وہ جن میں چمکتے تھے وفا کے موتی
یقین جانو وہ آنکھیں ہی بیوفا نکلی-!!!
وہ جن میں چمکتے تھے وفا کے موتی
یقین جانو وہ آنکھیں ہی بیوفا نکلی-!!!
صحن غربت میں قضا دیر سے مت آیا کر
خرچ تدفین کا __ لگ جاتا ہے بیماری پر...
کس طرح سے ممکن تھا اک شاخ پر کھلتے
میں کہ ہجر کا لمحہ، تُو وصال کا موسم....
دکھ اٹھانے میں ھے کمال ھمیں...!!!
کر گیا فن یہ لا زوال ھمیں...!!!
تو چھوڑ رہا ہے تو خطا اِس میں تِری کیا
ہر شخص مِرا ساتھ نبھا بھی نہیں سکتا
ﺧﻂ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺑﺘﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ
.
.
ﻟﮑﮭﺘﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﮐﮭﻠﮯ ﺗﮭﮯ
خبر سن کر مرے مرنے کی وہ بولے رقیبوں سے
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
ﺧﻂ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺑﺘﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ
.
.
ﻟﮑﮭﺘﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﮐﮭﻠﮯ ﺗﮭﮯ
لوگ توڑنے سے پہلے سوچتے ہی نہیں کہ انسان کے پاس ایک ہی تو دل ہوتا ہے___
باقی دنوں کا حساب رہنے دو
یہ بتاؤ عید پہ تو ملنے آؤگی نہ
ذرا بھی پاؤں میں لرزش نہیں ھے
ہمیں کانٹوں پہ چلنا آ گیا نا ؟
وہ اپنی ایک زات میں کل کائنات تھا _!
دنیا کہ ھر فریب سے ملوا دیا مجھے.
Bookmarks