سب اتفاق کریں گے کہ آئزک نیوٹن دنیا کے عظیم ترین ماہر طبعیات تھے۔ کم سے کم سکول میں ہمیں جو پڑھایا جاتا ہے اس کے مطابق وہ جدید بصری علوم کے بانی ضرور تھے۔ سکول کی کتابیں عدسوں اور منشور کے ساتھ ان کے مشہور تجربات، ان کی روشنی اور انعکاس اور انعطاف کے عمل پر تحقیق کی تفصیل سے بھری پڑی ہیں۔
لیکن حقیقت شاید کچھ مختلف ہے، میں یہ باور کروانا ضروری سمجھتا ہوں کہ بصری علوم کے میدان میں نیوٹن سے پہلے ایک اور بہت بڑی ہستی سات سو سال پہلے ہو گزری ہے۔ مغرب میں اکثر لوگوں نے ان کا نام کبھی نہیں سنا۔

بلا شبہہ ایک اور عظیم ماہر طبیعات جن کا رتبہ نیوٹن کے برابر ہے سن نو سو پینسٹھ عیسوی میں اس علاقے میں پیدا ہوئے جو اب عراق کا حصہ ہے۔ ان کا نام الحسن ابن الحیثم تھا۔

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ قدیم یونان اور یورپ میں نشاط ثانیہ کے درمیان میں کوئی بڑی سائنسی پیش رفت نہیں ہوئی۔ لیکن صرف اس لیے کہ مغربی یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا میں دوسری جگہوں پر بھی کوئی کام نہیں ہو رہا تھا۔

نویں اور تیرھویں صدی کے درمیان کا عرصہ عرب سائنسدانوں کا سنہرا دور تھا۔ ریاضی، فلکیات، طب، طبعیات، کیمیا اور فلسفے کے میدان میں بہت کام کیا گیا۔ اس دور کے بڑے ناموں میں ابن الحیثم کا نام شاید سب سے روشن ہے۔

آنکھ کیسے دیکھتی ہے
ابن الحیثم وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے درست طور پر بیان کیا کہ ہم چیزیں کیسے دیکھ پاتے ہیں۔ انہوں نے افلاطون اور کئی دوسرے ماہرین کے اس خیال کو غلط ثابت کیا کہ آنکھ سے روشنی نکل کر اشیا پر پڑتی ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ روشنی ہماری آنکھ میں داخل ہوتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی بات کو ریاضی کی مدد سے ثابت کیا جو پہلے کسی نے کبھی نہیں کیا تھا


ابن الحیثم کو جدید سائنسی ضابطۂ عمل کا بانی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ طریقۂ کار ہے جس کو سائنسدان معلومات کے حصول، معلومات کی درستگی، الگ الگ معلومات کو ملا کر نتیجہ اخذ کرنے اورمشاہدے کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہ طریقہ ہے جس سے سائنسدان اپنا کام کرتے ہیں اور یہی میرے سائنس پر اعتماد کی وجہ ہے۔
لیکن اکثر دعویٰ کیا جاتا ہے جدید سائنسی طرز عمل سترھویں صدی کے اوائل میں فرانسس بیکن اور رینے ڈیکارٹ نے متعارف کروایا تھا۔ تاہم مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ ابن الحیثم یہ منزل پہلے طے کر چکے تھے۔



پروفیسر جِم الخلیلیابن الحیثم وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے درست طور پر بیان کیا کہ ہم چیزیں کیسے دیکھ پاتے ہیں۔ انہوں نے افلاطون اور کئی دوسرے ماہرین کے اس خیال کو غلط ثابت کیا کہ آنکھ سے روشنی نکل کر اشیا پر پڑتی ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ روشنی ہماری آنکھ میں داخل ہوتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی بات ثابت کرنے کے لیے ریاضی کا سہارا لیا جو اس سے پہلے کسی نے نہیں کیا تھا۔


ابن الحیثم نے روشنی، انعکاس اور انعطاف کے عمل اور شعاؤں کے مشاہدے سے کہا کہ زمین کی فضا کی بلندی ایک سو کلومیٹر ہے۔

ابن حیثم کو بھی ہر سائنسدان کی طرح اپنی دریافتوں کو تحریر کرنے کے لیے وقت اور تنہائی کی ضرورت تھی۔ انہیں یہ موقع بدقسمتی سے ملا۔ انہیں مصر میں دریائے نیل کے سیلاب کا سد باب کرنے میں ناکامی پر سن ایک ہزار گیارہ اور ایک ہزار اکیس کے بیچ میں پکڑ لیا گیا۔ انہوں نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کی بجائے سزا سے بچنے کے لیے پاگل پن کا ڈراما کیا جس کے بعد انہیں دس سال کے لیے نظر بند کر دیا گیا۔

ابن الحیثم کو خلیفہ کی موت کے بعد رہائی ملی۔ وہ ان علاقوں میں واپس آ گئے جو اب عراق میں ہیں اور ریاضی اور طبعیات کے موضوعات پر ایک سو کے قریب مقالات تحریر کیے۔

ابن الحیثم نے سیاروں کے مدار کی وضاحت کی تھی جس کی بنیاد پر بعد میں کاپرنیکس، گیلیلیو، کیپلر اور نیوٹن جیسے یورپی سائنسدانوں نے کام کیا۔ کتنی غیر معمولی بات ہے کہ اب پتہ چل رہا ہے کہ آج کے ماہرین طبعیات پر ایک ہزار سال پہلے کے ایک عرب سائنسدان کا کتنا قرض ہے۔