قبیلہ اشعریین کے لوگ جب ہجرت کر کے مدینہ طیبہ پہنچے تو جو کچھ توشہ اور کھانے پینے کا سامان ان کے پاس تھا وہ ختم ہوگیا،
انھوں نےاپنا ایک آدمی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں اس غرض کےلیے بھیجا کہ ان کے کھانے وغیرہ کا کچھ انتظام فرمادیں، یہ شخص جب رسول کریم ﷺ یہ آیت پڑھ رہے ہیں وما من دابۃ فی الا رض الا علی اللہ رزقھا اس شخص کو یہ آیت سن کر خیال آیا کہ جب اللہ نے سب جانداروں کا رزق اپنے ذمہ لے لیا ہے تو پھر ہم اشعری بھی اللہ کے نزدیک دوسرے جانوروں سے گئے گزرے نہیں وہ ضرور ہمیں بھی رزق دیں گے، یہ خیال کر کے وہیں سے واپس ہوگیا، آنحضرت ﷺ کو اپنا کچھ حال نہیں بتلایا، واپس جا کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ خوش ہوجاؤ، تمھارے لئے اللہ تعالیٰ کی مدد آرہی ہے، اس کے اشعری ساتھیوں نے اس کا یہ مطلب سمجھا کہ ان کے قاصد نے حسبِ قرار داد رسول کریم ﷺ سے اپنی حاجت کا ذکر کیا ہے اور آپ نے انتظام کرنے کا وعدہ فرمالیا ہے وہ یہ سمجھ کر مطمئن بیٹھ گئے، وہ ابھی بیٹھے ہی تھے کہ دیکھا کہ دو آدمی گوشت اور روٹیوں سے بھرا ہوا ایک بڑا برتن (جسے قصعہ کہا جاتا تھا ) اٹھائے لا رہے ہیں، لانے والوں نے یہ کھانا اشعریین کو دے دیا، انھوں نے خوب شکم سیر ہو کر کھایا پھر بھچ گیا تو ان لوگوں نے یہ مناسب سمجھا کہ باقی کھانا آنھضرت ﷺ کے پاس بھیج دیں تاکہ اس کو آپ اپنی ضرورت میں صرف فرمادیں، اپنے دو آدمیوں کو یہ کھانا دے کر آنحضرت ﷺ کے پاس بھیج دیا۔
اس کے بعد یہ سب حضرات آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ کا بھیجا ہوا کھانا بہت زیادہ اور بہت نفیس و لزیز تھا، آپ نے فرمایا کہ میں نے تو کوئی کھانا نہیں بھیجا۔
تب انھوں نے پورا واقعہ عرض کیا کہ ہم نے اپنے فلاں آدمی کو آپ کے پاس بھیجا تھا، اس نے یہ جواب دیا، جس سے ہم نے سمجھا کہ آپ نے کھانا بھیجا ہے، یہ سن کر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ میں نے نہیں بلکہ اُس ذاتِ قدوس نے بھیجا ہے جس نے ہر جاندار کا رزق اپنے ذمہ لیا ہے۔
(معارف القرآن جلد 4 صفحہ 591، سورہ ہود: آیت 2)