نہ گل کھلے ہیں،نہ ان سے ملے،نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کہ بہار گزری ہے
نہ گل کھلے ہیں،نہ ان سے ملے،نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کہ بہار گزری ہے
نہ کمالِ عہدِ شباب ہے،نہ حصولِ حسن و جمال ہے
تمہیں دل نواز بنا دیا،یہ مری نظر کا کمال ہے
نئی منزلوں کی تلاش تھی سو بچھڑ گئے
میں بچھڑ کے تجھ سے بھٹک گیا ترا کیا بنا
نہ اپنا نام،نہ چہرہ بدل کے آیا ہوں
کہ اب کی بار میں رستہ بدل کے آیا ہوں
نکل کر بند کمرے سے ذرا بازار میں آوَ
اگر تم دیکھنا چاہو تماشا ہو بھی سکتا ہے
نہیں پتھر نہیں مجھ پہ دھکتی آگ برساوَ
مرا یہ جرم ہے میں روشنی کا ساتھ دیتا ہوں
نہیں مصروف میں اتنا کہ گھر کا راستہ بھولوں
نہ ہو جب منتظر کوئی،تو گھر اچھے نہیں لگتے
نہیں ہے کوئی بھی منزل اگر مری منزل
تو پھر یہ پاوَں تلے راستے کہاں کے ہیں
نہیں بھی ہوں تو دیواروں میں دروازے بنا دیں
فصیلِ شہر پر جو سحر گر بیٹھےہوئے ہیں
نگاہیں میرے گرد آلود چہرے پر ہیں دنیا کی
جو پوشیدہ ہے باطن میں وہ جوہر کون دیکھے گا
نظر انداز کرنے کی سزا دینا تھی تجھ کو
ترے دل کیں اتر جانا ضروری ہو گیا تھا
نہیں مروں گاکسی جنگ میں یہ سوچ لیا
میں اب کی بار محبت میں مارا جاوَں گا
Bookmarks