بسم الله الرحمن الرحيم
الجواب حامدا ومصليا
زکوۃ قیمت ِفروخت یعنی موجودہ بازاری قیمت کے حساب سے ادا کی جائیگی،اور بازاری قیمت سے مراد یہ ہے کہ زکوۃ ادا کرنے کے دن اس سامان کی بازار میں جو قیمت ہو (چاہے قیمت ِخرید سے کم ہو یا زیادہ)،اس کے مطابق زکوۃ ادا کرنا لازم ہے ۔
نیز سارے مال و سامان کی اگر الگ الگ قیمت لگانا مشکل ہو تو ایک ساتھ ہی حسا ب لگانے کی گنجائش ہے اور اس کی آسان صورت یہ ہے کہ سال مکمل ہونے کے بعد احتیاط اور انصاف کے ساتھ سارے سامان کی بازاری قیمت لگائیں کہ اگر یہ سارا سامان فروخت ہو جائے تو کتنی رقم حاصل ہو گی ،اس طرح قیمت متعین کر کے اس حساب سے زکوۃ ادا کریں ۔
فی رد المحتار
۲/286)
وفي المحيط يعتبر يوم الأداء بالإجماع وهو الأصح اه
فهو تصحيح للقول الثاني الموافق لقولهما وعليه فاعتبار
يوم الأداء يكون متفقا عليه عنده وعندهما
کما فی البرهان غنية ذوی الاحکام ۔۔۔
۱/۱۸۱)
و الخلاف فی زکوة المال ،فتعتبر القیمة وقت الاداء فی
زکوةالمال علیٰ قولهما ،وهو الاظهر ،وقال ابو حنیفة
رحمه الله یوم الوجوب۔۔۔الخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔والله تعالىٰ اعلم بالصواب
Bookmarks