السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پيارے ممبرز اميد كرتى كہ الله تعالى كے فضل وكرم سے سب ممبرز ٹھيک ٹھاک اور ايمان كى بہترين حالت ميں ہونگئے _
محترم ممبرز آپ سوچھ رہيں ہونگئے كہ وى آئى پى رينک ملتى ہى ميں غائب ہوگئ جيسا كہ آپ سب كو پتہ ہيں كہ رمضان المبارک عبادتوں كى لوٹ مار كا مہينہ ہے اسلئے ميں اپنى مصروفيت سے توڑا وقت نكال كر يہ ٹھريڈ لكھ رہى ہوں _
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ماہِ رمضان کے آخری دن تھے۔
لوگوں نے فطرانہ ادا کرنا شروع کر دیا۔
مسجد میں اناج کے ڈھیر لگ گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا یہاں بیٹھ کر پہرہ دو۔
چنانچہ میں رات کو وہاں بیٹھ گیا۔
جب ہر طرف سناٹا چھا گیا اور رات کافی بیت گئی تو میں نے اناج کے انبار کے پاس کچھ آہٹ محسوس کی، دیکھا کہ ایک شخص چادر پھیلا کر اس میں غلہ ڈال رہا ہے۔
اس کی یہ حرکت بہت بری لگی میں نے فوری کاروائی کی اور اس کو گردن سے دبوچ لیا اور کہا: میں تجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کروں گا۔
اس نے منت سماجت شروع کردی اور اپنی مجبوری پیش کی کہ میں مختاج اور اہل عیال ہوں، بہت ہی ضرورت مند ہوں اسلئے مجھے چھوڑ دیجئے۔
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اسے چھوڑ دیا۔ جب صبح ہم نماز سے فارغ ہوئے تو حضور اكرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور از خود ارشاد فرمایا: اے ابوھریرہ! اپنے رات والے قیدی کے بارے میں بتاؤ۔
میں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اس نے اپنی ضرورت اور مجبوری پیش کی تھی۔
اس لئے مجھے رحم آیا اور اسے چھوڑ دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے جھوٹ بولا ہے وہ دوبارہ آئے گا۔
اب مجھے یقین تھا کہ وہ وعدہ شکن ہے اور ضرور آئے گا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پہلے ہی بتا دیا تھا اس لئے میں اس کا انتظار کرنے لگا آدھی رات کو واقعی آگیا اور اپنا کام شروع کردیا۔
میں نے پھر اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا اور کلائی تھام کر کہا! آج تجھے بلکل نہیں چھوڑوں گا۔
کیونکہ تو جھوٹا ہے اس نے پھر اپنی خستہ حالی انتہائی غربت وافلاس کا نقشہ کچھ ایسے انداز میں کھینچا کہ دوبارہ دل پسیج گیا اور اس وعدے پر چھوڑ دیا کہ آئندہ چوری نہیں کرے گا۔
دوسرے روز صبح نماز سے فراغت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اسی طرح دریافت فرمایا اور دوبارہ بتایا۔
وہ اس دفعہ بھی جھوٹ بول گیا آج رات پھر آئے گا مجھے بڑا اچھنبا ہوا کہ یہ کس قماش کا بےضمیر ڈھیٹ چور ہے جس میں شرم وحیاہ کا مادہ نہیں دو دفعہ گرفتاری کے باوجود اس کے پختہ عزم میں کوئی فرق نہیں آیا اور عہدہ و پیمان توڑ کر پھر آنا چاہتا ہے۔
بہرحال میں نے رات کو اس کا انتظار کرنا شروع کر دیا پھر وہ شوخ چشم بےحیا بےضمير واقعی آگیا اور اس نے بلا ججھک کے اطمینان سے اناج اپنے تھیلے میں ڈالنا شروع کردیا۔
میرے غصے کی انتہا نہ رہی، پکڑ لیا اور فیصلہ کن انداز میں کہا یہ تیسری بار ہے اب تجھے ہرگز نہیں چھوڑوں گا۔
تو بڑا پنج ذات ہے، کمینہ اور پیشہ ور قسم کا چور معلوم ہوتا ہے، ضرورت مند نہیں لالچی ہے، تیرے جیسے پر ترس کھانا، کچھ دینا ، رحم کرکے چھوڑنا اچھا نہیں اب تو ميں آپ كو ضرور ایک قیدی کی حثیت سے صبح دربار رسالت میں پیش کروں گا۔
جب اس نے دیکھا کہ میری گرفت مظبوط ہے اور ارادہ پختہ ہے نیز رہائی کی کوئی صورت نہیں تو مصالحانہ رویئے میں بولا۔
اے ابوھریرہ! تم مجھے چھوڑ دو میں تجھے ایک تحفہ دیتا ہوں کہ تم خوش ہوجاؤ گے وہ تحفہ یہ ہے کہ رات سوتے وقت ایک مرتبہ آیتہ الکرسی پڑھ لیا کرو۔
فائدہ یہ ہوگا کہ اللہ کی طرف سے تجھ پر ایک نگہبان فرشتہ مقرر کر دیا جائےگا جو صبح سے شام تک تمہاری حفاظت کرے گا۔
اس نے یہ وظیفہ بتایا تو میں نے چھوڑ دیا صبح کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی خبر دی اے ابوھریرہ! وہ خود پکا جھوٹا ہے، لیکن اس نے وظیفہ صیح بتایا جانتے ہو تین راتوں میں تمہارے پاس کون آتا رہا ؟ فرمایا وہ شیطان تھا۔
)بحوالہ: مشکوة شریف(
Bookmarks