تحفۂ رمضان …برکتوں کاخزانہ
حضرت ابو ہریرہؓ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:دین برابر غالب رہے گا جب تک کہ لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے اس لئے کہ یہود اور نصاریٰ ( افطار میں) دیر کرتے ہیں۔( ابو دائود)
شوال کے چھ روزوں کی فضیلت
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بلاشبہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد ماہ شوال سے چھ روزے رکھ لئے اور ہر سال ایساہی کرتا رہا تو یہ اس کے لئے ایسا ہوگا جیسے پوری عمر روزے رکھے۔( مسلم)
حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جس شخص نے عید الفطر کے بعد چھ روزے رکھ لئے تو یہ اس کے لئے پورے سال کے روزے ہوں گے۔ جو شخص ایک نیکی( کا کام) کرتا ہے( اللہ تعالیٰ اس کو اس کے بدلے میں) دس نیکیوں کا اجروثواب عطا فرماتے ہیں ( ابن ماجہ)
تیس روزے رمضان کے اور چھ روزے شوال کے کل ۳۶ روزے ہوئے، ایک روزہ پر دس روزوں کا ثواب اللہ تعالیٰ عطا فرماتے ہیں تو اس حساب سے ۳۶ روزوں کے ۳۶۰ روزے ہوں گے اور سال میں اتنے ہی دن ہوتے ہیں۔ لہٰذا پورا سال روزے رکھنے کا ثواب ملے گا۔
اللہ کے راستے میں روزہ رکھنے کی فضیلت
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جس شخص نے اللہ کے راستے میں ایک دن کا روزہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو ستر سال کی مسافت کے بقدر دوزخ کی آگ سے دور فرمادیں گے۔( بخاری ومسلم)
امام بخاریؒ نے اس حدیث کو کتاب الجہاد میں ذکر کیا ہے اور امام مسلمؒ نے کتاب الصوم میں، لیکن ترجمۃ الباب دونوں کا ایک ہی ہے یعنی فضل الصوم فی سبیل اللہ، لفظ فی سبیل اللہ سے مراد عرف عام کی وجہ سے جہاد لیا گیا یعنی جو شخص جہاد کی مشغولیت ہوتے ہوئے روزہ بھی رکھ لے ( بشرطیکہ اعمال جہاد میں ضعف پیدا نہ ہوجائے) تو اس کے روزہ رکھنے کی یہ فضیلت ہے جو حدیث بالا میں ہے، اس میں بیک وقت دوعبادتیں جمع ہوجاتی ہیں جہاد بھی اور روزہ بھی، بعض حضرات نے فی سبیل اللہ سے طاعت اللہ مراد لیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے روزہ رکھے اگرچہ جہاد میں مشغول نہ ہو، لفظ فی سبیل اللہ کے عموم سے یہ بھی بعید نہیں ہے۔( دیکھو فتح الباری ج ۶ ص ۴۸)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا:جس شخص نے اللہ کے راستے میں ایک دن کا روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے سوسال کی مسافت ( کے بقدر) دور فرما دیں گے۔( نسائی )
حضرت عقبہ بن عامرؒ کی روایت جو نسائی شریف میں ہے اس میں لفظ فی سبیل اللہ وارد ہوا ہے۔ اس کے بارے میں بھی یہی تفصیل سمجھ لینی چاہئے۔سوسال اور سترسال کثرت کے لئے ہے لہٰذا اس میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
روزے میں کن باتوں سے بچنا لازم ہے
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص (روزے کی حالت میں) جھوٹی بات اور جھوٹے عمل کو نہ چھوڑے( یعنی غیر شرعی کاموں سے نہ بچے) تو اللہ تعالیٰ کو( اس بات کی) کوئی حاجت نہیں کہ وہ شخص اپنے کھانے پینے کو چھوڑ دے۔( بخاری)۔
روزہ افطار کرانے کی فضیلت
حضرت زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص کسی روزہ دار کو افطار کرائے تو روزہ دار کے ثواب سے کمی کئے بغیر افطار کرانے والے کو اسی قدر اجر ملے گا جتنا اجر روز دار کو ملے گا۔( ابن ماجہ، ترمذی، نسائی)
واضح رہے کہ روزہ افطار کرانے سے روزہ کا ثواب مل جائے گالیکن اس سے فرض روزہ ساقط نہ ہوگا کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ میں نے روزہ افطار کرادیا اب خود روزہ کیوں رکھے ، ثواب ملنا اور چیز ہے اور فرض ادا ہونا دوسری بات ہے۔
روزہ دار کے پاس کھایاجائے تواس کی کیا فضیلت ہے؟
حضرت اُم عماریہ انصاریہ رضی اللہ عنہا جو کعب کی بیٹی ہیں وہ فرماتی ہیں کہ ایک بار بلاشبہ نبی کریمﷺ میرے پاس تشریف لائے میں نے کھانا پیش کیا آپﷺنے فرمایا:تو ( بھی) کھا ،میں عرض کیا کہ میں روزے سے ہوں پس رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ روزہ دارپر فرشتے رحمت کی دعا کرتے ہیں جب اس کے پاس کھایا جائے۔( ترمذی، ابن ماجہ)۔
حضرت بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک دن حضرت بلالؓ کو صبح کے کھانے کی دعوت دی۔حضرت بلالؓ نے عرض کیا کہ میں روزے سے ہوں، اس پر رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا کہ ہم اپنا رزق کھارہے ہیں اور بلالؓ کا رزق جنت میں باقی ہے۔پھر ارشاد فرمایا:اے بلالؓ کیا تمہیں معلوم ہے بے شک روزہ دار کی ہڈیاں تسبیح کرتی ہیں اور اس کے لئے فرشتے استغفار کرتے ہیں جب تک کہ اس کے پاس کھایا جائے۔
Bookmarks