بنے بنائےہوئے راستوں پہ جا نکلے
یہ ہمسفر مِرے کتنے گریز پا نکلے
چلے تھے اور کِسی راستے کی دُھن میں مگر،
ہم اتفاق سے تیری گلی میں آ نکلے
غمِ فراق میں کچھ دیر رو ہی لینے دو!
بخار کچھ تو دلِ بے قرار کا نکلے
نصیحتیں ہمیں کرتےہیں ترکِ اُلفت کی!
یہ خیر خواہ ہمارے کدھر سے آ نکلے
یہ خامشی تو رگ و پے میں رَچ گئی ناصر!
وہ نالہ کر کہ دلِ سنگ سے صدا نکلے
Bookmarks