روزہ صرف کھانے اور پینے سے رک جانے کا نام نہیں ہے، بلکہ ان تمام چیزوں سے باز رہنے کا نام ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے روک دیا ہے تاکہ روزے کا حقیقی مقصد ’’تقویٰ‘‘ حاصل کیا جاسکے۔
)۱( زبان کی حفاظت: روزہ دار کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی زبان کو جھوٹ اور حرام باتوں جیسے غیبت، چغلی، گالی گلوچ اور فحش کلامی وغیرہ سے محفوظ رکھے، ورنہ ہمارے روزے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص روزہ رکھ کر بھی جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو ایسے شخص کے بھوکا اور پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ‘‘۔ )بخاری:6057(
یہاں تک کہ اگر کوئی اپنی بد زبانی یا بدکلامی سے بھی ہمیں اس کے لئے مجبور کرے تو حدیث رسولﷺ ہے: ’’جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو نہ دل لگی کی باتیں کرے اور نہ شور و غل کرے یہاں تک کی اگر کوئی اس کو گالی گلوچ دے یا اس سے لڑائی جھگڑا کرے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں‘‘۔ )بخاری:1904(
)۲( رمضان المبارک میں خصوصیت کے ساتھ دل و دماغ میں اللہ کی محبت اور اس کی خشیت کو بسایا جائے۔ کیونکہ جسم کا یہی حصہ ہے جس کی درستگی پر ہی پورا جسم درست اور صحیح و سالم رہتا ہے۔ فرمان نبوی ﷺ ہے: خبر دار بے شک جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہوجائے تو سارا جسم صحیح ہوجاتا ہے اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے، خبر دار وہ ٹکڑا ’’دل‘‘ ہے‘‘۔ )بخاری: 52(
)۳( روزہ دار اپنی نگاہوں کا بھی بھر پور خیال رکھے۔ ہر وہ چیز جس کو شریعت نے حرام کر دیا اس کی طرف ہر گز نگاہ نہ اٹھائے چاہے وہ بے حیائی یا عریانیت کی شکل میں ہو یا گندی فلموں، ڈراموں اور سیریل کی شکل میں۔ فرمان الٰہی ہے: ’’اے نبی! آپ مومنوں سے کہہ دیں کی وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے۔ )سورۃ النور:30(
)۴( روزہ دار کے لئے ضروری ہے کہ وہ گانے باجے، چغلی، غیبت اور بیہودہ باتوں کے سننے سے اپنے کان کی حفاظت کرے۔ اس کے بجائے وہ کلامِ الٰہی سن کر دل و دماغ کو معطر رکھے۔ ’’یقیناًکان، آنکھ اور دل، ان میں سے ہر ایک کے بارے میں سوال کیا جانے والا ہے‘‘۔ )اسراء:36(
)۵( روزہ دار اپنے ہاتھ کو بھی حرام چیز لینے، پکڑنے اور چھونے سے بچائے رکھے۔ ایسے ہی لوگوں پر ظلم وزیادتی کرنے اور مار دھاڑ سے بھی اپنے دامن کو محفوظ رکھے کیونکہ یہ سراسر ناجائز اور حرام ہے اور روزے کی حالت میں اس کی قباحت مزید بڑھ جائے گی۔ ’’کامل مومن وہی ہے جس کے ہاتھ اور اس کی زبان سے دوسرے مسلمان بھائی محفوظ رہیں‘‘۔ )بخاری:10(
)۶( زبان کو ہمیشہ اللہ کی یاد اور اس کے ذکر سے تر رکھا جائے کیونکہ یہ ’’اللہ کے نزدیک پاکیزہ اور افضل ترین عمل ہے یہاں تک کہ اس میں سونے اور چاندی بھی خرچ کرنے سے زیادہ فائدہ ہے‘‘۔)ترمذی:3377(
)۷( کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کی جائے۔ جسے اس کی تلارت میں مہارت حاصل ہو وہ بھی اور جو اٹک اٹک کو پڑھتے ہیں وہ بھی کوشش کرتے رہیں حدیث نبوی ﷺ ہے: ’’جو شخص قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے اور اس میں ماہر بھی ہے وہ )قیامت کے دن( بزرگ اور نیکوکار فرشتوں کے ساتھ ہوگا۔ لیکن جو اس کی تلاوت تو کرتا ہے پر اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اس کیلئے دو گنا اجر ہے‘‘۔ )بخاری:4937(
لیکن اس ماہ مبارک میں کچھ مساجد میں تلاوت قرآن کے نام پر مذاق کیا جاتا ہے کچھ لوگ دس منٹ میں ایک پارہ پڑھتے ہیں تو کچھ لوگ پندرہ منٹ میں اور کچھ لوگ تو ایک ہی رات میں پورا قرآن ختم کردیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں نہ تو حرکات و سکنات کی رعایت اور نہ ہی تلفظ کی صحیح ادائیگی ممکن ہے۔ جس سے آیتوں کا معنی و مفہوم کچھ کا کچھ ہوجائے گا لہذا ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔
فرمان الٰہی ہے : ’’ قرآن کو ٹہر ٹہر کر پڑھا کرو
Bookmarks