جب اندھیرے بڑھ جائیں تو روشنی کی کرن پھوٹتی ہے۔ ہر سیاہ رات کے بعد اجلی صبح ہوتی ہے۔ جب ظلم انتہا کو پہنچے تو اس کے خلاف آواز بلند ہوتی ہے جب جھوٹ ہر طرف پھیل جائے تو سچ بیدار ہوتا ہے۔ جب ناحق راج کرنے لگے تو حق بیدار ہو جاتا ہے‘ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر احتجاج اور حق کی آواز بلند کرنے والا وہ شخص ہے جس کی آواز پاکستان کی بستی بستی‘ قریہ قریہ گونجتی ہے۔ ظالموں کو للکارتی ہے اور بے کس کمزور انسانوں کو اتحاد‘ تنظیم اور یقین کی نوید سناتی ہے یہ آواز روشنی کی کرن‘ امید کی لہر اور انصاف کی صبح کا اعلان کرتی ہے۔ یہ سچ کی آواز حق کی آواز الطاف حسین کی ہے۔
پاکستان کے رہنما سیاستدان افسر شاہی اتنے مصروف ہیں کہ انہیں آنے والے زمانے کا احساس نہیں وہ ایسا محسوس ہوتا ہے ایک شترمرغ کی طرح اپنا سر ریت میں چھپا لیتے ہیں یا جیسے باز کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ وہ سارے صاحبان اقتدار و اختیار ان باتوں پر اپنا وقت اپنی توانائی اور اپنی صلاحیت صرف کرتے ہیں جن کی کوئی بڑی اہمیت نہیں۔
پاکستان میں ان دنوں اخبارات‘ ٹیلی ویژن‘ رہنماءوکلاءپاکستان کے چیف جسٹس جناب حمید ڈوگر کی صاحبزادی کے اضافی نمبروں کے مسئلے کو قومی معاملہ بنا رہے ہیں۔ ان کی صاحبزادی کی امتحانی کاپی دوسرے طالبعلموں کے ساتھ دوبارہ جانچی گئی جس کی وجہ سے دو سو ایک طالبعلموں کے نمبروں میں تبدیلی ہوئی‘ چیف جسٹس کی صاحبزادی فرح ڈوگر کو 9 اضافی نمبر ملے جس کی وجہ سے ان کا گریڈ سی سے بی ہوگیا اور اطلاعات یہ ہیں کہ ان کا داخلہ سپریم کورٹ کی نشست پر ایک میڈیکل کالج میں ہوگیا۔ یہ خبر ایک ممتاز صحافی نے اخبارات میں رپورٹ کی۔ پاکستان میں چونکہ ہر طرف منصفوں کا چرچا رہتا ہے اس لیے اس معاملے میں تفتیش شروع ہوئی‘ فیڈرل بورڈ کے چیئرمین نے پوری صورتحال ٹیلی ویژن پر آ کر بیان کی جسے سن کر یہ احساس ہوا کہ جناب چیف جسٹس کی طرف سے کسی سفارش‘ دباﺅ یا دھمکی کے تحت ایسا نہیں کیا گیا۔ اس معاملے پر فوراً قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی مقرر کردی گئی۔ سپریم کورٹ میں مقدمات بھی درج ہوئے کسی معاملے کی جانچ پڑتال اور شک و شبے کو دور کرنے کیلئے چھان بین کرنا کوئی بری بات نہیں لیکن اس معاملے کو لیکر پاکستان میں ایک ایسا طوفان کھڑا ہوگیا کہ لگتا تھا قوم کو صرف یہی ایک مسئلہ درپیش ہے۔ بات چونکہ چیف جسٹس کی بیٹی کی تھی اس لیے اس نے یہ شکل اختیار کی کیونکہ منصف پر اگر اقرباءپروری‘ جانب داری اور سفارش کا شبہ ہو تو یہ مناسب بات نہیں اس لیے معاملے کی جانچ پڑتال تو ہونی چاہیے لیکن اسے جو سیاسی رنگ دیا گیا وہ انصاف سے زیادہ انتقامی کارروائی معلوم ہوتی ہے کیونکہ وکلاءپہلے ہی موجودہ عدلیہ کو تسلیم نہیں کرتے اس لیے وہ زیادہ سرگرم عمل ہوگئے۔
حیرت یہ ہوئی کہ نوازشریف جیسے رہنما نے بھی اس معاملے کو سیاسی رنگ دینا شروع کردیا۔ اسی لیے ایک آواز بلند ہوئی ”اس وقت ملک نازک دور سے گزر رہا ہے‘ معاشی‘ معاشرتی‘ سماجی اور امن و سکون کی صورتحال زیادہ سنگین ہے۔ اہم رہنماﺅں کو ملک کی سلامتی کی طرف توجہ دینی چاہیے“ الطاف حسین نے اسی طرف اشارہ کیا ہے‘ وہ چاہتے ہیں نوازشریف جیسے رہنما اپنی توانائی‘ صلاحیت اور قیادت چھوٹے معاملات میں ضائع نہ کریں۔
جناب چیف جسٹس کی صاحبزادی کے معاملے کی چھان بین ہو رہی ہے اور اسے ہونا بھی چاہیے جو لوگ اس کے ذمہ دار ہیں جو تفتیش کر رہے ہیں۔ وہ جب تک کسی حتمی فیصلے پر نہ پہنچ جائیں قیاس آرائی‘ فیصلے اور مطالبے نہیں ہونے چاہئیں۔
الطاف حسین نے وہ سب کچھ یاد دلایا ہے جو اکثر لوگ بھول جاتے ہیں۔ معزول چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری پر بھی ان کے بیٹے کے لیے سفارش کا الزام ہے جس کی ابھی تک تحقیق نہیں ہوئی۔ میاں نوازشریف جب معزول چیف جسٹس کی حمایت کرتے ہیں تو ان کے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے۔
جب کوئی معاملہ کسی تفتیشی کمیشن کے پاس ہو‘ کوئی کمیٹی اس کا جائزہ لے رہی ہو‘ عدالت میں زیربحث ہو تو کسی کو رائے زنی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اس کی وجہ سے فیصلے پر اثر پڑ سکتا ہے۔ یہ بات پاکستان کے بڑے لوگوں کو معلوم ہونی چاہیے۔
پاکستان کے لیے الطاف حسین کی آواز امید کی کرن ہے۔ وہ پاکستان کے گلی کوچوں میں حق و انصاف کی حکمرانی دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ سچ کہتے ہیں‘ حق بیان کرتے ہیں‘ ہماری دعا ہے اس آواز کی توانائی‘ طاقت اور صلاحیت اس طرح قائم رہے جو ناانصافی کے ایوانوں میں ظلم و جبر کے میدانوں میں‘ کھیتوں میں کھلیانوں میں اجالے پھیلاتی رہے۔
Bookmarks