کیا آپ کو یاد ہے کہ کس مسلمان حکمران نے آخری بار ایسا کام کب کیا تھا جسے اچھا قرار دیا جاسکے…؟
وہ آخری حکمران کون سا تھا جس نے اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کو اپنی دنیاوی مصالح پر ترجیح دی تھی…؟
ایسا آخری بار کب ہوا تھا کہ کسی مسلمان حکمران نے کفار کی غلامی کی بجائے اللہ تعالیٰ کی عبدیت کا ثبوت اپنے عمل سے پیش کیا تھا…؟
آپ کو یاد ہو کہ کسی مسلمان حکمران نے کوئی ایسا کام کیا ہو جس سے کفار کے دل جلے ہوں اور اہلِ ایمان کو خوشی ملی ہو…؟
ارے صاحب!
ابھی چند دن پہلے ہی تو ایسا ہوا ہے… لیکن اکثر لوگوں کے نوٹس میں آئے بغیر گزر گیا کیونکہ میڈیا ایسی خبر کو کیونکر اجاگر کرنے لگا جو اس کے فرض منصبی کے خلاف بلکہ شدید خلاف ہو۔
اب آپ سوچ رہے ہوںگے کہ شاید میں چنیوٹ میں معدنیات کے ذخیرے پر کھڑے ہوکر ’’کشکول‘‘ توڑنے کے اعلان کی بات کررہا ہوں تو آپ بالکل غلط سوچ رہے ہیں۔
کشکول توڑنا ہمارے ہاں سرکاری فیشن ہے۔ ہندوستان میں ہندو حکمران جس طرح ناریل توڑتے ہیں ہمارے ہاں بالکل اسی طرح ہر نیا حکمران کشکول توڑتا ہے،آئی ایم ایف سے آزادی کا اعلان کرتا ہے، قوم کو قرضوں سے نجات کی نوید سناتا ہے، معاشی خود مختاری حاصل کرنا اپنا اولین مقصد بتاتا ہے اور پھر چند سال بعد قوم کو پہلے سے بڑا کشکول تھماکر قرضوں کا مزید بوجھ لاد کر اور معیشت کو مزید غلامی میں دھکیل کر چلتا بنتا ہے۔
پھر آپ کے خیال میں میرا اشارہ لوہے کے اس موصل نما ڈنڈے کی طرف ہوگا جو وزیر اعظم صاحب نے لہرا کر دکھایا شاید اس سے کفار کے دل جلے اور ڈرے ہوںگے تو ایسا بھی ہرگز نہیں۔ کفار کی تو باچھیں کھل گئی ہوںگی کہ پاکستان میں لوٹ کا ایک اور مال منظر عام پر آیا۔ اب ان کی کمپنیوں کے مقامی ایجنٹ متحرک ہوں گے ، ٹھیکوں کی بندر بانٹ ہوگی، کمیشن کی بارش برسے گی، کرپشن کا ایک اور بازار کھلے گا اور عالمی سرمایہ دار کمپنیوں کو ننگا نہانے کے لیے ایک حمام اور کھلا کھانے کے لیے ایک اور دسترخوان مہیا ہوگا۔ ’’لوہا‘‘طاقت کا وہ خزانہ ہے جو ازروئے نص قرآنی ’’نازل‘‘ کیا۔ بڑی سخت پکڑ اور مارنے کی صلاحیت کے ساتھ اُتارا گیا تاکہ دین اسلام کے غلبے اور کفار کی طاقت کو توڑنے کے لیے خرچ ہو۔ اگر اس مقصد کو سامنے رکھا جائے تو ’’لوہے‘‘ کے عظیم الشان ذخیرے کا مسلمانوں کے ہاتھ آنا کفار کے لیے واقعی شدید پریشانی کا باعث ہوتا لیکن کفار کو علم ہے کہ یہ لوہا سورۃ ’’الحدید‘‘ پڑھنے والے مسلمانوں کے ہاتھ نہیں آیا ’’اتفاق‘‘ باہمی کے ساتھ اس کے پل،پٹڑیاں، میٹرو ٹرمینل اور سریا بنانے والوں کے ہاتھ آیا ہے، اس لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں۔
تو پھر ایسا کون سا کام کس حکمران نے کردیا ہے؟
جی ہاں! یہ کام کیا ہے سعودی عرب کے نئے بادشاہ ملک سلمان نے۔ لیکن چونکہ میڈیا کو پسند نہیں آیا اس لیے نہ بڑی خبر بنی اور نہ کوئی کالم لکھے گئے۔ یوں مسلمان خوشی کی اس خبر سے بے خبر رہے اور شفائے قلب کے اس حسین منظر کی دید سے محروم…
آپ کو یاد ہوگا کہ اباما پچھلے دنوں ہندوستان کے دورے پر آیا ہوا تھا، مودی اس کی خوشی میں ہر گھنٹے جوڑا بدل رہا تھا، جن جھپے ڈالے جارہے تھے، بے تکلفی کے ایسے ایسے مناظر تھے کہ نہ پوچھئے۔ یوں اباما اسی خوشی سے سرشار اور ہندوستان میں ملنے والے پروٹوکول پر نازاں اپنا دورہ ایک دن مختصر کرکے سعودی عرب چلا گیا تاکہ پرانے بادشاہ کی تعزیت کرے اور نئے بادشاہ کے پروٹوکول سے حسِّ غلامی کا اندازہ بھی لگالے کہ آگے کیسی نبھنے والی ہے۔ امریکی صدر کا طیارہ جس وقت ریاض کے ائیر بیس پر اترا ،سعودی بادشاہ اس کے استقبال کے لیے ائیر پورٹ پر مع لشکر شہزاد گان موجود تھے۔ وہ امریکی صدر کی طرف بڑھے، بڑے اعزاز کے ساتھ مصافحہ کیا ہی تھا کہ اذان عصر بلند ہوگئی۔ انہوں نے امریکی صدر کو نہ تو کوئی لفظ کہا اور نہ ہی سرخ قالین پر اسے اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی، سیدھا ریورس گیئر لگایا اور خاموشی سے مسجد کی طرف روانہ ہوگئے۔ بادشاہ کے اس عمل کی تقلید چونکہ باقی پروٹوکول عملے پر بھی لازم تھی، اس لیے تمام شہزاد گان، افسران اور نمائندگان بھی ساتھ ہی مڑ گئے۔ یوں ابامہ صاحب اپنے لتے ہوئے منہ، بجھی ہوئی مشعل اور سہمے ہوئے سفیر کے ساتھ وہیں کے وہیں کھڑے رہ گئے۔ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کے صدر یعنی دنیا کے طاقتور ترین شخص کا منہ ایسے ہورہا ہے جیسے کسی نے تھپڑوں کی بارش سے لال کردیا ہو۔ اس کے چہرے پر کئی سوالات نقش ہیں جن کا جواب دینے والا کوئی نہیں۔ وہ جھنجھلائے ہوئے انداز میں خالی ائیربیس کو دیکھ رہا ہے اور اپنے سفیر سے سخت لہجے میں باز پرس کررہا ہے۔ اس کا بس نہیں چل رہا کہ اردگرد لگے سارے کیمرے توڑ دے جو اس کی بے بسی کی تصویر پوری دنیا کو دکھا رہے ہیں۔ ابامہ اور مشعل کا منہ پہلے بھی کوئی خاص دیکھنے لائق نہیں مگر اس وقت تو…
اور شاہ سلمان عالی شان بزبان حال یہ کہتے ہوئے بڑی شانِ بے نیازی سے وہاں سے جاچکے ہیں ؎
اے دوست نماز عصر وقت پہ پڑھنا
بہتر ہے ملاقاتِ ابامہ و مشعل سے
میں نے یہ منظر دیکھا یقین کیجئے میں اپنی آنکھوں پر قابو نہ رکھ سکا۔ دورِ حاضر کا ایک مسلمان حکمران نماز جیسے شان والے فریضے کی اہمیت پوری دنیا کے سب سے بڑے دشمن اسلام کو دکھا دے گا ،کبھی تصور بھی نہ تھا۔ ہمارے حکمرانوں کا اسلام کے اس شان والے فریضے سے کتنا تعلق رہ گیا ہے؟ محض عید کی نماز وہ بھی منہ طرف کیمرے کے۔ اسمبلی کے اجلاس ہوں یا کابینہ کے، اپنے ملک کے دورے ہوں یا بیرون ملک کے، جو چیز سب سے آسانی کے ساتھ نعوذ باللہ ترک کردی جاتی ہے وہ نماز ہے۔ مگر سلام ہو شاہ سلمان کو کہ نماز کے لیے جاتے ہوئے نہ تو رسماً کوئی الفاظ معذرت کے کہے اور نہ کسی پروٹوکول کا خیال کیا بس یوں گئے کہ گویا اعلان کررہے تھے کہ نماز سب سے اہم، سب سے ضروری اور سب سے مقدم کام ہے۔
اب میڈیا کو پریشانی شروع ہوئی کہ ایک مسلمان حکمران خصوصاً خادم الحرمین الشریفین کے اس عمل کی اگر تشہیر ہوگئی تو مسلمانوں کے لیے نماز کی پرزور ترغیب اور دعوت بن جائے گی۔ اس لیے اس خبر کو زیادہ کوریج نہ دی گئی۔ ساتھ یہ بحثیں چھیڑ دی گئیں کہ ان کایہ عمل دراصل مذہبی طبقے کے دبائو کی وجہ سے تھا۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ سعودیہ میں جس طرح کی بادشاہت رائج ہے، وہاں بادشاہ پر کسی کے دبائو کا تصور بھی محال ہے چہ جائیکہ کہ کوئی دبائو ایسا شدید ہو جو بادشاہ کو اپنی مرضی کے خلاف پروٹوکول کے دنیاوی اور شاہی تقاضے ترک کرنے پر مجبور کرسکے۔
سبحان اللہ!
شاہ سلمان کا مسجد کی طرف بڑھتا ہوا ایک ایک قدم ابامہ کے دل پر جیسی ضربیں لگارہا تھا ان کی تکلیف اس کے چہرے سے بالکل عیاں تھی اور چھپائے نہ چھپتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مومن کے ان قدموں کو باعث اجر قرار دیا ہے جن کے اُٹھنے سے کفار کے دل جلیں۔ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر ۱۲۰میں یہ مضمون واضح الفاظ میں آیا ہے،اللہ تعالیٰ نے کفار کا دل جلانے اور ان پر شدت و سختی کا رویہ رکھنے والی جماعت کی تعریف فرمائی۔ سورۃ الفتح کی آخری آیت اور سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ۵۴میں یہ مضمون بیان فرمایا گیا ہے۔ خادم الحرمین الشریفین نے نمازِ عصر کے لیے جو قدم اٹھائے اور کفار کا دل جلایا انہیں تکلیف پہنچائی یقیناً اس پر بڑا اجر پایا ہوگا۔ میں نے کئی اللہ والوں کو ان کی اس نماز پر رشک کرتے ہوئے دیکھا ہے، پھر معاملہ اسی پر ختم نہیں ہوا۔ دو دن بعد سعودی شاہی خاندان کے چند ایک وہ شہزادے جو امریکی نمک خواری اور وفا داری کے باب میں بڑی شہرت کے مالک ہیں از قبیل ’’بندر‘‘ و ’’ترکی‘‘ وغیرہ اپنے ان عہدوں سے معزول کر دئیے گئے جن پر وہ عرصہ دراز سے متمکن تھے۔ یہ عہدے بھی ایسے تھے جن کا تعلق عالمی معاملات سے تھا اور ان عہدوں پر ان شہزادوں کا تمکن امریکی خواہشات کے عین مطابق تھا ، میڈیا نے ان تبدیلیوں کو بھی معمول کی کارروائی قرار دے کر ہلکا کرنے کی کوشش کی جبکہ سعودی ذرائع کے مطابق یہ معمول کی کارروائی ہرگز نہیں بلکہ ان شہزادوں نے بادشاہ کے اس عمل پر ناگواری کا اظہار کیا تھا کہ وہ امریکی صدر کو یوں اکیلا چھوڑ کر کیوں گئے؟اس سے سعودیہ کی جگ ہنسائی ہوگی اور عالمی طاقتوں سے تعلقات متاثر ہوں گے اور انہوں نے حق نمک ادا کرتے ہوئے کہہ دیا کہ ’’چاچا جی!تسی چنگی نئیں کیتی‘‘ …نماز تو بندہ بعد میں بھی پڑھ لیتا ہے۔
چاچا جی کو ان کی بات پسند نہیں آئی اور پھر ان کے ساتھ جو ہوا ان کے خیال میں تو یقینا’’چنگا ‘‘نہیں ہوا۔
بہرحال خادم الحرمین الشریفین کا یہ اقدام سرزمین حجاز سے تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں مزید ایسے اقدامات کی توفیق بخشے جن سے اہلِ ایمان کے قلوب کو ٹھنڈک پہنچے اور کفار کے دل جلیں۔ اللہ تعالیٰ دیگر مسلمان حکمرانوں کو بھی توفیق نصیب فرمائے کہ وہ خود کو کفار کی بجائے اللہ تعالیٰ کا غلام اور بندہ سمجھیں اور اس کی بندگی کو ترجیح دیں۔ دورِ حاضر کا کوئی ایک مسلمان حکمران بھی ایسا نہیں جس کی تعریف کی جاسکے اور اس کے اعمال کی تحسین کی جاسکے۔ ایسے میں کوئی حکمران اگر ایسا کام کرے تو اس کا حق ہے کہ اس کی تحسین کی جائے۔ خادم الحرمین الشریفین کا یہ عمل کئی پہلوئوں سے لائقِ تحسین ہے، اسے عام کیا جانا چاہیے اور دعاء بھی کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ مرکزِ اسلام کے حکمرانوں کو ایسا بنادے کہ وہ پوری اُمت مسلمہ کی دینی قیادت سنبھال لیں اور عالم کفر کے سامنے سینہ سپرہوجائیں۔
٭…٭…٭
Bookmarks