ساغر صدیقی صاحب اپنے دل کو سمجھانے کے لئے اکثر یہ غزل پڑھا کرتے تھے جس وقت انکا انتقال ہوا وو لاہور میں مقیم تھے انکو میانی صاحب قبرستان میں سپردے خاک ہیں ،،،مجھے انکی قبر پر جانے کا کافی دفع شرف حاصل ہوا وہاں جمرات کو محفل ہوتی ہے جہاں سب ذوق پسند لوگ اکھٹے ہوتے ہیں ..
اے دل بے قرار ، چپ ہو جا
جا چکی ہے بہار ، چپ ہو جا
اب نہ آئیں گے روٹھنے والے
دیدہ اشکبار ، چپ ہو جا
جا چکا کاروان لالہ و گل
اڑ رہا ہے غبار چپ ہو جا
چھوٹ جاتی ہے پھول سے خوشبو
روٹھ جاتے ہیں یار ، چپ ہو جا
ہم فقیروں کا اس زمانے میں
کون ہے غمگسار ، چپ ہو جا
حادثوں کی نہ آنکھ لگ جائے
دیدہ اشکبار ، چپ ہو جا
گیت کی ضرب سے بھی اے ساغر
ٹوٹ جاتے ہیں تار چپ ہو جا
ساغر صدیقی