محبت کی طبیعت میں
یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے
کہ جتنی پرانی جتنی بھی مضبوط ہو جائے
اسے تائیدِ تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے
یقیں کی آخری حد تک دِلوں میں لہلہلاتی ہو
نگاہوں سے ٹپکتی ہو، لہو میں جگمگاتی ہو
ہزاروں طرح کے دلکش حسیں ہالے بناتی ہو
اسے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے
محبت مانگتی ہے یوں گواہی اپنے ہونے کی
کہ جیسے طفلِ سادہ شام کواک بیج بوئے
اور شب میں با رہا اُٹھے
زمیں کو کھود کر دیکھے
کہ پودا اب کہاں تک ہے
محبت کی طبیعت میں عجب تکرار کی خُو ہے
کہ یہ اقرار کے لفظوںکو سننے سے نہیں تھکتی
بچھڑنے کی گھڑی ہویا کوئی مِلنے کی ساعت ہو
اسے بس ایک ہی دُھن ہے
کہو مجھ سے محبت ہے،کہو مجھ سے محبت ہے
تمہیں مجھ سے محبت ہے
سمندر سے کہیں گہری ستاروں سے سوا روشن
پہاڑوں کی طرح قائم ہواوں کی طرح دائم
زمیں سے آسماں تک جس قدر اچھے مناظر ہیں
محبت کے کنائے ہیں وفا کے استعارے ہیں
ہمارے ہیں
ہمارے واسطے یہ چاندنی راتیں سنورتی ہیں
سنہرا دن نکلتا ہے
محبت جس طرف جائے زمانہ ساتھ چلتا ہے
کچھ ایسی بے سکونی ہے وفا کی سرزمینوں میں
کہ جواہلِ محبت کو سدا بے چین رکھتی ہے
کہ جیسے پھول میں خوشبو کہ جیسے ہاتھ میں تارہ
کہ جیسے شام کا دہارہ
محبت کرنے والوں کی سحر راتوں میں رہتی ہے
گماں کے شاخچوں پہ آشیاں بناتا ہے اُلفت کا
یہ عین وِصال میں بھی ہِجرکے خدشوں میں رہتی ہے
محبت کے مسافر زندگی جب کاٹ چکتے ہیں
تھکن کی کرچیاں چنتے وفا کی اجرکیں پہنے
سمے کی رہگذر کی آخری سرحد پہ رکتے ہیں
تو کوئی ڈو بتی سانسوں کی ڈوری تھام کر دھیرے سے کہتا ہے
یہ سچ ہے نا، یہ سچ ہے نا
ہماری زندگی اک دوسرے کے نام لکھی تھی
دھندلکا سا جو آنکھوں کے سے قریب و دور پھیلا ہوا
اسی کا نام چاہت ہے
تمہیں مجھ سے محبت تھی
تمہیں مجھ سے محبت ہے
Bookmarks