لاش پٹڑی پہ پڑی دیکھی ہے جب سے تب سے
ریل گاڑی کی صدا اپنی طرف کھینچتی ہے
لاش پٹڑی پہ پڑی دیکھی ہے جب سے تب سے
ریل گاڑی کی صدا اپنی طرف کھینچتی ہے
لے رکھ تو اپنا حرفِ تسلی بھی پاس رکھ
یہ کوئی کاروبار نہیں کر رہا ہوں میں
لکھنا میرے مزار کے کتبے پہ یہ حروف
مرحوم زندگی کی حراست میں مر گیا
لکھنا تو تھا کہ خوش میں تیرے بغیر بھی
آنسو مگر کلام سے پہلے ہی گر پڑے
لفظ مردہ ہیں لغت کوئی اٹھا کر دیکھو
صرف جذبات ہی لفظوں کو اثر دیتے ہیں
لفظ نشتر کی طرح دل میں اتر جاتے ہیں
خط محبت کا بھی لکھتا ہے وہ تلوار کے ساتھ
لے گیا جان مری روٹھ کے جانا تیرا
ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا تیرا
لوگ کہتے ہیں تو اب بھی خفا ہے مجھ سے
مگر تیری نظروں نے تو کچھ اور ہی کہا ہے مجھ سے:
Bookmarks