تزکیے میں اعتدال اور حقیقت بینی کی اہمیت
جب تزکیے کے نام پر احکامَ شریعت کو نظر انداز کیا جاتا ہے توبگاڑ شروع ہوجاتا ہے۔یعنی کوئی اس طرح سوچے کہ ابھی تو ہم غیبت کرتے ہیں،جھوٹ بولتے ہیں اور بھی نجانے کتنے گناہ کرتے ہیں پہلے ہم ان سے نجات پالیں پھر ہم ظاہری احکامات پر عمل شروع کریں گے نماز پڑھیں گے،گھر سے باہر بھی باپردہ ہوکر نکلیں گے،گھر کے اندر کا پردہ بھی کریں گے۔یاد رکھیں کہ یہ تزکیے کے راستے میں ایک بہت بڑا دھوکا ہے۔ان دھوکوں سے بچنا ہے اور اپنے ساتھ نہ بےجا سختی کرنی ہے اور نہ بےجا نرمی۔جہاں تزکیے کا عمل شروع ہوگا،وہاں کئی اخلاقی عیوب سے سامنا ہوگا،ایسا محسوس ہوگا کہ ہر برائی ہمارے اندر موجود ہے۔جیسے وہ طالبعلم جوطب (medical)پڑھتے ہیں اور بیماریوں کی علامات انہیں پتہ چلتی ہیں تو بعض کا کہنا یہ ہے کہ ہر علامت پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ بیماری میرے اندر موجود ہے۔تزکیہ کا معاملہ بھی یہی ہے لیکن جہاں یہ چیز مفید ہے وہاں یہ چیز بعض دفعہ انسان کو مایوسی کی طرف لے جاتی ہے،جھنجھلاہٹ میں مبتلا کردیتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ مایوس نہ ہوں بلکہ تزکیہ نفس کی طلب پیدا کرنے کی کوشش کریں اور پھر اس کے بعد خود کو تھوڑا وقت دیں۔آج ہی سے یہ سلسلہ شروع کردیں۔
ان خرابیوں کو دور ہوتے ہوتے اور اندر سے نکلتے نکلتے وقت لگے گا۔اور شعوری طور پر جان لیں کہ مکمل طور پر برائیوں سے نجات نہیں مل سکتی۔ہم سے فرشتہ بننے کا مطالبہ نہیں کیا گیا بلکہ ہم سے کہا گیا ہے کہ تم اپنا تزکیہ کرتے رہو۔براائیوں پر نظر ضرور رکھو،انہیں پہچانو اور دور کرنے کی کوشش کرتے رہو۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
فَلَآ تُزَكُّوا أنفُسَكُمْ (النجم 32)
"اپنے آپ کو پاک مت سمجھو"
یعنی اپنی پاکیزگی کے دعوے مت کرو۔انسان تو فطرۃَََ کمزور واقع ہوا ہے اور ایک حد تک ہی پاکیزگی حاصل کر سکتا ہے لیکن اس میں احساس اور شعور ہونا چاہئیے،شعوری طور پر اپنے آپ کو درست اور ٹھیک کرتا رہے۔جب انسان اپنے لئے اس طرح کا مبنی برحقیقت ہدف بناتا ہے تو اس کے اندر نہ جھنجھلاہٹ (frustration)پیدا ہوتی ہے اور نہ مایوسی اسے گھیرتی ہے
Bookmarks