فیضانِ عیدالفِطر
ميٹھے ميٹھے اِسلامی بھائیو ! اللہ کے مَحبوب ،دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رَمَضان شریف کے مُبارَک مہینہ کے مُتَعَلِّق ارشاد فرمایاہے کہ اِس مہینے کا پہلا عَشرہ رَحمت ، دوسرا مغفِرت اورتیسراعشرہ جہنَّم سے آزادی کا ہے۔
(صحیح ابن خُزَیمہ ج۳ص۱۹۱حدیث۱۸۸۷)
معلوم ہوا کہ رَمَضانُ الْمُبَارَک رَحمت ومغفِرت اور جہنَّم سے آزادی کا مہینہ ہے ،لہٰذا اِس بَرَکتوں والے مہینے کے فوراً بعد ہمیں عِیدِ سَعید کی خوشی مَنانے کا موقع فَرَاہَم کیا گیا ہے اور عیدُ الْفِطْرکے روز خوشی کا اِظہار کرنا مُستحب ہے ۔لہٰذا ہمیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فَضْل ورَحمت پرضَرور اظہارِ مُسَرَّت کرنا چاہيے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل ورحمت پر خوشی کرنے کی تَرغيب تو ہمیں خوداللہ عَزَّوَجَلَّ کا سچَّا کلام بھی دے رہا ہے۔ چُنانچِہ پارہ۱۱سورہ یونس کی آیت نمبر8 5 میں ارشاد ہوتا ہے
قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوۡا
ترجَمہ کنزالایمان:تم فرماؤ اللہ (عَزَّوَجَلَّ) ہی کے فَضْل اور اُسکی رَحمت اور اِسی پر چاہئے کہ خوشی کریں۔
( پ۱۱ یونس۵۸)
ہم عید کیوں نہ منائیں؟
دیکھئے ! جب کوئی طالِبِ عِلْم امتِحان میں کامیاب ہوجاتا ہے تو وہ کس قَدَر خوش ہوتا ہے ۔
ماہِ رَمَضانُ الْمُبَارَک کی بَرَکتوں اور رَحمتوں کے توکیا کہنے !یہ تو وہ عظیمُ الشَّان مہینہ ہے ۔ جس میں بَنی نَوعِ انسان کی فَلاح وبَہبودی ، اِصلاح وتَرقّی اور نَجات اُخرَوی(اُخْ۔رَ ۔ وی)کیلئے ایک ''خُدائی قانون''یعنی قُراٰنِ مجِید نازِل ہوا ۔یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہر مُسلمان کی حَرارتِ اِیمان کا اِمتِحان لیا جاتا ہے۔پس زندَگی کا ایک بِہترین دستُور الْعَمل پاکر اور ایک مہینے کے سَخت اِمتِحان میں کامیاب ہوکر ایک مسلمان کا خوش ہونا فِطری بات ہے۔
مُعافی کا اعلان عام
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کرم بالائے کرم ہے کہ اس نے ماہِ رَمَضانُ الْمُبارَک کے فوراً ہی بعدہمیں عِیدُالْفِطْر کی نِعمتِ عُظمٰی سے سَرفَراز فرمایا ۔ اس عیدِ سَعیدکی بے حد فضیلت ہے۔ چُنانچِہ حضرتِ سَیِّدُنا عبدُا للہ ابنِ عبَّاس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی ایک رِوایَت میں یہ بھی ہے : جب عیدُ الْفِطْر کی مبارَک رات تشریف لاتی ہے تو اِسے ''لَیْلَۃُ الْجَائِزۃ'' یعنی ''اِنعام کی رات''کے نام سے پُکاراجاتاہے۔جب عید کی صُبح ہوتی ہے تواللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے مَعصُوم فِرشتوں کو تمام شَہروں میں بھیجتا ہے، چُنانچِہ وہ فِرشتے زمین پر تشریف لاکر سب گَلیوں اور راہوں کے سِروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اِس طرح نِدا دیتے ہیں،''اے اُمَّتِ مُحمّد!صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اُس ربِّ کریم عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ کی طرف چلو!جَو بَہُت ہی زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑا گُناہ مُعاف فرمانے والا ہے''۔پھراللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے بندوں سے یُوں مُخاطِب ہوتا ہے: ''اے میرے بندو!مانگو!کیا مانگتے ہو؟میری عِزّت وجَلال کی قَسم !آج کے روزاِس (نَماز عِیدکے)اِجتِماع میں اپنی آخِرت کے بارے میں جو کچھ سُوال کرو گے وہ پُورا کروں گا اور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگوگے اُس میں تمہاری بَھلائی کی طرف نَظَر فرماؤں گا(یعنی اِس مُعاملہ میں وہ کروں گا جس میں تمہاری بِہتر ی ہو)میری عِزّت کی قَسم ! جب تک تم میرا لِحاظ رکھو گے میں بھی تمہاری خطاؤں پر پَردہ پوشی فرماتا رہوں گا۔میری عِزّت وجلال کی قَسم !میں تمہیں حَد سے بڑھنے والوں (یعنی مُجرِموں )کے ساتھ رُسوا نہ کروں گا۔بس اپنے گھروں کی طرف مَغْفِرت یا فتہ لَوٹ جاؤ۔تم نے مجھے راضی کردیا اورمیں بھی تم سے راضی ہوگیا۔
(اَلتَّرْغِيْب وَالتَّرھِيْب ج۲ص۶۰حدیث۲۳)
سُبْحٰنَ اللہ! (عَزَّوَجَلَّ )،سُبْحٰنَ اللہ! (عَزَّوَجَلَّ) پیارے اسلامی بھائیو!خُدائے رحمٰن ہم گُنہگاروں پر کِس قَدَر مِہربان ہے۔ایک تو رَمَضانُ الْمُبارَک میں سارا مہینہ وہ ہم پر اپنی رحمتیں نازِل فرماتا ہی رہتا ہے۔پھر جُوں ہی یہ مُبارَک مہینہ ہم سے جُدا ہوتا ہے ،فُوراً ہمیں عِیدِ سعید کی خوشیاں عطافرماتا ہے ۔گُزَشتہ حدیثِ مُبارَک میں شَوَّالُ الْمکرّم کی چاندرات یعنی شبِ عِید الفِطْر کو ''لَیْلَۃُ الْجَائِزۃ '' یعنی ''اِنعام کی رات ''قراردیا گیا ہے ۔یہ رات نیک لوگو ں کو اِنعام مِلنے گو یا ''عِیدی '' دئیے جانے کی رات ہے۔اِس مُبارَک رات کی بے حد فضیلت ہے ۔ چُنانچِہ
دل زندہ رہے گا
نبیوں کے سلطان ، رحمتِ عالمیان ، سردارِ دو جہان محبوبِ رحمن عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان بَرَکت نشان ہے، جس نے عِیْدَین کی رات (یعنی شبِ عِیدُالفِطْر اور شبِ عِیدُ الْاضْحٰی)طلبِ ثواب کیلئے قِیام کیا ،اُس دن اُس کا دِل نہیں مَرے گا،جس دن (لوگوں کے)دِل مَرجائیں گے۔
(سُنَنِ ابنِ ماجہ ج۲ص۳۶۵حدیث۱۷۸۲)
جنّت واجب ہوجاتی ہے
ایک اور مَقام پر حضرتِ سَیِّدُنا مُعَاذ بِن جَبَل رضی اللہ تعالیٰ عنہُ سے مَروی ہے ،فرماتے ہیں ، جو پانچ راتوں میں شبِ بیداری کرے اُس کے لئے جَنَّت واجِب ہوجاتی ہے۔ذِی الْحجّہ شریف کی آٹھویں ۸،نویں ۹اور دسويں رات (اِس طرح تین ۳ راتیں تویہ ہو ئیں )اور چوتھی عِیدُالفِطْر کی رات ،پانچویں شَعْبانُ الْمُعظَّم کی پندرہویں رات (یعنی شبِ بَرَاءَ ت ) ۔
(اَلتَّرْغِيْب وَالتَّرْھِيْب ج۲ص۹۸حدیث۲)
سَیِّدُنا عبدُا للہ ابنِ عبَّاس رضی اللہ تعالیٰ عنہماکی رِوایَت کردہ طویل حدیثِ پاک (جو آگے گُزری)میں یہ مضمون بھی ہے کہ عِید کے روز مَعْصُوم فِرِشتے ا للہ عَزَّوَجَلَّ کی عطاؤں اور بخشِشوں کا اِعلان کرتے ہیں۔اور ا للہ عَزَّوَجَلَّ خود بھی بے حد کرم فرماتا ہے اور اپنی عنایت و رَحمت سے نَما زِ عید کیلئے جمع ہونے والے مسلمانوں کی مَغْفِرت فرمادیتا ہے ۔مَزيد بَرْآں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے یہ بھی فرمایا جاتا ہے کہ جِسے جو کچھ دُنیا وآخِرت کی خیر مانگنی ہے وہ سُوال کرے،اُس پر ضَرور کرم کیاجائے گا ۔ کاش !ایسے مانگنے کے مواقعِ پر ہمیں مانگناآجائے ،کیونکہ عُمُوماً لوگ اِن مَوقَعوں پر صِرف دُنیا کی خیر ،روزی میں بَرَکت اور نہ جانے کیاکیا دنیا کے مُعامَلات پر سُوال کرتے ہیں۔دنیا کی خیر کے ساتھ ساتھ آخِرت کی خیر زیادہ مانگنی چاہئے۔دِین پر اِسْتِقَامت اور خاتِمہ بِا لْخَیروہ بھی مدینے میں وہ بھی سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ، فیض گنجینہ ، صاحبِ مُعطَّر پسینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قدموں میں وہ بھی بصورت شہادت اور مدفن جنَّت البقیع میں اور بِلا حساب و کتاب مغفرت اورجنت الفردوس میں سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کاپڑوس بھی مانگ لینا چاہئے۔
کوئی سائل مایوس نہیں جاتا
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!غورتو فرمائیے ! عِید ُالفِطْر کا دِن کس قَدَر اَہَمّ تَرین دن ہے۔ اِس دِن ا للہُ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کی رَحمت نِہایَت ہی جوش پرہوتی ہے، دربارِ خُداوندی عَزَّوَجَلَّسے کوئی سائِل مایُوس نہیں لوٹا یا جاتا ۔ ایک طرف اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نیک بندے ا للہ عَزَّوَجَلَّ کی بے پایاں رَحمتوں او ر بخشِشوں پر خوشياں مَنارہے ہوتے ہیں۔ تو دُوسری طرف مُؤمِنوں پر ا للہ عَزَّوَجَلَّ کی اِتنی کرم نوازیاں دیکھ کر اِنسان کا بَد ترین دشمن شيطان آگ بگولہ ہوجاتا ہے ۔ چُنانچِہ
شیطان کی بدحواسی
حضرتِ سَیِّدُناوَہْب بِنْ مُنَبِّہ(مُ۔نَبْ۔بِہْ) رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، جب بھی عِیْد آتی ہے، شیطان چِلّا چِلّا کر روتا ہے ۔اِس کی بَدحواسی دیکھ کر تمام شیاطین اُس کے گِرد جمع ہوکر پُوچھتے ہیں ،اے آقا!آپ کیوں غَضَبناک اور اُداس ہیں؟ وہ کہتا ہے ، ہائے افسوس ! ا للہ عَزَّوَجَلَّ نے آج کے دِن اُمّتِ مُحمّدصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بَخش دیا ہے۔لہٰذا تم اِنہیں لذَّات اور نَفْسانی خواہِشات میں مشغُول کردو۔
(مُکَاشَفَۃُ الْقُلُوب ص۳۰۸)
کیا شیطان کامیاب ہے
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے ؟ شیطان پر عِیْد کا دِن کس قَدَر گِراں گزرتا ہے ۔
لہٰذا وہ اپنی ذُرِّیَّت کو حُکْم صادِر کردیتا ہے کہ تم مسلمانوں کو لَذّاتِ نَفْسانی میں مشغُول کردو۔آہ!فی زمانہ شیطان اپنے اِس وار میں کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے ۔ آہ !صد آہ!! عید کی آمد پر ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ عِبادات وحَسَنات کی کثرت وبُہتات کرکے ا للہ ربِّ کائنات عَزَّوَجَلَّ کا زيادہ سے زیادہ شُکْر ادا کیاجاتا ۔مگر افسوس !صَدکروڑ افسوس!اب مسلمان عِیدِ سَعیدکا حقیقی مقصد ہی بُھلا بیٹھے ہیں۔ وَا حَسرتا! اب تو عِیْد مَنانے کا یہ انداز ہوگیا ہے کہ بے ہُودہ قِسم کے الٹے سیدھے ڈیزائن والے بلکہ مَعَاذ اللہ عَزَّوَجَلَّ جانداروں تک کی تصاویر والے بَھڑ کیلے کپڑے پہنے جاتے ہیں (بہار شریعت میں ہے کہ جانور یاا نسان کی تصویر والا لباس پہن کر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی (یعنی قریب بہ حرام ) ہے ایسے کپڑے تبدیل کرکے یا اوپر دوسرا کوئی لباس پہن کر نماز دوبارہ ادا کرنا واجب ہے۔ نماز کے علاوہ بھی جاندار کی تصویر والا کپڑا پہننا ناجائز ہے ۔
(خلاصہ از بہارِ شریعت حصہ ۳ ص ۱۴۱ تا ۱۴۲)
رَقص و سَرود (سَ،رَو۔د)کی محفلیں گرم کی جاتی ہیں،بے ڈھنگے مَیلوں ، گندے کھیلوں ، ناچ گانوں اور فِلموں ڈِراموں کا اِہتمام کیاجاتا ہے۔اور جِی کھول کر وَقْت و دولت دونوں کو خِلافِ سُنَّت و شریعت اَفعال میں برباد کیاجاتا ہے۔ افسوس !صَد ہزار افسوس! اب اِس مُبارَک دن کو کس قَدَر غَلَط کاموں میں گزاراجانے لگا ہے ۔ میرے اسلامی بھائیو!اِن خلافِ شَرْع باتوں کے سَبَب ہوسکتا ہے کہ یہ عیدِ سعید ناشُکروں کے لئے ''یومِ وَعید'' بن جائے ۔ لِلّٰہ!اپنے حال پر رحم کیجئے ! فیشن پرستی اور فُضُول خرچی سے باز آجائیے ! دیکھئے تو سَہی ! ا للہ عَزَّوَجَلَّ نے فُضُول خَرچوں کو قُراٰنِ پاک ميں شیطانوں کا بھائی قراردیا ہے۔چُنانچِہ پارہ ۱۵ سورہئ بنی اسرائیل کی آیت نمبر26 اور27 میں ارشاد ہوتا ہے
وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیۡرًا ﴿۲۶﴾ اِنَّ الْمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیۡنِ ؕ وَکَانَ الشَّیۡطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوۡرًا
ترجَمہ کنزالایمان:اور فُضُول نہ اُڑابے شک اُڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شيطان اپنے ربّ کا بڑاناشُکرا ہے۔
( پ۱۵بنی اسرائیل۶ ۲،۲۷)
انسان و حیوان کا فرق
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے ؟ فُضُول خرچی کرنے کی کس قَدَر مذَمَّت قُراٰنِ پاک میں وارِد ہوئی ہے۔یاد رکھئے !اِن فُضُول خرچیوں سے ہرگزہر گز ا للہ عَزَّوَجَلَّ خوش نہیں ہوتا۔یاد رکھئے!اِنسان اور حَیوان ميں جو مابِہِ الْاِمْتِیاز (یعنی فرق کرنے والی چیز)ہے وہ عَقل وتدبیر، دُوربِینی اور دُور اَنْدیشی ہے۔عُمُوماً حیوان کو'' کَل ''کی فِکر نہیں ہوتی ،اور عام طور پر اُس کی کوئی حَرَکت کِسی حکمتِ عملی کے ماتحت نہیں ہوتی۔ بَرخِلاف انسانوں کے،کہ اُنہیں نہ صِرف کل ہی کی بلکہ مسلمان کو تو اِس دُنیوی زندَگی کے بعد والی اُخروی (اُخ۔رَ،وی)زندَگی کی بھی فِکْر ہوتی ہے۔پَس سمجھدار انسان وُہی ہے بلکہ حقیقۃًانسان ہی وہ ہے جو ''کَل'' یعنی آخِرت کی بھی فِکْر کرے اور حکمتِ عملی سے کام لے مگر افسوس ! آجکل حکمتِ عملی کا تو نام تک نہیں رہا، اِس فانی زندگی کو غنیمت جانتے ہوئے آخِرت کیلئے کوئی اِنتظام نہیں کیا جاتا۔ آہ!اب تولوگ اپنی زندگی کا مقصد مال کمانا، خوب ڈٹ کر کھانا اورپھر خُوب غفلت کی نیند سَوجانا ہی سمجھتے ہیں ۔
یا کہوں اَحباب کیا کارِ نُمایاں کرگئے
بی اے کِیا، نوکر ہوئے ،پِنشن مِلی پِھر مَرگئے
زندگی کا مقصد کیا ہے ؟
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!زندگی کا مقصد صِرف بڑی بڑی ڈِگریاں حاصِل کرنا، کھانا پینا ، اور مَزے اُڑانا نہیں ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آخِر ہمیں زندگی کیوں مَرحَمت فرمائی؟ آئيے ! قُراٰنِ پاک کی خدمت میں عَرض کریں کہ اے اللہ عَزَّوَجَلَّکی سچّی کِتاب !تُو ہی ہماری رَہنُمائی فرما کہ ہمارے جِینے اور مَرنے کا مقصد کیا ہے؟قُراٰنِ عظيم سے جواب مِل رہا ہے کہ ا للہ عَزَّوَجَلَّ کا فرمانِ عالیشان ہے
خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا
ترجَمہ کنزالایمان:مَوت اور زندگی پَیدا کی کہ تمہاری جانچ ہو (دُنیاوی زندگی میں )تم میں کس کا کام زیادہ اچھّا ہے۔
( پ۲۹ الملک ۲)
یعنی اِس موت وحَیات کو اِس لئے تَخلیق (پیدا)کیا گیا تاکہ آزمایا جائے کہ کون زیادہ مُطِیع (فرماں بردار ) اور مُخلِص ہے۔
Bookmarks