یتیم کے معنٰی وہ بچہ ہے جو ماں باپ کے سائے سے محروم ہوجائے عام طور پر انسان دنیاوی آسائش کی خاطر ، حلال کام سے منہ موڑ کر ، دوسروں کی دولت کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ اس طرح دوسروں کے جائز حقوق پامال کر کے ، اپنی دولت میں اضافہ کرتا ہے اس صورت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر یتیموں کی پرورش اور تربیت کی ذمہ داری آپ کے سپرد کی جائے تو اس صورت میں تمہارا فرض ہےکہ یتیموں کے مال کو ایک امانت سمجھو اور اس کا کسی بھی صورت میں ناجائز استعمال نہ کرو۔
جو بھی آدمی اپنی حلال کی کمائی میں یتیموں کے مال کا ایک ذرہ بھی شامل کرتا ہے تو اپنی ساری زندگی کی کمائی حرام کرلیتا ہے، تم اُس وقت تک یتیموں کی پرورش کرتے رہو جب تک وہ بالغ نہ ہوجائیں اور انکو اپنے نقصا ن اور نفعے کا فرق سمجھ میں نہ آجائے۔
امام ابو حنیفہ ؒ نے آخری حد 25 سال مقرر کی ہے کہ اس عمر میں انکو انکا مال واپس کیا جائے ، امین کو چاہئے کہ یتیموں کے مال کو اپنے خرچ میں قطعًا نہ لائے اگر پرورش کرنے والا مالی طور پر مستحکم نہیں ہے کہ وہ یتیم بچے کی پرورش اپنے خرچ پر کر سکے تو وہ یتیم بچے کے مال سے کچھ لیکر اسکی ضروریاتِ زندگی پر خرچ کر سکتا ہے، جب کوئی بچہ یتیم ہوجائے تو محلے کے بزرگوں کا فرض ہے کہ وہ یتیم بچے کے مال کی تفصیل لکھیں اور اسکو امانتدار کے حوالے کردیں اور جب یتیم بڑا ہوجائے تب تفصیل کے مطابق اس کے مال کا حساب کیا جائے ۔
ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے بچوں کی تربیت محبت اور شفقت سے ہو ، اس طرح ہمار بھی یہ فرض ہے کہ ہم یتیموں کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور ان کو بھی اپنے بچوں کی طرح سمجھیں، کیوں کہ یتیم کی مجبوری اور بے بےبسی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی ، کیوں کہ وہ دوسروں کا محتاج ہوتا ہے ، اس لئے اللہ تعالٰی فرماتا ہے : یتیم کے ساتھ ایمانداری برتو اور اس کے ساتھ محبت سے پیش آؤ۔