہوں
اے کہ دیوار ترے اذن سے در ہو جائے
مجھ خطا کار پہ بھی اک نظر ہو جائے
اس قبیلے سے نہیں میں کہ جو اپنی لڑکی
جنگ کے خوف سے دشمن کے حوالے کر دے
اب مجھ میں وضاحت کی ذرا تاب نہیں
اب تجھ سے مرا دیدہَ تر بات کرے گا
Bookmarks