مِصر یوسفؑ سے شرمسار بھی ہو سکتا ہے
بِکنے والا ہی خریدار بھی ہو سکتا ہے
اب نچاتا ہے تِرا عشق اکیلے میں مجھے
یہ تماشہ سرِ بازار بھی ہو سکتا ہے
وہ مِرے پیار میں سب ہوش گنوا دے شاید
وہ مِرے نام سے بے زار بھی ہو سکتا ہے
ہو تو سکتا ہے اسی آگ سے دل بھی کُندن
اور محبت میں یہ بے کار بھی ہو سکتا ہے
توڑ سکتا ہے کبھی ضبط کے سارے بندھن
اشک آنکھوں کا گنہ گار بھی ہو سکتا ہے
پر بھی نازک ہیں ترے حوصلے کچّے ہیں ابھی
اے ارادے! تُو گرِفتار بھی ہو سکتا ہے
وہ جو چاہے تو مِلے سانس کی مہلت ورنہ
ہاں، اگر چاہے تو انکار بھی ہو سکتا ہے
لِکھتا رہتا ہوں حدیثِ غمِ دل، یارو
ایک دن دیکھنا شاہکار بھی ہو سکتا ہے
بیٹھ رہتا ہے یہ رُوح کی گہرائی میں
درد چہرے سے نمُودار بھی ہو سکتا ہے
میں کہاں تک تِری یادوں کو سنبھالے رکھوں
یہ تعلّق مُجھے دُشوار بھی ہو سکتا ہے
ہِچکیاں لیتا ہوا رات کے سِینے میں کہیں
کوئی عاشق، کوئی فنکار بھی ہو سکتا ہے
جو مِرے ساتھ چلا ہے بڑے دعووں سے
وہ مِری راہ کی دِیوار بھی ہو سکتا ہے
کس لیے سمجھوں مَیں کسی غیر کو قاتل اپنا
کہ یہاں ایسا کوئی یار بھی ہو سکتا ہے
نام لیتا ہے وفاوٴں کا سرِ عام نثارؔ
ایسا سرکش تو سرِ دار بھی ہو سکتا ہے
(`'•.¸*¤*¸.•'´)
*••*ناصر *••*
Bookmarks