Results 1 to 4 of 4

Thread: مسجد اقصیٰ تاریخ کے آئینے میں

  1. #1
    aziz_865's Avatar
    aziz_865 is offline Senior Member+
    Last Online
    28th February 2019 @ 04:26 PM
    Join Date
    01 Dec 2009
    Location
    Hyderabad
    Posts
    275
    Threads
    47
    Credits
    1,026
    Thanked
    21

    Default مسجد اقصیٰ تاریخ کے آئینے میں


    مسجد اقصیٰ تاریخ کے آئینے میں
    محمدعبدالعزیز،حیدرآباد
    (چیف اڈیٹر انکشاف آن لاین نیوز)

    اقصیٰ (بمعنی دور )عربی زبان کا لفظ ہے ،یہاں بطور اسم استعمال ہے۔ عالم اسلام کا بچہ بچہ اس نام سے اور اس کی عظمت شان سے واقف ہے۔
    10 نبوی میں (27ویں رجب شب دوشنبہ کو) اللہ تعالی کی جانب سے خاص اور منفرد سفرکی دعوت پر حضور ﷺ کو مسجد حرام (مکہ مکرمہ، کعبۃ اللہ شریف) سے لے جایا گیا، اس سفر کی پہلی منزل مسجد اقصیٰ رہی پھر ساتوں آسمانوں کی سیر، عالم برزخ کا مشاہدہ، عالم حشر کے سماں کا نظارہ کراتے ہوئے خالق کائنات سے بلا فصل ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔اس واقعہ (معراج) کی فورابلا تردد تصدیق پر نبی اکرم ﷺ کے یار غار خلیفہ اول حضرت سیدناابو بکر رضی اللہ عنہٗ کو ’’صدیق‘‘ کا لقب عطا ہوا۔
    مسجد اقصیٰ کی عظمت

    روئے زمین پر مسجد حرام (خانہ کعبہ) کے بعد یہ دوسری قدیم ترین مسجد ہے، جہاں آج بھی الحمد للہ پنجوقتہ نماز با جماعت کے علاوہ جمعہ، عیدین اور تراویح، تہجد، اعتکاف اور درس و تدریس کا اہتمام ہے۔اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے، فلسطین کی پاک سر زمین انبیاء کرام کامسکن رہاہے،اسی وجہ سے اسے سرزمین انبیاء بھی کہا جاتاہے۔ اس کے چپہ چپہ پر انبیاء کرام علیھم السلام کے نشانات موجود ہیں، گزشتہ قوموں کے آثار یہاں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں، اس خطہ کے کھنڈرات، یہاں کی اجڑی ہوئی بستیاں، وادیاں، پہاڑ اور دریا، غرض ہر شئی اپنے دامن میں ایک مکمل تاریخ چھپائے ہوئے ہے، اس ارض مقدس (مَقْدَسْ بھی کہا گیا)کا مشہور اور قدیم شہر بیت المقدس ہے، اس کو ’’اَلْقُدْسْ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ انگریزی میں یروشلم (JERUSALEM )کہا جاتا ہے۔
    اس شہر القدس میں ایک تاریخی عمارت ہے جو صدیوں سے مختلف قوموں کا قبلہ چلی آتی ہے، یہ مسجد اقصیٰ اور حرم شریف کے ناموں سے بھی مشہور ہے، اور مسجد صخرہ (سنہری گنبد والی مسجد) بھی ہے۔یہ شہر دو حصوں میں منقسم ہے ایک پرانا شہر ہے ، دوسرا نیا شہر ہے۔ پرانے شہر کے چاروں طرف اونچی دیواروں کا احاطہ ہے اور اسی شہر میں تمام مقدس مقامات پائے جاتے ہیں۔
    گنبد صخرہ، مسجد اقصیٰ اور قیامت چرچ ہے۔
    مسجد اقصی کے اطراف1600 میٹر لمبی پتھر کی دیوار ہے، اس کے اندر9 دروازے ہیں، جو (1) باب رحمت (2) باب حطہ (3) باب فیصل (4) باب غواغہ (5) باب ناظر (6) باب حدید (7) باب قطانبین (8) باب سلسلہ (9) باب مغاربہ کے نام سے موسوم ہیں۔
    bait_ul_muqaddasگنبد صخرہ:۔

    مشہور ماہر آثار قدیمہ دان برجیم کہتا ہے کہ سادہ انداز کی نہایت متوازن عمارت بلا شبہ اسلامی تعمیرات کا قابل فخر سرمایہ ہے۔
    اس کی تعمیر پانچویں اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے 68 ھ مطابق 688 ء میں شروع کروایا جو چار سالوں بعد 72 ھ مطابق 691 ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔
    گنبد صخرہ کو (مسجد صخرہ بھی کہا جاتا ہے) حرم قدسی کی زمین سے 30 میٹر بلند ہے، یہ شہر کی سب سے بڑی نشانی ہے، یہ دو منزلہ عمارت ہے جو آٹھ کونوں والی ہے، ایک گوشہ سے دوسرے گوشہ کی دوری 20 میٹر اور اونچائی 15 میٹر ہے، نچلی منزل کے دیوار پر نہایت حسین سفید مرمر لگا ہوا ہے، جس پر فیروزے کلر کا ٹائلز بھی ہے، اور اس کے اندر سفید کلر میں سورہ ےٰسین تحریر ہے، ان آٹھ گوشوں میں رنگین شیشے کی کھڑکیاں ہیں جس کی تعداد 56 ہے۔
    اسی صخرہ کے نیچے غار انبیاء علیھم السلام ہے، جہاں پہنچنے کے لئے 11 سیڑھیاں ہیں، مسجد کے اندر دو پٹ والے چار دروازے ہیں، اس کے اندر سنگ مرمر سے بنے 16 ستون ہیں۔
    مسجد اقصیٰ کی تعمیر:۔

    aqsa_1حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہٗ 14 ھ مطابق636ء میں اپنے دور خلافت میں فتح کے بعد یہاں تشریف لائے اور حضور ﷺ کے سفر معراج کی منزل تلاش کیا اور اپنے مبارک ہاتھوں سے اس جگہ کو صاف کیا اور وہاں مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور وہاں حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہٗ کو اذان کا حکم دیا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے نماز پڑھایا ۔یہاں سادہ مستطیل لکڑی کی مسجد تعمیر ہوئی۔
    مسجد صخرہ (گنبدہ صخرہ) کی تعمیر کے بعد 72 ھ مطابق 691 ء میں اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے دوبارہ اس کی تعمیر کا آغاز کیا، اور تکمیل ان کے فرزند ولید بن عبد الملک (چھٹویں خلیفہ) کے دور میں ہوئی، جس پر ولید کے دور حکمرانی کے 7 سال کے محاصل (ٹیکس) کی خطیر رقم اس تعمیر پر صرف ہوئی، مسجد اقصی کی لمبائی 80میٹر اور چوڑائی 55 میٹر ہے۔ اور 23 مرمری اونچے ستونوں اور 49 چوکور چھوٹے ستونوں پر کھڑی یہ عمارت 705 ء میں مکمل ہوئی ہے، دروازوں پر سونے اور چاندی کی چادریں چڑھی ہوئی تھیں۔
    مسجد کے گیارہ گیٹ ہیں جن میں سے سات شمال میں ہیں۔ پانچ بار اس کی تعمیر ہوئی، موجودہ تعمیر 1035 ء کی ہے۔ یرو شلم شہر کی یہ سب سے بڑی مسجد ہے جس میں بہ یک وقت50,000 مسلمان نمازپڑھ سکتے ہیں،15/ جولائی1099 ء کو بیت المقدس پر عیسائی حملہ آوروں کا قبضہ ہوا۔
    ہزارہا مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کا قتل عام کیا گیا، اور مسجد کو گرجا میں تبدیل کر دیا گیا، اس میں لہو لعب کے کام وہاں ہوئے اور کئی حصوں کو رہائش گاہوں کے طور پر استعمال کیاگیا۔ 12 /اکٹوبر 1187 ء کو وہ عظیم الشان موقعہ آیا، جب مسجد اقصی عیسائی قابضین سے واپس مل گئی یہ عظیم کامیابی بطلِ جلیل سلطان صلاح الدین ایوبی کے شہر فتح کرنے پر حاصل ہوئی، سلطان نے عمارات اور مسجد میں تبدیلیوں کو ختم کیا پھر مسجد اقصیٰ اصلی حالت پر لائی گئی۔ مسلمانوں نے مسلسل ایک ہفتہ تک پانی اور عرق گلاب سے غسل دیا۔
    عظیم الشان نادر منبر سلطان صلاح الدین غازی نے حلب میں تیار کراکے مسجد میں نصب کیا۔ ۱۵/ اگست 1967ء بڑے کرب کا دن تھا جب ایک آسٹریلوی یہودی سیاح مائیکل روہن اسرائیلی حکومت کی ایماء پر مسجد اقصیٰ میں آگ لگا دیا، تقریباً چار گھنٹوں تک یہ آگ بھڑکتی رہی جس سے جنوب مشرقی سمت کی چھت شہید ہوگئی اور سلطان کا وہ نادر یادگار منبر جل کر راکھ ہوگیا۔سیاح روہن کو گرفتار کرکے معمولی سزا سنائی گئی۔
    مسلم قبرستان:

    مسجد صخرہ اور مسجد اقصیٰ کے قریب قبرستان ہے جس کی بڑی اہمیت ہے، مدینہ منورہ کے بعد یہاں دفن کئے جانے کو ترجیح دیاگیاہے۔ اس قبرستان کے دروازوں کو متنازعہ کہ کر بند کر دیا گیا، یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ ان ہی دروازوں سے مسیح علیہ السلام یروشلم میں داخل ہوں گے۔
    جبل زیتون:

    یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی آخرت میں یہاں دفن ہونے والوں کو بخش دے گا، اس لئے بھی یہ قبرستان ان کے لئے مقدس ہے، اسی قبرستان کے قریب یروشلم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے قیام کیا تھا۔
    عیسائیوں کی کتاب انجیل کے مطابق یہاں کوہ موریا پر حضر ابراہیم علیہ السلام اللہ کے اس امتحان میں کامیاب ہوئے تھے کہ وہ اپنے بیٹے اسحاق علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا چاہئے۔یہودیوں کے مطابق یہ ان کی عظیم عبادت گاہ ہیکل سلیمانی کا دوسرا نام ہے۔
    عیسائیوں کے یہاں مقدس مقامات بھی ہیں۔ عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق عیسی علیہ السلام کو یہاں صلیب پر چڑھایا گیا تھا۔ یہودیوں کی کتاب تلمود کے مطابق یہی وہ مقام ہے جہاں کی مٹی سے آدم علیہ السلام کی تخلیق کی گئی۔
    یہی وہ مقام ہے جہاں سے حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالی کے لئے قربانیاں پیش کی تھیں، یہاں مسیحا کی آمد پر مردوں کو بخشا جائے گا، یہاں ٹیلے کے ٹھیک نیچے مغربی دیوار ہے جس کو دیوار گریہ کہا جاتا ہے۔
    یہودیوں کا دعویٰ ہے یہ دیوار ان کی قدیم عبادت گاہ کا بچا ہوا حصہ ہے، اسی لئے ان کے لئے یہ عبادت کی سب سے مقدس جگہ ہے۔
    یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ یہاں ہیکل سلیمانی تھا جسے586قبل مسیح بابل حکومت نے تباہ کردیا تھا۔ بعض مؤرخ کہتے ہیں یہاں دوسرا عبادت خانہ تھا جسے رومی فوج نے 70 ء میں تباہ و تاراج کر دیا تھا۔
    اس دیوار سے لگ کر یہودی اپنی مقدس عبادت گاہ کی تباہی کے غم میں گریہ کرتے ہیں، اسی لئے اس دیوار کو دیوار گِریہ کہتے ہیں۔دیوار گِریہ کو عربی میں ’’اَلْمَبْکٰی‘‘ انگریزی میںWailing Wall کہتے ہیں۔
    (حرم کے وسط میں ایک چبوترہ پر ایک مخروطی گنبد قبۃ الصخرہ ہے۔ حرم کے چاروں طرف حجرے ہیں، شمالی دیوار کے حجروں میں عربی یونیورسٹی تھی، جنوبی سمت مختصر عجائب گھر ہے، جس میں مختلف نوادرات ہیں، مغربی دیوار سے ملحقہ ایک حجرے میں شریف حسین شریف مکہ اور قریب میں مشہورمجاہدآزادی ہند مولانا محمد علی جوہر مدفون ہیں، اس مغربی دیوار کے بیرونی حصہ کانام دیوار گریہ ہے، جس کا طول 60 فٹ ہے، دیوار کے نچلے حصہ میں بادشاہ ہیروڈ کے زمانہ کے بڑے بڑے پتھر نہایت خوبصورتی سے لگے ہوئے ہیں، اوپری حصہ پر رومی طرز کے بڑے بڑے پتھر نصب ہیں، دیوار پر جدید طرز کی نقش و نگاری کی گئی ہے۔ اس دیوار کی اہمیت یہودیوں کی تاریخ اور دینی نسبت سے ہے، خاص طور پر یہودی مرد و زن مذہبی تہواروں کے علاوہ ہر سبت (ہفتہ واری) دیوار گریہ کی زیارت کرتے ہیں، اور 9/ اگست کو مہروں پر تابوت سکینہ اٹھائے جلوس کی شکل میں یہاں آتے ہیں، خاص عبادت کرتے اور تکلفا روتے ہیں، دعاء مانگتے ہیں۔ حالانکہ یہ دیوار حرم کی ہے اور حرم کی تعمیر حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کے عہد میں خود مسلمانوں نے کی ہے)
    بنی اسرائیل کے جلیل القدر نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم یہود کو لے کر برسوں صحرائے سینا میں پھرتے رہے، اس زمانہ میں انہوں نے اپنی قوم کے لئے ایک خیمہ عبادت کے لئے نصب کیاتھا۔ یہ خیمہ 45فٹ لمبا،5فٹ چوڑا اور 15 فٹ اونچا تھا۔
    اس خیمہ میں قیام عبادت ’’عود سوز‘‘اور’’ تابوت سکینہ‘‘ کی جگہ تھی، تابوت سکینہ2:502354تھا اس کی بلندی2 فٹ تھی،اس میں صحائف، الواح (تختیاں) اور من و سلویٰ تھے، یہ یہود کی مقدس ترین یادگاریں تھیں۔
    حضرت جالوت کے وقت یہ خیمہ ایسا ہی رہا، اس زمانے میں یہود اس کی طرف رخ کرکے عبادت کرتے تھے، گویا یہ خیمہ ان کا قبلہ تھا۔
    48 قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام نے خیمہ عبادت کو شہر بیت المقدس میں کوہ صیہون میں ایک جگہ مستقل طور پر نصب کردیا، اس جگہ کا نام ’’بیت ایل‘‘ یعنی اللہ کا گھر پڑ گیا، یہاں اللہ تعالی حضرت داؤد علیہ السلام سے ہمکلام ہوا۔
    988قبل مسیح (طوفان نوح کے1048سال بعد) حضر ت داؤد علیہ السلام کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس خیمہ عبادت کی جگہ ’’ہیکل‘‘ کی مستقل عمارت بنوایا، ہیکل کی عمارت 20سال میں مکمل ہوئی۔تورات کے بیان کے مطابق اس کام پر ستر ہزار بار بردار ،اَسّی ہزار سنگتراش تین ہزار چھ سو ان کے نگران کار مقرر کئے گئے تھے (کتاب تواریخ )۔
    حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہیکل کا طول 60 ہاتھ، عرض 20ہاتھ اور بلندی 20 ہاتھ تھی (تورات مقدس ۲ تواریخ ۳:۲)
    حرم پہ کیا گزری:

    حضرت سلیمان علیہ السلام کے415سال بعد پانچ سو سال قبل مسیح کا واقعہ ہے بابل کے بادشاہ بخت نصر نے بیت المقدس پر حملہ کیا، شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی تبرکات کو لوٹ لیا اورکتاب مقدس کو نذر آتش کردیا ہیکل کو جلا کر راکھ کا ڈھیر کردیا۔
    بخت نصر کے حملہ کے بعد موسی علیہ السلام کی یادگار داؤد علیہ السلام کی نشانی حضرت سلیمان علیہ السلام کی تعمیر کردہ عمارت صفحہ ہستی سے یکسر نابود ہوگئی۔ستر سال بعد خسرو ذو القرنین ( معائرس اعظم) شاہ ایران بابل پر فتحیاب ہوا، اس کی فتحمندی سے یہودیوں کو آزادی نصیب ہوئی، اور ہیکل کی عمارت از سر نو تعمیر ہوئی،98 سال بعد (68 1ق م) ایک بار پھر اس گھر پر تباہی چھائی۔انطاکیہ کے یونانی بادشاہ اینوٹینس نے شہر پر قبضہ کرلیا اور ہیکل کو بت کدہ میں تبدیل کردیا۔اس وقت کتاب مقدس کا واحد نسخہ بھی نذر آتش ہوگیا، اب یہودی لاوارث دین اور دنیا دونوں سے محروم ہوگئے۔
    حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے، بیت المقدس سے چار میل کے فاصلہ پر قصبہ ناصریہ میں پیدائش ہوئی۔شہر اور اطراف کے علاقہ کو اپنی تبلیغ کا مرکز بنایا، یوں یہاں دوبارہ رونق آئی، یہ خوش آئند بات بھی بہت جلد ختم ہوگئی، 70 ء میں رومی سپہ سالار طیطوس نے بیت المقدس پر ایک شدید حملہ کرکے ہیکل کو مسمار کردیا اور قتل عام کرایا، زندہ رہ جانے والوں کو جلا وطن کردیا، اور شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں ہل چلادیا، تین صدی بعد حالات بدلے۔
    312ء شہنشاہ روم قسطنطین اعظم نے عیسائی مذہب قبول کیا، اس سے بنی اسرائیل کو کچھ قوت ملی، لیکن یہ دور بھی تادیر قائم نہ رہا۔ تین سو سال بعد رومۃ الکبریٰ کی سطوت پھر پارہ پارہ ہوگئی، ارض مقدس پر شہنشاہ ایران کا قبضہ ہوگیا۔
    ساتویں صدی عیسوی میں ظہور الاسلام ہوا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کے دور خلافت 14ہجری 636ء میں جنگ کے بغیر بیت المقدس مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا۔
    ’’حرم‘‘ اسلامی دور میں:

    ہجرت کے پندرہویں سال ہیکل کی آخری تباہی کے 569 سال بعد 636 ء میں دنیا کی بے مثال فتح کے ذریعہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا، اسقف اعظم سفر ونیس (Sophronips ) نے شہر کی چابیاں خود امیر المؤمنین کو پیش کردیا۔
    اور جب نماز کا وقت آیا:

    حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے نماز ادا کرنے کے لئے جگہ دریافت کیا، پادریوں نے ہیکل کی اجڑی ہوئی جگہ کا نشان بتایا، جہاں کھنڈر کے سوا کچھ نہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہاں نماز ادا کی، اسی جگہ حرم کے دیڑھ ہزار فٹ لمبے اور ایک ہزار فٹ چوڑے احاطہ کا سنگ بنیاد رکھی، اس کے اندر زیتون اور سرو کے درخت لگائے، ایک حصہ پر چھت ڈالی گئی، یہ جگہ نماز کے لئے مخصوص ہوگئی، یہ مسجد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہلائی، ساڑھے تیرہ سو سال سے مسجد عمر، حرم اور اس کی تمام متعلقہ عمارات مسلمانوں کے قبضے میں چلی آ رہی ہیں۔
    جس زمانہ میں فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ اور اقتدار قائم ہوا تھا، اس وقت یہودیوں نے اس دیوار پر اپنا حق ملکیت قائم کرنے کی کوشش کی۔حالانکہ یہ دیوار حرم کی ہے۔
    1929 ؁ء میں یہودیوں نے اقوام عالم (انجمن اقوام متحدہ League of Nations ) میں دیوار گریہ پر اپنی ملکیت کا دعوی کیا۔
    انجمن نے ایک کمیشن قائم کی۔ فریقین نے کمیشن کے سامنے اپنے دلائل اور شواہد پیش کئے، جس نے مکمل چھان بین کے بعد یہ فیصلہ دیا کہ قانونی اور تاریخی اعتبار سے ’’دیوار گریہ‘‘ حرم کا ایک حصہ ہے، جس پر مسلمانوں کا قبضہ ہے، اور ان کے مالکان حقوق بالکل درست ہیں۔یہودیوں کو صرف اس قدر حق ہے کہ وہ اس کی زیارت کے لئے یہاں آسکتے ہیں۔
    لیکن بعد میں برطانیہ اور مغربی اقوام کی سازش سے فلسطین میں یہ المناک صورت پیداہوئی کہ14,15 جولائی 1948 ء کی درمیانی رات ’’ریاست اسرائیل‘‘ کے قیام کا اعلان کیا گیا (انا للہ وانا الیہ راجعون) اور شہر بیت القدس کے کچھ حصہ پر بھی یہود کی اس نام نہاد حکومت کو قبضہ دیدیا گیا۔ یہ دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی سازش ہے۔اور ایسی سازشوں کا سلسلہ مسلم امت کے خلاف جاری ہے، اللہ حفاظت فرمائے۔آمین
    یہود کی تمام شرارتوں کے باوجود انتہائی رواداری کا ثبوت دیا جاتا رہا۔ حتی کہ 1948 ء کی جنگ کے دوران بھی دیوار گریہ کی زیارت کے لئے زائرین کی خاطر عارضی جنگ بندی اور مکمل حفاظتی پہرہ کے ساتھ یہود کے لئے وہاں زیارت و عبادات کے انتظامات کئے گئے۔
    غضب الٰہی میں ہزاروں سال اللہ تعالی کے قہر و غضب کا نشانہ بنتے رہے، یہودیوں کو ہر قوم ٹھوکریں مارتی رہیں، جس ملک میں رہنے گئے وہاں سے ذلیل و خوار کرکے نکالے گئے، پھر بھی مسلمان روا داری کا ثبوت دیتے رہے۔ مسلمان باوجود اقتدار کے دیوار گریہ کی زیارت کی اجازت دیتے رہے۔
    لیکن مارچ 1983 ء میں ایک دن اچانک چند سر پھرے دہشت گرد یہودیوں نے حرم شریف (بیت المقدس) پر زبر دستی قبضہ کی کوشش کیا لیکن بفضل تعالی یہود اس ناپاک سازش میں ناکام رہے، ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ حرم شریف کو نیست و نابود کرکے دیوار گریہ اور ہیکل سلیمانی کا احیا کیا جائے۔
    گنبد صخرہ اور مسجد اقصیٰ:

    فیصلہ کن جنگ کی تیاریوں کی غرض سے شاید یہ منصوبہ اپنا یا جارہا ہے، مسلمانوں کے قبلہ اول کو نشانہ بنا کر سارے عالم اسلام کو برباد کردیا جائے اس کے لئے ساری دنیا کے ذہنوں سے مسجد اقصی کے خاکے کو مٹا یا جا رہا ہے۔ غور فرمائیے گنبد صخرہ (زرد گنبد) کو ہی مسجد اقصیٰ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، اور مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد سنہرے گنبد والی مسجد کو ہی مسجد اقصی سمجھ رہی ہے۔
    یہودی سازش کا پہلو یہ ہے کہ جب صیہونی یہودی اصل مسجد اقصی کو شہید کردیں گے تو عالم اسلام کا شدید رد عمل ناقابل برداشت رہے گا، اور تمام اختلافات ختم کرکے عالم اسلام ایک ہوجائے گا، مسجد اقصیٰ کا نام لیا جائے گا اور سنہرے گنبد کو دکھایا جاتا رہے گا۔
    عیسائیت اور یہودیت کی عظیم اور ناپاک اتحادنے آخری اور فیصلہ کن جنگ کا آغاز کردیا ہے۔
    یہ حالات اس امت کے لئے کچھ نئے نہیں ہیں۔ قربِ قیامت میں پیش آنے والے حالات پہلے ہی بتائے جا چکے ہیں، اس وقت کا المیہ یہ ہے کہ اب تنہا امت کو ان حالات کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ماضی میں کٹھن حالات کا مقابلہ دینی حمیت رکھنے والوں کے ساتھ کچھ خواص (یعنی حکمراں) بھی شامل رہے تھے۔
    عالم اسلام انتشار کا شکار ہونے کے باوجود فلسطینی آج بھی نہتے مزاحمت کر رہے ہیں اور اسرائیلی درندگی کا ڈٹ کر سامنا کر رہے ہیں۔ایسی صورت حال میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم معصوم و مظلوم فلسطینیوں کی کھل کر تائید کریں اور انہیں ان کا حق دلائیں ،ساتھ ہی ساتھ انسانیت کا مظاہرے کرتے ہوئے ہمیں انہیں دواء اور غذا بھی فراہم کرنا چاہئے۔
    اللھم نبھنا عن نومۃ الغفلین، اللھم اصلح ولاۃ امورنا وامنا فی اوطاننا، اللھم دمر واھلک اعدائک واعداء الاسلام۔
    اٰمین بحرمۃ سید المرسلین ﷺ۔

  2. #2
    Baazigar's Avatar
    Baazigar is offline V.I.P
    Last Online
    14th April 2024 @ 03:03 PM
    Join Date
    16 Aug 2009
    Location
    Makkah , Saudia
    Gender
    Male
    Posts
    29,911
    Threads
    482
    Credits
    148,899
    Thanked
    970

    Default

    جزاك الله خير

  3. #3
    Join Date
    13 Jan 2018
    Age
    41
    Gender
    Male
    Posts
    60
    Threads
    6
    Credits
    210
    Thanked: 1

    Default

    good

  4. #4
    Net_master is offline Member
    Last Online
    17th March 2022 @ 07:56 PM
    Join Date
    20 Mar 2015
    Location
    Pindi bhattian
    Age
    28
    Gender
    Male
    Posts
    661
    Threads
    62
    Thanked
    18

    Default

    بہت خوب بھائی جی

    Sent from my QMobile i2 using Tapatalk

Similar Threads

  1. Replies: 17
    Last Post: 3rd December 2018, 04:34 PM
  2. سعودی عربSearch On
    By Confuse in forum General Knowledge
    Replies: 28
    Last Post: 10th November 2016, 10:07 PM
  3. سپائیڈر گروپ کا نیا نشانہ
    By imran sdk in forum Halat-e-Hazra
    Replies: 4
    Last Post: 29th January 2013, 09:25 PM

Tags for this Thread

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •