Page 1 of 2 12 LastLast
Results 1 to 12 of 14

Thread: Islamic Story Heart Touching Stories

  1. #1
    Rashid puran's Avatar
    Rashid puran is offline Senior Member+
    Last Online
    20th July 2016 @ 12:59 PM
    Join Date
    09 May 2015
    Location
    Puran Shangla
    Age
    26
    Gender
    Male
    Posts
    74
    Threads
    9
    Credits
    5
    Thanked
    6

    Default Islamic Story Heart Touching Stories


  2. #2
    Khawar Aamir's Avatar
    Khawar Aamir is offline Advance Member
    Last Online
    17th January 2023 @ 07:20 PM
    Join Date
    29 Oct 2014
    Location
    Jhang
    Age
    27
    Gender
    Male
    Posts
    2,231
    Threads
    46
    Credits
    3,230
    Thanked
    134

    Default


  3. #3
    Zahoor_Elahi is offline Senior Member
    Last Online
    21st July 2021 @ 12:22 AM
    Join Date
    09 Feb 2015
    Location
    ITD.COM
    Age
    30
    Gender
    Male
    Posts
    3,035
    Threads
    98
    Credits
    5,311
    Thanked
    151

    Default

    jazakallah

  4. #4
    Shellback's Avatar
    Shellback is offline Senior Member+
    Last Online
    30th November 2015 @ 12:48 PM
    Join Date
    21 Sep 2015
    Location
    Lahore
    Age
    38
    Gender
    Male
    Posts
    95
    Threads
    5
    Credits
    598
    Thanked
    4

    Default

    Allah-hmara-haami-o-naasir-ho

  5. #5
    Join Date
    06 Jan 2014
    Location
    Saudi , Makkah
    Age
    31
    Gender
    Male
    Posts
    3,178
    Threads
    304
    Credits
    2,092
    Thanked
    443

    Default

    subhanAllah..
    jo Allah ka hojata hai.
    Allah uska ho jata hai.
    phir Allah pak bager Asbaab k wo kar dikhata ha.
    jo Aqlain heraan ho jati hain....

  6. #6
    Rashid puran's Avatar
    Rashid puran is offline Senior Member+
    Last Online
    20th July 2016 @ 12:59 PM
    Join Date
    09 May 2015
    Location
    Puran Shangla
    Age
    26
    Gender
    Male
    Posts
    74
    Threads
    9
    Credits
    5
    Thanked
    6

    Default


  7. #7
    Join Date
    10 Aug 2009
    Location
    ***************
    Gender
    Female
    Posts
    544
    Threads
    20
    Thanked
    26

    Default

    subhanAllah..

  8. #8
    Rashid puran's Avatar
    Rashid puran is offline Senior Member+
    Last Online
    20th July 2016 @ 12:59 PM
    Join Date
    09 May 2015
    Location
    Puran Shangla
    Age
    26
    Gender
    Male
    Posts
    74
    Threads
    9
    Credits
    5
    Thanked
    6

    Default


  9. #9
    Rashid puran's Avatar
    Rashid puran is offline Senior Member+
    Last Online
    20th July 2016 @ 12:59 PM
    Join Date
    09 May 2015
    Location
    Puran Shangla
    Age
    26
    Gender
    Male
    Posts
    74
    Threads
    9
    Credits
    5
    Thanked
    6

    Default


  10. #10
    Rashid puran's Avatar
    Rashid puran is offline Senior Member+
    Last Online
    20th July 2016 @ 12:59 PM
    Join Date
    09 May 2015
    Location
    Puran Shangla
    Age
    26
    Gender
    Male
    Posts
    74
    Threads
    9
    Credits
    5
    Thanked
    6

    Default


  11. #11
    Rashid puran's Avatar
    Rashid puran is offline Senior Member+
    Last Online
    20th July 2016 @ 12:59 PM
    Join Date
    09 May 2015
    Location
    Puran Shangla
    Age
    26
    Gender
    Male
    Posts
    74
    Threads
    9
    Credits
    5
    Thanked
    6

    Default

    رونے والی آنکھیں
    (syed imaad ul deen, samandri)


    حضرت سید ناعبدالرحمن بن یزید بن جابر علیہ رحمۃاللہ القادرفرماتے ہیں :'' ایک مرتبہ میں نے حضرت سیدنایزید بن مرثد علیہ رحمۃاللہ الاحدسے پوچھا:'' میں نے ہمیشہ آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)کوروتے ہوئے ہی دیکھاہے کبھی آ پ کی آنکھیں آنسوؤں سے خالی نہیں ہوتیں؟آخرآ پ(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) اتناکیوں روتے ہیں ؟''توانہوں نے مجھ سے فرمایا:''آپ یہ سوال کیوں کررہے ہیں؟'' میں نے کہا:''اس امید پر کہ شاید مجھے اس سوال کی وجہ سے کچھ فائدہ حاصل ہواورمجھے کوئی نصیحت آمیزجواب ملے ۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' میرے رونے کی وجہ تم پر ظاہر ہے۔'' میں نے پھر پوچھا:'' آپ(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) صرف تنہائی میں ہی ایسی گریہ وزاری کرتے ہیں یا اس کے علاوہ بھی روتے ہیں ؟'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ سن کر فرمایا:'' خدا عزوجل کی قسم! مجھ پر یہ حالت اکثرطاری رہتی ہے۔ کبھی میرے سامنے کھانا لایا جاتا ہے تومجھ پرخوفِ خدا عزوجل سے رقت طاری ہوجاتی ہے اور میں کھانے سے بے پرواہ ہوجاتاہوں۔ کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہوتاہوں تواچانک مجھ پریہ کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور میں بے اختیار روناشروع کردیتاہوں، مجھے دیکھ کرمیرے بچے اورتمام گھروالے بھی روناشروع کردیتے ہیں حالانکہ انہیں معلوم بھی نہیں ہوتاکہ وہ کیوں رورہے ہیں بس میرے رونے کی وجہ سے وہ بھی میرے ساتھ رونے لگتے ہیں۔

    میری زوجہ اکثریہ شکایت کرتی ہے کہ ہائے افسوس! شاید ہی مسلمانوں کی عورتو ں میں کوئی ایسی عورت ہوگی جس کے شوہر کوآ پ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) جیساغم لاحق ہو، میں تو تمہاری محبت وپیار کوترس گئی ہوں، عور توں کوجوخوشی اورسرور اپنے شوہرکی خوشی سے ملتاہے میں اس سے محروم ہوں، آپ (ر حمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) پر کبھی ایسی خوشی طاری نہیں ہوتی جسے دیکھ کر میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔''
    میں نے پوچھا:'' اے میرے بھائی!آخر وہ کون سی چیز ہے جس نے آپ( رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) کواتناغمزدہ اورخوف وحزن کامجسمہ بنا دیا ہے ؟''توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرمانے لگے:''اے میرے بھائی! اگر میری نافرمانیوں کے صلہ میں مجھے گرم پانی میں غوطے لگانے کافیصلہ سنادیاجاتاتوپھربھی یہ اتنی سخت سزا ہے کہ اس کی وجہ سے روناچاہے لیکن معاملہ تو اس سے کہیں زیادہ سخت ہے کیونکہ اللہ عزوجل کی نافرمانیوں کی وجہ سے مجرموں کو جہنم کی آ گ میں قید کیاجائے گا اور وہ آ گ ہماری برداشت سے باہر ہے، پھر میں اس آگ کے خوف سے کیوں نہ روؤں۔ (اللہ کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
    ؎دردِ سر ہو یا بخار آئے تڑپ جاتا ہوں
    میں جہنم کی سزا کیسے سہوں گا یا رب(عزوجل)
    عُیُوْنُ الْحِکَایَات (مترجم) (حصہ اوّل) مؤلف امام ابوالفرج عبدالرحمن بن علی الجوزی علیہ رحمۃ اللہ القوی المتوفیٰ ۵۹۷ ھـ

  12. #12
    Rashid puran's Avatar
    Rashid puran is offline Senior Member+
    Last Online
    20th July 2016 @ 12:59 PM
    Join Date
    09 May 2015
    Location
    Puran Shangla
    Age
    26
    Gender
    Male
    Posts
    74
    Threads
    9
    Credits
    5
    Thanked
    6

    Default

    اسلامی سپہ سالار( حضرت خالد بن ولید) کا تاریخی فیصلہ

    رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے نے ہر طرف اپنے سائے پھیلائے ہوئے تھے۔ ایسے میں ایک شخص قلعے کی دیوار سے رسا لٹکائے نیچے اتر رہا تھا۔ وہ جس قدر اپنی منزل کے قریب آرہا تھا، اسی قدر طرح طرح کے اندیشے اس کے دل کی دھڑکنوں کو تیز کر رہے تھے۔

    “کہیں ایسا نہ ہو کہ قلعے والے مجھے دیکھ لیں اور تیر مار کر راستے ہی میں میرا قصہ تمام کر دیں۔۔۔۔ کہیں نیچے اترتے ہی مسلمانوں کی تلواریں میرے خون سے رنگین نہ ہو جائیں۔”

    یہ تھے وہ خدشات جو اس کے دل و دماغ میں شدت سے گونج رہے تھے۔ پھرجوں ہی اس نے زمین پر قدم رکھا مجاہدین نے اسے گرفتار کر لیا۔ اس کایہ خیال بالکل غلط ثابت ہوا کہ مسلمان مجاہد رات کے اندھیرے میں قلعے سے بے خبر ہوں گے۔
    اترنے والے نے اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے کہا کہ اسے لشکر کے سپہ سالار کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ وہ سپہ سالار کون تھے؟ وہ اللہ کی تلوار حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے۔


    خالد بن ولید رضی اللہ عنہ مجاہدین کی مٹھی بھر فوج کے ساتھ ملک شام کے دارالسلطنت دمشق کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔ دن پر دن گزرتے جا رہے تھے مگر قلعہ تھا کہ کسی طور فتح ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے بھی فیصلہ کر لیا تھا کہ مجاہدین کو ایک دو دن کے آرام کا وقفہ دے کر وہ یا تو قلعے کے دروازے توڑنے کی کوشش کریں گے یا اس کی مضبوط دیواروں میں سرنگ لگانے کی ترکیب آزمائیں گے۔ انھیں یہ بھی یقین تھا کہ اللہ کی غیبی مدد ضرور آئے گی۔
    اب یہ غیبی مدد آ پہنچی تھی!

    دمشق کے قلعے سے نیچے اترنے والے نوجوان نے مسلمان ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ اس کی یہ خواہش فوراً پوری کر دی گئی۔ اس نے دعوی کیا کہ وہ مجاہدین کو قلعے کے اندر پہنچا سکتا ہے۔ اس کے مطابق کل رات رومیوں پر حملے کا بہترین موقع ہے۔ ان کے مذہبی رہنما “بطریق” کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے اور پورا دمشق جشن منا رہا ہے۔ اس جشن میں فوج سمیت سب شراب پئیں گے اور یہی ان پر فیصلہ کن وار کرنے کا موقع ہوگا۔

    اگلی رات خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایک بہت بڑا خطرہ مول لے رہے تھے۔ انھوں نے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ اور دوسرے ماتحت سالاروں کو اپنے اس منصوبے سے آگاہ کیا تھااور نہ ہی وہ کوئی زیادہ فوج اپنے ہمراہ لے جا رہے تھے۔ وہ یہ کام انتہائی رازداری سے کرنا چاہتے تھے۔ صرف ایک سو مجاہد جنگجوؤں کو قلعے پر شب خون مارنے کے لیے منتخب کیا گیا۔

    سب سے پہلے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ، پھرمسلمان ہونے والا عیسائی نوجوان یونس بن مرقس، پھر قعقاع اور آخر میں سو مجاہد کمندوں کے ذریعے سے مشرقی دروازے کی طرف سے قلعے کے اندر داخل ہوگئے۔ انتہائی خطرے کا مرحلہ قریب آ چکا تھا۔

    جوں ہی وہ دیوار سے اترے انھیں رومی فوجیوں کی باتیں سنائی دیں۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے کہنے پر یونس بن مرقس نے رومی زبان میں بارعب لہجے کے ساتھ ان رومی فوجیوں کو کہا:

    “آگے چلو!” رومی پہرے دار سمجھے کہ یہ حکم ان کے کسی افسر نے دیا ہے۔ وہ دروازے پر اپنی اپنی جگہ چھوڑ کر آگے بڑھتے گئے۔

    اتنے میں مجاہد تیار ہو چکے تھے۔ انھوں نے پہرے داروں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیا اور آناً فاناً ان کا قصہ تمام کر دیا۔ راہ میں آنے والے ہر رومی پہرے دار سے یہی سلوک کیا گیا اور آخر کار بہت سی زنجیروں اور بھاری بھرکم تالوں سے بند دروازہ کھول دیا گیا۔

    خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا اپنا دستہ اس کے لیے پہلے سے تیار کھڑا تھا۔ وہ قلعے میں داخل ہوگیا اور رومی فوج کے دستوں کے ساتھ جنگ شروع ہوگئی۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بہادری کے بے مثال جوہر دکھاتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔ رومی دستے بھی اسلامی سپاہیوں کے آگے ڈٹ گئے مگر خالد رضی اللہ عنہ کا دستہ ان پر آہستہ آہستہ غالب آتا جا رہا تھا۔ غروب آفتاب تک مسلمان اس جنگ کو تقریباً جیت چکے تھے۔ مسلمان سپاہی اب آگے بڑھے تو حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ اب ان کے سامنے کوئی رومی سپاہی نہیں آ رہا تھا۔ انھوں نے اسے دشمن کی چال سمجھا اور پھونک پھونک کر قدم بڑھانے لگے۔ جب وہ مرکزی گرجے کے پاس پہنچے تو وہاں سے اس کہانی کے ایک نئے موڑ کا آغاز ہوا۔

    خالد رضی اللہ عنہ اپنے دستے کے ساتھ گرجے کی طرف آ نکلے تو سامنے ایک حیرت انگیز منظر تھا۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نہایت پر امن انداز میں سامنے سے آرہے تھے۔ ان سب کی تلواریں نیام میں تھیں اور رومی سپہ سالار “توما” اور اس کے خاص آدمی ان کے ساتھ تھے۔

    “اے پروردگار! یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟” خالد رضی اللہ عنہ کے خیالات اس وقت یقینا” یہی ہوں گے۔ دونوں نامور سپہ سالار خاصی دیر تک ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھتے رہے۔ آخر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے سکوت توڑا اور بولے:
    “ابوسلیمان! (خالد رضی اللہ عنہ کی کنیت) کیا تم اللہ کا شکر ادا نہیں کرو گے کہ اس کی ذات نے یہ شہر ہمیں بغیر لڑے عنایت کر دیا ہے؟”

    خالد رضی اللہ عنہ نے کہا: “کس صلح کی بات کرتے ہیں، ابو عبیدہ؟ کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ میں نے لڑ کر یہ شہر حاصل کیا ہے۔ اللہ کی قسم! میں خود شہر میں داخل ہوا ہوں۔ میں نے تلوار چلائی ہے اور میرے ساتھیوں پر تلوار چلی ہے، وہ شہید ہوئے ہیں۔ میں رومیوں کو یہ حق نہیں دے سکتا کہ وہ خیر و عافیت سے شہر سے چلے جائیں۔ ان کا خزانہ اور مال ہمارا مال غنیمت ہے۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ یہ صلح کس نے اور کیوں کی ہے؟”

    ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: “ابو سلیمان! میں اور میرے دستے پرامن طریقے سے قلعے میں داخل ہوئے ہیں۔ اگر آپ میرے فیصلے کو رد کرنا چاہیں تو کر دیں لیکن میں دشمن سے معافی کا وعدہ کر چکا ہوں۔ اگر یہ وعدہ پورا نہ ہوا تو رومی کہیں گے کہ مسلمان اپنے وعدوں کی پاس داری نہیں کرتے۔ اس کی زد اسلام ہی پر پڑے گی۔”

    خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ننگی تلوار سے ابھی بھی خون ٹپک رہا تھا۔ ان کے ساتھیوں کا بھی یہی حال تھا۔ ان میں کئی زخمی بھی تھے۔ انھوں نے پورا دن لڑ کر فتح حاصل کی تھی۔ مگر یہ صلح کیوں اور کیسے؟ اس بات کا کچھ بھی علم نہیں تھا۔
    پھر خالد رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی ساری سازش سمجھ گئے۔ وہ یہ کہ خالد رضی اللہ عنہ کے حملے کی خبر رومیوں کو بر وقت ہوگئی اور وہ یہ جان گئے کہ ان کی مدہوش اور شراب کے نشے میں دھت فوج مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔ اسی لیے انھوں نے فوراً لشکر کے دوسرے سالار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر لی۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ چونکہ خالد رضی اللہ عنہ کے شب خون سے ناواقف تھے اور قلعے کے طویل محاصرے سے پریشان بھی تھے، اس لیے انھوں نے صلح کے معاہدے پر دستخط کر دیے اور رومیوں کو امان دے دی۔
    یہ احساس ہوتے ہی چند مجاہد توما اور اس کے ساتھیو ں کو قتل کرنے کے لیے لپکے۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہوتے، ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ لپک کر ان کے بیچ میں آ گئے اور فرمایا:

    “خبردار! میں ان کی جان بخشی کا عہد کر چکا ہوں۔”

    خالد رضی اللہ عنہ اور ان کے جاں باز ساتھی غصے سے بپھر رہے تھے۔ وہ کسی طور رومیوں کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ انھوں نے اس قلعے کو نہایت خطرناک مراحل سے گزر کر حاصل کیا تھا۔ اب وہ اپنی کامیابی کو یوں سازش کی نظر ہوتا دیکھ کر صبر نہیں کر پا رہے تھے۔

    اب ایک طرف عہد کی پاس داری کا معاملہ تھا اور دوسری طرف مجاہدوں کی قربانیاں! ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اگرچہ لشکر کے سالار اعلی نہیں تھے، ان کے عہد کی پابندی خالد رضی اللہ عنہ کے لیے ضروری نہیں تھی مگر وہ مسلمان تو تھے اور وہ بھی نہایت ممتاز!

    آخر جوش ہارگیا، غصے کو ناکامی ہوئی، عہد کی پاس داری ہوئی اور شیطان کو شکست!
    خالد رضی اللہ عنہ نے بطور سالار اعلی تاریخی فیصلہ کیا۔۔۔۔ یہ فیصلہ تھا عہد کی پاس داری کا! وہ نہیں چاہتے تھے کہ اسلامی تاریخ پر عہد شکنی کا داغ لگے۔
    پھر جب رومی اپنا مال و دولت، اپنی جانیں، سب کچھ بچا کے لے جا رہے تھے، تو خالد رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی دل پر پتھر رکھ کر انھیں جاتا دیکھ رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہی رومی اسی اسلحے اور اسی مال کے ساتھ کسی دوسری جگہ ان کے ساتھ جنگ لڑیں گے۔ لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ انھوں نے اسلام کے سچے اور با اصول مجاہدین ہونے کا ان مٹ ثبوت دے دیاہے، عہد کی پاس داری کی اسلامی روایت کو برقرار رکھا ہے۔ اور یہ ان کی نہایت عظیم کامیابی تھی۔۔۔۔ کبھی نہ بھولنے والی کامیابی!

Page 1 of 2 12 LastLast

Similar Threads

  1. Heart touching Islamic Speeches
    By SAEED MHD in forum English IT Zone
    Replies: 5
    Last Post: 30th September 2015, 07:19 PM
  2. (True Islamic Stories) Story No 16, 17
    By Afridi in forum Islamic History aur Waqiat
    Replies: 4
    Last Post: 21st March 2011, 12:31 AM
  3. (True Islamic Stories) Story No 21
    By Afridi in forum Islamic History aur Waqiat
    Replies: 5
    Last Post: 20th March 2011, 11:53 PM
  4. (True Islamic Stories) Story No 20
    By Afridi in forum Islamic History aur Waqiat
    Replies: 6
    Last Post: 20th March 2011, 11:25 PM
  5. (True Islamic Stories) Story No 14
    By Afridi in forum Islam
    Replies: 4
    Last Post: 1st February 2009, 09:01 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •