Results 1 to 7 of 7

Thread: mushrikeen o nasara ki gumrahi k asbab

  1. #1
    nasirnoman is offline Senior Member
    Last Online
    25th November 2017 @ 05:24 PM
    Join Date
    17 Dec 2008
    Posts
    912
    Threads
    55
    Credits
    1,074
    Thanked
    518

    Default mushrikeen o nasara ki gumrahi k asbab

    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ!
    شیطان نے انسانیت کو گمراہ کرنے کے طرح طرح کے حربے استعمال کئے ۔۔۔۔کہیں لوگوں کو نیکیوں سے روکنے کے لئے وسوسے ڈالے۔۔۔تو کہیں لوگوں کو برائیوں میں مبتلا کیا ۔۔۔۔کہیں لوگوں کو دنیا کی رنگینیوں میں گم کر کے عیش و عشرت میں مبتلا کیا ۔۔۔۔تو کہیں آخرت کو بھلانے میں مدد دی ۔۔۔ ۔ لیکن ان سب واروں سے زیادہ کار گر وار جو شیطان کا تھا۔۔۔ وہ لوگوں کو شرک و کفر میں مبتلا کرنا تھا ۔۔۔جو بالآخر ایسی منزل ہوتی ہے جس کے بعد شیطان کو لوگوں کو نیکیوں سے روکنے کی یا برائیوں میں مبتلا کرنے پر محنت کی ضرورت نہیں ہوتی ۔۔۔۔بلکہ ایسے لوگوں کے تمام اچھے اعمال شرک کے اندھیروں میں گم ہوجاتے ہیں ۔
    لیکن شیطان کے لئے لوگوں کو ایسی منزل تک پہنچانااتنا آسان نہیں ہوتا ۔۔۔۔یعنی شیطان لوگوں کے دلوں میں نیکیوں سے روکنے پر وسوسہ تو ڈال سکتا ہے ۔۔۔۔ یا برائیوںمیں موجود نفسانی لذتوں کی وجہ سے برائیوں کی طرف رہبری کرنا تو آسان ہے ۔۔۔۔لیکن ایمان والوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی غیر کو معبود سمجھنے کا اعتقاد بنانا اتنا آسان نہیں ۔۔۔۔اور نہ ہی یہ عمل وسوسہ سے پیدا کیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔بلکہ اس کام کے لئے شیطان کو برسوں محنت کرنی پڑتی ہے ۔۔۔۔تب جاکر شیطان کو صرف اتنی کامیابی ملتی ہے کہ وہ لوگوں کی ایمان کی بنیادوں میں دڑاریں ڈالنے میں کامیاب ہوتا ہے ۔۔۔بس یہی شیطان کی کامیابی لوگوں کو صراط مستقیم سے دور لے جانے کا سبب بن جاتی ہے ۔
    کتب تفاسیر میں آتا ہے کہ روئے زمین پر سب سے پہلے گمراہی کی ابتداءبت پرستی سے شروع ہوئی ۔۔۔۔اور اس بت پرستی کی گمراہی میں مبتلا ہونے والی قوم ،قوم نوح تھی ۔۔۔۔سورہ نوح (آیت 23) میں حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں مشرکین کے معبود ”دو۔۔سواع۔۔یغوث۔۔یعوق ۔۔نسر“ کا تذکرہ آیا ہے ۔۔۔ ۔ جن کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    وھی اسماءرجال صالحین من قوم نوح علیہ السلام ،فلما ھلکوا ،اوحی الشیطان الی قومھم :ان انصبو ا الی مجالسھم التی کانوا یجلسون فیھا انصابا،وسموھا باسمائھم ،ففعلوا،فلم تعبد ،حتی اذا ھلک اولئک ،ونسخ العلم عبدت الخ(بخاری کتاب التفسیر ، سورہ نوح ،ح:492)
    یعنی یہ سب بت دراصل قوم نوح علیہ السلام کے صالح بزرگ اولیاءاللہ لوگ تھے ،ان کے انتقال کے بعد شیطان نے اس زمانے کے لوگوں کے دل میں یہ بات ڈالی کہ ان بزرگ کی عبادت گاہوں میں ان کی کوئی یاد قائم کریں ،چناچہ انہوں نے وہاں نشان بنا دئیے اور ہر بزرگ کے نام پر انہیں مشہور کیا،جب تک یہ لوگ زندہ رہے تب تک تو ا س جگہ کی پرستش نہیں ہوئی ،لیکن ان( نشانات اور یادگار قائم کرنے والے) لوگوں کے مرجانے کے بعد اور علم کے اٹھ جانے کے بعد (جو لوگ آئے بوجہ جہالت کے انہوں نے باقاعدہ ان جگہوں کی اور ان ناموں کی) پوجا پاٹ شروع کردی۔
    او رابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
    عند ابی جعفر: قال :ثم ذکروا رجلا مسلما،وکان مجببا فی قومہ ،فلما مات ،اعتفکو احول قبرہ فی ارض بابل ،وجزعوا علیہ ،فلما رای ابلیس جزعھم علیہ ،تشبہ فی صورة انسان ،ثم قال : انی اری جزعکم علی ھذا الرجل ،فھل لکم ان اصورلکم مثلہ ،فیکون فی نادیکم فتذکرو نہ ؟ قالوا:نعم ،فصور لھم مثلہ ،قال :ووضعوہ فی نادیھم ،وجعلوا یذکرونہ ،فلما رای مابھم من ذکرہ قال :ھل لکم ان اجعل فی منزل کل رجل منکم تمثالا مثلہ ،فیکون لہ فی بیتہ فتذکرونہ ؟ قالوا:نعم ،قال فمثل لکل اھل بیت تمثالا مثلہ ،فاقبلوا فجلعوا یذکرونہ بہ ،قال :وادرک ابناﺅھم فجعلوا یرون مایصنعون بہ ،قال :وتناسلوا ،ودرس امر ذکرھم ایاہ ،حتی اتخذہ الھا یعبدونہ من دون اللہ اولاد اولادھم ،فکان اول ماعبد من دون اللہ :الصنم الذی سموہ :ودا۔ الاصنام التی اتخذوھا اضلوا بھا خلقا کثیرا،فانہ استمرت عبادتھا فی القرون الی زماننا ھذا ،فی العرب و العجم الخ (تفسیر ابن ابی حاتم)
    ابو جعفر رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ،ایک دیندار ولی اللہ مسلمان جسے لوگ بہت چاہتے تھے اور بڑے معتقد تھے ،وہ مر گیا۔یہ لوگ مجاور بن کر اس کی قبر پر بیٹھ گئے اور رونا پیٹنا اور اسے یاد کرنا شروع کیا اور بڑے بے چین اور مصیبت زدہ ہو گئے ، ابلیس نے یہ صورت دیکھ کر انسانی صورت میں آکر ان سے کہاکہ اس بزرگ کی یادگار کیوں نہیں قائم کر لیتے ؟جو ہر وقت تمہارے سامنے رہے اور تم اسے نہ بھولو۔سب نے اس کی رائے کو پسند کیا۔ابلیس نے ان بزرگ کی تصویر بنا کر ان کے پاس کھڑی کر دی جسے دیکھ دیکھ کر لوگ اسے یاد کر تے تھے اور اس کی عبادت کے تذکرے رہتے تھے جب وہ سب اس میں مشغول ہو گئے ،تو ابلیس نے کہا تم سب کو یہاں آنا پڑتا ہے ،اس لئے یہ بہتر ہوگا کہ میں اس کی بہت سی تصویریں بنادوں تم انہیں اپنے گھروں میں رکھ لو ،وہ اس پر بھی راضی ہوئے اور یہ بھی ہو گیا۔اب تک یہ بت اور یہ تصویریں صرف یاد کے ہی تھے مگر ان کی دوسری پشت میں جاکر براہ راست ان ہی کی عبادت ہونے لگی۔ اصل واقعہ سب فراموش کر گئے اور اپنے باپ دادوں کو بھی ان کی عبادت کرنے والا سمجھ کر خود بھی بت پرستی میں مشغول ہوگئے ،ان کا نام ”ود “ تھا یہی وہ پہلا بت ہے جس کی پوجا اللہ کے سوا کی گئی ،انہوں نے بہت مخلوق کو گمراہ کیا ،اس وقت سے لے کر اب تک عرب و عجم میںاللہ کے سوا دوسروں کی پرستش شروع ہو گئی اور مخلوق خدا بہک گئی۔
    محترم قارئین کرام !
    یہاں سب سے قابل غور بات یہ ہے کہ ان بت پرستوں کے معبود خیالی نہیںتھے ۔۔۔۔بلکہ کسی وقت کے ولی اللہ تھے ۔۔۔۔اور دوسری اہم بات غور کرنے والی یہ ہے کہ ایسا نہیں تھا کہ لوگوں نے ایک ہی مرحلہ میں غیر اللہ کو اپنا معبود مان لیا تھا ۔۔۔۔۔بلکہ پہلے مرحلہ میں شیطان نے لوگوں کی ایمان کی عمارت میں دراڑ ڈ النے کے لئے نیک بندوں کی تصاویر یا بت بنانے کی ترغیب دی یا اُن کو تصاویر بناناسکھایا۔۔۔۔تاکہ لوگ جو ان نیک بندوں سے عقیدت رکھتے تھے وہ اُن کو اپنے نظروں کے سامنے رکھ سکیں ۔
    اس کے بعد دوسرے مرحلہ میں بھی آنے والی نسلوں نے ان تصویروں یا بتوں کو اپنا معبود نہ سمجھا ۔۔۔۔بلکہ اُنہوں نے ان تصویروں یا بتوں سے اپنے باپ دادا کی عقیدت کو دیکھتے ہوئے اور ہی رنگ دینا شروع کردیا ۔ ۔۔۔وہ ان نیک بندوں کے متعلق گمان کرنے لگے کہ یہ سنتے بھی ہیں ،دیکھتے بھی ہیں ، لوگوں کی سفارش کرتے ہیں اور ان لوگوں کے کاموں کا نظم و نسق کرتے ہیں اور ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔۔۔۔لہذا ان بزرگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے انہوں نے ان بتوں کو قبلہ نما بنالیا۔
    چناچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
    وقالوا:ھولاءیسمعون ویبصرون ویشفعون لعبادلھم ،ویدبرون امورھم ،وینصرونھم ،فنحتوا علی اسمائھم احجارا، وجعلوھا قبلة عند توجھم الی ھولاءالخ (حجة اللہ البالغہ)
    یعنی (مشرکین )کہتے ہیں کہ یہ لوگ (نیک بندے) سنتے ہیں اور دیکھتے ہیں اورلوگوں کی سفارش کرتے ہیں اور ان کے کاموں کا نظم و نسق کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں ،پس انہوں نے ان بزرگوں کے ناموں پر پتھر تراشے تاکہ وہ ان اصنام کو قبلہ بنائیں ،جبکہ وہ ان بزرگوں کی طرف متوجہ ہوں ۔
    لہذا یہی رنگ تیسرے مرحلہ میں جاکرکب عقیدت سے عبادت کا روپ دھار گیا۔۔۔ کسی کو پتہ بھی نہیں چلا۔۔۔۔اور نہ ہی انہیں یہ احساس ہوا کہ اُن کی ایمان کی عمارتیں زمین بوس ہوچکی ہیں ۔۔۔۔اورنہ ہی یہ لوگ سمجھ سکے کہ جن نیک بندوں سے محض عقیدت رکھنے کی وجہ سے ان کے باپ دادوں نے ان نیک بندوں کی تصویریں یا بت بنائے تھے انہی بتوں کو یہ لوگ بعینہ معبود مان چکے ہیں ۔
    شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
    فخلف من بعد ھم خلف فلم یفطنو للفرق بین الاصنام ،وبین من ھی علی صورتہ ،فظنوھا معبودات باعیانھا الخ(حجة اللہ البالغہ)
    یعنی پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے جو فرق نہیں سمجھ سکے مورتیوں اور ان لوگوں کے درمیان جن کی شکل پر یہ مورتیاں ہیں ،پس ان لوگوں نے ان مورتیوں ہی کو بعینہ معبود سمجھ لیا۔ “
    یوں اس قوم کے باپ دادوں نے اپنا سفرنیک بندوں سے عقیدت میں غلو کرنے کے سبب جو تصاویرا وربت بنا کر شروع کیا ۔۔۔۔وہ بت پرستی کی گمراہی کی صورت میں اپنے انجام تک پہنچا۔ ۔۔۔اور ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والی قوم بتوں کومعبود بنا کر اُن کی عبادت کرنا شروع ہوگئی۔
    میرے بھائیوں ،بہنوں اور بزرگوں!
    کسی بھی عمارت کی تعمیر کے لئے طرح طرح کے لوازمات درکار ہوتے ہیں جیسے سیمنٹ ،بجری،لوہا،دروازے ،کھڑکیاں،رنگ و روغن وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ لیکن جب اسی عمارت کی تباہی مقصود ہو تو یقینا نہ توایسے لوازمات درکار ہوتے ہیں اور نہ ہی ایسی لمبی چوڑی محنت درکار ہوتی ہے جو کہ عمارت کی تعمیر کے وقت ہوتی ہے ۔۔۔۔بلکہ عمارت کی تباہی کسی بنیاد میںصرف دراڑ پڑنے سے بھی ہوسکتی ہے۔۔۔۔ ۔جس کے بعد عمارت کے سارے لوازمات جو کہ علیحدہ علیحدہ بڑی محنت سے جمع کرکے تیار کئے گئے تھے وہ عمارت کے بنیادی ستون کے گرجانے سے ایک ساتھ ہی زمین بوس ہوجاتے ہیں ۔
    آج جب کچھ لوگوں کو نیک بندوں سے عقیدت میں غلو کرتے دیکھ کر چندغلط عقائدکی نشادہی کے لئے بت پرستوں کی گمراہی کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے توعموما یہ لوگ اپنے اور مشرکین کے درمیان عقائد کا فرق بیان کرتے ہوئے بت پرستوں کی عمارت کے ملبہ کا ڈھیر دکھادیتے ہیں ۔۔۔۔یعنی یہ لوگ کہتے ہیں کہ مشرکین اپنے بتوں کو معبود سمجھتے ہیں اور اُن کی عبادت کرتے ہیں ۔۔۔جبکہ مسلمان نہ تو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معبود سمجھتا ہے اور نہ ہی غیر اللہ کی عبادت کرنے کا تصور کرسکتا ہے ۔
    یہ ٹھیک ہے کہ کوئی بھی مسلمان نہ تو غیر اللہ کو معبود سمجھ سکتا ہے ۔۔۔۔اور نہ ہی غیر اللہ کی عبادت کرنے کا تصور کرسکتا ہے ۔
    لیکن سمجھنے والی بات تو یہ ہے کہ کیا مشرکین کے (گمراہی سے قبل والے)باپ دادا اُس وقت تصور میں بھی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان نیک بندوں کی عبادت کرنے کا یا انہیں معبود بنانے کا سوچ سکتے تھے ؟؟
    یقینا جواب یہی ہوگا کہ کوئی بھی ایمان والا اللہ کے سوا کسی غیر کو نہ تو معبود بنانے کا سوچ سکتا ہے اور نہ غیر کی عبادت کرنے کا سوچ سکتا ہے ۔
    لیکن دوسری جانب مشرکین کا”بتوں کو معبود سمجھنا اور اُن کی عبادت کرنا“ ہم سب کے سامنے ایک اٹل حقیقت کے طرح موجود ہے ۔
    تو پھر واضح ہوجاتا ہے کہ ایمان کی روشنیوں اور شرک کے اندھیروں کے درمیان ایک راہ ایسی موجود ہے جس پر چل کرایک ایمان والی قوم گمراہی کے اندھیروں میں گم ہوسکتی ہے ۔
    تو پھر آج ہم مسلمان مشرکین کی ایمان کی عمارت کے ملبہ کو دیکھ کر یہ سمجھنا چھوڑ دیں کہ عمارت کی تباہی اور بربادی اسی ملبہ کے ڈھیر کو کہتے ہیں ۔۔۔۔جبکہ ہماری ایمان کی عمارت تو بہت حسین اور مضبوط نظر آتی ہے ۔۔۔۔اورہمارے عقائد میں اور مشرکین کے عقائد میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔۔۔۔اس لئے ہمیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ؟؟؟
    بلکہ ہمیں تو فکر یہ کرنی چاہیے کہ وہ کون سے راستے ہیں کہ جن پر چل کر مضبوط عمارتیں بھی ملبہ کا ڈھیربن جاتی ہیں؟؟؟
    اور جب ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈ لیں گے تب ہم یہ سوچنا چھوڑ دیں گے کہ فلاں قوم کی گمراہی فلاں ہے اور ہم فلاں گمراہی کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔۔۔بلکہ ہم ہرآن یہ خیال رکھیں گے کہ وہ کون سا قدم ہے جس کو اٹھانے کے بعد صراط مستقیم کھونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ؟؟؟

    ۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔
    (ضروری گذارش: اگر کسی بھائی یادوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔جزاک اللہ
    [URL="http://www.itdunya.com/showthread.php?p=1482439&posted=1#post1482439"][SIZE="4"]Pakistan k masail or un ka yaqini or mustaqil hal
    Once Must Read
    Hosakta hai apko apkey masail k Hal bhi mil jaey[/SIZE][/URL]

  2. #2
    Tiger745 is offline Member
    Last Online
    1st September 2014 @ 05:28 PM
    Join Date
    26 Apr 2014
    Location
    lahore
    Age
    27
    Gender
    Male
    Posts
    135
    Threads
    7
    Thanked
    6

    Default

    nice sharing

  3. #3
    Zahidkpr is offline Senior Member+
    Last Online
    28th June 2023 @ 10:40 AM
    Join Date
    07 Apr 2013
    Gender
    Male
    Posts
    541
    Threads
    32
    Credits
    455
    Thanked
    46

    Default

    buht achy..

  4. #4
    sudes_102 is offline Member
    Last Online
    2nd March 2018 @ 07:24 PM
    Join Date
    20 Jan 2009
    Gender
    Male
    Posts
    990
    Threads
    77
    Thanked
    61

    Default

    ماشاءاللہ اور جزاک اللہ میں نے یہ تھریڈ آج دیکھا، بہت عمدہ

  5. #5
    nasirnoman is offline Senior Member
    Last Online
    25th November 2017 @ 05:24 PM
    Join Date
    17 Dec 2008
    Posts
    912
    Threads
    55
    Credits
    1,074
    Thanked
    518

    Default

    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    ۔۔۔۔گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔۔
    مشرکین کی گمراہی کا یہ پہلو تو بالکل واضح ہے کہ مشرکین کی گمراہی کی ایک بڑی وجہ نیک بندوں سے عقیدت و محبت میں چند غلط فہمیوں میں مبتلا ہوجانا تھا ۔
    تو اب یہ غور کرنا باقی رہ جاتاہے کہ آخر یہ غلط فہمیاں کیسے پروان چڑھیں ؟؟؟
    جو آگے جا کے لوگوں کی گمراہی کا سبب بن گئیں؟؟؟
    مشرکین کی گمراہی کا دوسرا اور اہم پہلو نیک بندوں کے ہاتھوں خوارق عادات امور کا صدور ہوتے دیکھ کر غلط فہمی میں مبتلا ہوجانا تھا۔
    یعنی جب اُن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے ہاتھوں پر ایسے خوارق عادات امور صادر ہوتے دیکھے جوعام حالات میں کسی بھی انسان کے بس سے باہر ہیں اور ایسے امور صرف خدا کے ساتھ ہی خاص ہوتے ہیں تو انہوں نے یہ گمان کرلیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان نیک بندوں کی عبادت سے راضی ہو کر انہیں الوہیت(خدائی) کی خلعت سے نواز دیا ہے کہ اب یہ نیک بندے جب چاہیں ،جو چاہیں اور جیسے چاہیں خوارق عادات افعال کا صدور کرسکتے ہیں۔۔۔پس لوگوں کا یہی گمان ان کی گمراہی کی ایک بڑی وجہ بن جاتا ہے ۔
    چناچہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ ”شرک کی حقیقت“ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
    حقیقة الشرک ان یعتقد انسان فی بعض المعظمین من الناس ان الاٰ ثار العجیطة الصادرة منہ انما صدرت لکونہ متصفا بصفة من صفات الکمال مملم یعھد فی جنس الانسان بل یختص بالواجب جل مجدہ لا یوجد فی غیرہ الاان یخلع ھو خلعة الالوھیة علیٰ غیرہ او یفنی غیرہ فی ذاتہ ویبقیٰ بذاتہ او نحو ذٰالک مما یظنہ ھذا المعتقد من انواع الخرافات الخ (حجة اللہ البالغہ ج 1 ص 61)
    یعنی شرک کی حقیقت یہ ہے کہ انسان انسانوں کی کسی بڑی ہستی میں عجیب و غریب کرامات دیکھے ،اور یہ اعتقاد کرلے کہ یہ آثار جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہیں اور کسی دوسرے میں ہرگز نہیں پائے جاسکتے یہ بزرگ ہستی چونکہ صفات کمال سے موصوف ہے اور اس میں یہ آثار اس لئے پائے گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو الوہیت کی خلعت سے نوازا ہے یا اس بزرگ نے فنا فی اللہ کا درجہ حاصل کرلیا ہے اور اپنی ذات بالکل مٹا دی ہے اب اس سے جو کچھ صادر ہوتا ہے گویا خدا تعالیٰ کررہا ہے ،اور اس قسم کے کئی اور خرافات اس متعقد کے ذہن میں آتے ہیں ۔
    میرے مسلمان بھائیوں ،بہنوں اور بزرگو!
    "نیک بندوں کے ہاتھوں پرخوارق عادات امور کا ظہورہونا" بہت اہم اور قیمتی نکتہ ہے جس کو سمجھنے کے لئے ”خوارق عادات امور کے صدور “ کے حوالے سے چند اہم ترین نکات سمجھنا از حد ضروری ہیں ۔۔۔جس کے بعد آپ باآسانی سمجھ سکیں گے کہ مشرکین کی گمراہی کی اصل وجہ کہاں پوشیدہ ہے ؟؟؟
    ”معجزہ“ عام طور پر ایسے خارق عادت امر کو کہا جاتا ہے کہ جو کسی بھی مخلوق کے بس سے باہر ہویا مخلوق ایسے افعال کے صدور سے عاجز ہو ۔۔۔ لفظ ”معجزہ“ عجز سے مشتق ہے جو قدرت کی ضد ہے۔۔۔۔ اور ”معجزہ“ کے اندر فعلِ عجز(یعنی ایسا فعل پیدا کرنا کہ جس کو کرنے سے ساری مخلوق عاجز ہو)پیدا کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔
    چناچہ ملاعلی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
    ”المعجزة من العجز الذی ھو ضد القدرة وفی التحقیق المعجز فاعل فی غیرہ وھو اللہ سبحانہ “(مرقاة ہامش مشکوة ج 2 ص 530)
    یعنی معجزہ عجز سے (مشتق ) ہے جو قدرت کی ضد ہے اور تحقیقی بات صرف یہ ہے کہ معجزہ وہ ہے جو غیر کے اندر عجز کا فعل پیدا کرے اور وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات مقدس ہے“
    ابن حجرعسقلانی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 852ھ) فرماتے ہیں:
    ”وسمیت المعجزة معجزة لعجز من یقع عندھم ذلک عن معارضتھاالخ (فتح الباری ج 6 ص 424)
    اور معجزہ کو اس لئے معجزہ کہا جاتا ہے کہ جن کے پاس وہ پیش کیا جاتا ہے وہ اس کے معارضہ سے عاجز آجائے “
    حافظ کمال الدین ابن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں
    ”انھا لما کانت مما یعجز عنہ الخلق لم تکن الا فعلا للہ سبحانہ “(المسائرہ ج 2 ص 89 مع المسامرہ)
    یعنی معجزہ جب ایسی چیز ہے کہ اُس کے صادر کرنے سے مخلوق عاجز ہے تو معجزہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کا فعل ہوگا ۔
    لہذا جب یہ واضح ہوجاتا ہے معجزہ ایسا فعل ہے جس کے معارضہ سے ساری مخلوق عاجز آجائے تو نقل سے تو واضح ہے ہی کہ پھر یہ فعل اللہ تعالی کا ہوگا لیکن دوسری طرف عقلی طور پربھی خود بخود واضح ہوجاتا ہے کہ جس فعل سے ساری مخلوق کی عاجزی ظاہر ہو تو پھر وہ فعل سوائے خالق کے اور کسی کا نہ ہوگا۔
    لہذا جب ایسا کوئی امر جس کے ظہور سے مخلوق کی عاجزی ظاہر ہو ۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ امر کسی مکرم ہستی کے ہاتھ پر صادر ہوتا نظر آتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مکرم ہستی کی عبادت اور ریاضت سے خوش ہوکر خوارق عادات امور پر اختیار و قدرت دے دی ہے۔۔۔۔۔۔ گویامکرم ہستی کو خدائی اختیارات مل گئے ہیں یا”الوہیت کی خلعت کی عطاء“ہوگئی ہے۔۔۔۔جبکہ مخلوق کے ہاتھوں پر ایسے خارق عادت امر کے ظہور کی حقیقت اتنی تھی کہ جب ایسا کوئی خارق عادت امر کسی اللہ تعالیٰ کے نبی کے ہاتھ پر صادر ہوتا تھا تووہ اللہ رب العزت کی طرف سے مدعی نبوت کے دعوی کی تصدیق کے طور نبی کے ہاتھوں پرصادر ہوتا تھا کہ یہ نبی اپنے دعوی میں سچا ہے۔
    چناچہ امام عبد الوھاب شعرانی رحمتہ اللہ علیہ الشیخ ابو طاہر رحمتہ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں :
    ”اعلم ان البر ھان القاطع علی ثبوت نبوة الانبیاءھو المعجزات وھی فعل یخلقہ اللہ خارقا للعادة علی ید مدعی النبوة معتر فا بدعواہ وذلک الفعل یقوم قول اللہ عزوجل لہ انت رسولی تصدیقا لما ادعاہ الخ (الیواقیت والجواھر ج1 ص158)
    جاننا چاہیے کہ انبیاءکرام کی نبوت کے ثبوت پر واضح ترین دلیل صرف معجزات ہیں اور معجزہ وہ فعل ہے جس کو خرق عادت کے طور پر اللہ تعالیٰ مدعی نبوت کے ہاتھ پر اس کے دعوئے نبوت کا اعتراف کرتے ہوئے صادرفرمائے اور یہ فعل اللہ تعالیٰ کے اس قول کے قائم مقام ہے کہ تو اپنے دعوی رسالت میں بالکل صادق ہے “
    اور علامہ قاضی عیاض بن موسیٰ بن عیاض المالکی رحمہ اللہ (المتوفی 544ھ) لکھتے ہیں :
    ”اعلم ان معنی تسمیة ماجاءت بہ الانبیاءمعجزة ھو ان الخلق عجزوا عنہ فبعجز ھم عنہ ھو فعل اللہ تعالیٰ دل علیٰ صدق نبیییہ (الیٰ ان قال)کاحیاءالموتیٰ و قلب العصا حیة واخراج ناقة من صخرة وکلام شجرة ونبع الماءمن بین الاصابع وانشقاق القمر ممالا یمکن ان یفعلہ احد الااللہ فیکون ذلک علیٰ ید النبی من فعل اللہ تعالیٰ و تحدیہ علیہ السلام من یکذبہ ان یاتی بمثلہ تعجیز لہ “(شفاءص 122)
    ”جاننا چاہیے کہ جو (خرق عادت ) چیز انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کے ہاتھ پر صادر ہوتی ہے اس کو اس لئے معجزہ کہتے ہیں کہ مخلوق اس کے ظاہر کرنے سے عاجز ہوتی ہے اور جب مخلوق اس سے عاجز ہوتی ہے تومعلوم ہوا کہ معجزہ خالص خدا تعالیٰ کا فعل ہی ہوگا جو نبی کی صداقت کی واضح دلیل ہے (پھر آگے فرمایا)جیسے مردوں کا زندہ کرنا اور لاٹھی کو سانپ بنا دینا اور پتھر سے اوٹنی کا نکالنا اور درختوں کا کلام کرنا اور انگلیوں سے پانی کا ابل پڑنا اور چاند کا پھٹ جانا (وغیرہ) یہ ایسی چیزیں ہیں کہ اللہ کے بغیر کسی اور سے ان کا ہونا ممکن ہی نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جو نبی کے ہاتھ پر صادر ہوتا ہے اور نبی علیہ السلام نے مکذبین کو چیلنج کرکے ان کو اس فعل سے صادر کرنے سے عاجز کردیا ۔
    یعنی نبی کے ہاتھ پر معجزہ کا صدور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کو ”معجزہ “ پر اختیار و قدرت عطاءکرنے کی یا ”الوہیت کی خلعت “ عطاءکرنے کی دلیل نہیں بلکہ معجزات تو انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کے دعوی نبوت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تصدیق کے لئے ہوتے تھے ۔ ۔۔۔۔اور جب ایسے خوارق عادات امور کسی غیر نبی یعنی ولی کے ہاتھ پر صادر ہوتے ہیں تو ان کو کرامت کہا جاتا ہے جو اللہ رب العزت کی طرف سے اس ولی کی تکریم کے طور پرولی کے ہاتھ پر صادر ہوتی ہے۔
    معزز قارئین کرام !
    ان صریح حوالاجات کے بعد خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایسا خارق عادت امر جس کو صاد ر کرنے سے تمام کی تمام مخلوق عاجز ہو ”معجزہ“ ہے۔۔۔جیسے مردوں کا زندہ کرنا اور لاٹھی کو سانپ بنا دینا اور پتھر سے اوٹنی کا نکالنا اور درختوں کا کلام کرنا اور انگلیوں سے پانی کا ابل پڑنا اور چاند کا پھٹ جانا (وغیرہ)۔۔۔۔یقینا یہ ایسے امور ہیں کہ جس سے ساری مخلوق عاجز ہے ۔۔۔۔لہذا ایسے تمام معجزات خالص اللہ تعالیٰ کے افعال ہیں جو مدعی نبوت کے ہاتھ پراللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس کے دعوی نبوت کی تصدیق کے لئے صادر ہوتے ہیں ۔
    یعنی جب ”معجزات “درحقیقت ایسے خوارق عادات امور ہیں جس سے تمام مخلوق عاجز ہو یعنی مخلوق کے دائرہ اختیار و قدرت سے باہر ہیں ۔۔۔۔تو واضح ہوجاتا ہے کہ معجزہ خالص اللہ تعالیٰ کا فعل ہے۔۔۔۔ اور اللہ تعالیٰ کا فعل جب کسی نبی کے ہاتھ پر صادر ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ نبی کو اللہ تعالیٰ کے فعل کا اختیار و قدرت مل گیا ۔۔۔۔بلکہ خدا کے فعل کا نبی کے ہاتھ پر صادر ہونااللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کی تصدیق کے لئے ہے کہ یہ نبی اپنے دعوی نبوت میں سچا ہے ۔۔۔۔اور اس نبی کے ہاتھ پر صادر ہونے والا یہ خدائی فعل( یعنی معجزہ) اس بات کی دلیل ہے کہ اس نبی کو رب کی طرف سے تائید حاصل ہے ۔ لیکن افسوس پچھلی قوموںنے انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کے معجزات اور اولیاءکرام کی کرامات کی حقیقت سمجھنے کے بجائے اُن کے ہاتھوں معجزات اور کرامات کے ظہور ہوتے دیکھ کر یہ گمان کرلیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان مکرم ہستیوں کو ”خلعت الوہیت “ عطاءکردی ہے ۔۔۔۔لہذا اب ان ہستیوں کو خوارق عادات امور پر پوری طرح اختیار و قدرت حاصل ہے ۔۔۔۔ اب یہ جو چاہیں جب چاہیں کرسکتے ہیں ۔۔۔۔لہذا پھر یہ لوگ گمراہی کے راستے پر چلتے اتنی دور نکلتے جاتے ہیں کہ پھر ایسی ہستیوں کو ہی معبود سمجھ کر اُن کی عبادات کرنے لگتے ہیں تاکہ کسی طرح یہ ہستیاں اُن سے راضی ہوکر اُن کے بگڑے کام بنادیں ۔۔۔۔یا آخرت میں اُن کے سفارشی بن جائیں ۔۔۔۔یا یہ ہستیاں ان کو رب کے قریب کردیں وغیرہ وغیرہ
    ۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔

    (ضروری گذارش: اگر کسی بھائی یادوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔جزاک اللہ

  6. #6
    sudes_102 is offline Member
    Last Online
    2nd March 2018 @ 07:24 PM
    Join Date
    20 Jan 2009
    Gender
    Male
    Posts
    990
    Threads
    77
    Credits
    0
    Thanked
    61

    Default

    سبحان الله وتعالى عما يشركون

  7. #7
    nasirnoman is offline Senior Member
    Last Online
    25th November 2017 @ 05:24 PM
    Join Date
    17 Dec 2008
    Posts
    912
    Threads
    55
    Credits
    1,074
    Thanked
    518

    Default

    .......

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •