Page 2 of 2 FirstFirst 12
Results 13 to 23 of 23

Thread: تزکیہ نفس جاری ہے۔۔۔۔

  1. #13
    rajisiddiqui's Avatar
    rajisiddiqui is offline Senior Member+
    Last Online
    4th April 2024 @ 05:51 AM
    Join Date
    19 Jan 2011
    Location
    Allah's land
    Age
    38
    Gender
    Female
    Posts
    539
    Threads
    229
    Credits
    1,357
    Thanked
    20

    Default

    تزکیے کی راہ میں احتیاط:
    اگر ہم تزکیہ کا عمل شروع کرنا چاہ رہے ہیں تو اس بارے میں محتاط روش اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
    انسان کے اخلاقی عیوب یا برائیاں اُس کی روح پر زخم کی مانند ہوتی ہیں۔جیسے انسان کے جسم پر چوٹ
    لگ جائے تو اسے صفائی کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روح کے زخموں کو بھی صفائی کی
    ضرورت ہوتی ہے۔
    ایک اور بات یہ ہے کہ ہر صفائی کا طریقہ مختلف ہوتا ہے ۔کوئی برتن گندہ ہو جائےتو اسے سختی کے ساتھ
    مانجھا جاتا ہے۔اب اگر اتنی ہی سختی کے ساتھ زخم کو صاف کیا جائے ،اسے رگڑا جائے تو کتنی اذیت اور تکلیف ہوگی اور زخم ٹھیک ہونے کے بجائے مزید خراب ہو جائے گا۔اس لئے ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی
    چاہئیےکہ:" اے اللہ جہاں سختی کی ضرورت ہو وہاں ہمیں سختی کرنے کی ہمّت دے اور جہاں نرمی کی ضرورت ہووہاں نرمی برتنا سکھا دے"
    شیخ حمزہ یوسف کہتے ہین جو اس راستہ کا نیا نیا مسافر بنے اسے ہوشیار رہنا چاہئیے ،خبردار رہنا چاہئیے
    کہ وہ اپنے اوپر بہت زیادہ سختی نہ کرے۔اور دوسری طرف اُسے یہ بھی احتیاط کرنی چاہئیے کہ وہ فرائض
    میں کوتاہی کرنا شروع نہ کر دے۔
    Beaware of being extremely hard on yourself before you obtain mastery over your self & beaware of being too lax in any thing that concern sacred rulings."
    انسان جب تزکیےکا عمل شروع کرتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اسے خیال آئے کہ
    ابھی تو ہمارے اندر ،ہماری نیت میں،خیالات میں اتنا بگاڑ موجود ہے تو پہلے ہم خود کو اندر سے ٹھیک کرتے
    ہیں،اُس کے بعد ہم شریعت کی ظاہری شکل پر عمل شروع کریں گے۔یہ احکامات تو بعد کی باتیں ہیں ہمارے
    تو اپنے اندر بڑی گندگی ہے،پہلے اس کو صاف کر لیں ۔یہ شیطان کی طرف سے ایک بہلاوہ ہے۔دراصل تزکیہ
    کوئی محدود مدّت (time bound)کی چیز نہیں ہے،یہ پہلے یا بعد کا عمل نہیں ہےکہ ہم پہلے یہ کر لیں اور پھر بعد میںشریعت
    پر عمل کریں گے۔دراصل کہاں شریعت کا حکم آئے گا اُس پرعمل ہوتا رہے گا۔اس کے ساتھ ساتھ کچھ غلطیاں
    بھی سرزد ہونگی۔اس لئے تزکیہ نفس بھی ساتھ ساتھ ہی جاری رہے گا ۔ ان غلطیوں کی اصلاح کرتے جائیں گے
    اور شریعت پرعمل کرتے جائیں گے۔یعنی یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ ہیں۔

  2. #14
    rajisiddiqui's Avatar
    rajisiddiqui is offline Senior Member+
    Last Online
    4th April 2024 @ 05:51 AM
    Join Date
    19 Jan 2011
    Location
    Allah's land
    Age
    38
    Gender
    Female
    Posts
    539
    Threads
    229
    Credits
    1,357
    Thanked
    20

    Default

    تزکیے میں اعتدال اور حقیقت بینی کی اہمیت

    جب تزکیے کے نام پر احکامَ شریعت کو نظر انداز کیا جاتا ہے توبگاڑ شروع ہوجاتا ہے۔یعنی کوئی اس طرح سوچے کہ ابھی تو ہم غیبت کرتے ہیں،جھوٹ بولتے ہیں اور بھی نجانے کتنے گناہ کرتے ہیں پہلے ہم ان سے نجات پالیں پھر ہم ظاہری احکامات پر عمل شروع کریں گے نماز پڑھیں گے،گھر سے باہر بھی باپردہ ہوکر نکلیں گے،گھر کے اندر کا پردہ بھی کریں گے۔یاد رکھیں کہ یہ تزکیے کے راستے میں ایک بہت بڑا دھوکا ہے۔ان دھوکوں سے بچنا ہے اور اپنے ساتھ نہ بےجا سختی کرنی ہے اور نہ بےجا نرمی۔جہاں تزکیے کا عمل شروع ہوگا،وہاں کئی اخلاقی عیوب سے سامنا ہوگا،ایسا محسوس ہوگا کہ ہر برائی ہمارے اندر موجود ہے۔جیسے وہ طالبعلم جوطب (medical)پڑھتے ہیں اور بیماریوں کی علامات انہیں پتہ چلتی ہیں تو بعض کا کہنا یہ ہے کہ ہر علامت پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ بیماری میرے اندر موجود ہے۔تزکیہ کا معاملہ بھی یہی ہے لیکن جہاں یہ چیز مفید ہے وہاں یہ چیز بعض دفعہ انسان کو مایوسی کی طرف لے جاتی ہے،جھنجھلاہٹ میں مبتلا کردیتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ مایوس نہ ہوں بلکہ تزکیہ نفس کی طلب پیدا کرنے کی کوشش کریں اور پھر اس کے بعد خود کو تھوڑا وقت دیں۔آج ہی سے یہ سلسلہ شروع کردیں۔
    ان خرابیوں کو دور ہوتے ہوتے اور اندر سے نکلتے نکلتے وقت لگے گا۔اور شعوری طور پر جان لیں کہ مکمل طور پر برائیوں سے نجات نہیں مل سکتی۔ہم سے فرشتہ بننے کا مطالبہ نہیں کیا گیا بلکہ ہم سے کہا گیا ہے کہ تم اپنا تزکیہ کرتے رہو۔براائیوں پر نظر ضرور رکھو،انہیں پہچانو اور دور کرنے کی کوشش کرتے رہو۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
    فَلَآ تُزَكُّوا أنفُسَكُمْ (النجم 32)
    "اپنے آپ کو پاک مت سمجھو"
    یعنی اپنی پاکیزگی کے دعوے مت کرو۔انسان تو فطرۃَََ کمزور واقع ہوا ہے اور ایک حد تک ہی پاکیزگی حاصل کر سکتا ہے لیکن اس میں احساس اور شعور ہونا چاہئیے،شعوری طور پر اپنے آپ کو درست اور ٹھیک کرتا رہے۔جب انسان اپنے لئے اس طرح کا مبنی برحقیقت ہدف بناتا ہے تو اس کے اندر نہ جھنجھلاہٹ (frustration)پیدا ہوتی ہے اور نہ مایوسی اسے گھیرتی ہے

  3. #15
    Join Date
    06 Jan 2014
    Location
    Saudi , Makkah
    Age
    31
    Gender
    Male
    Posts
    3,178
    Threads
    304
    Credits
    2,092
    Thanked
    443

    Default

    JazakAllah

  4. #16
    rajisiddiqui's Avatar
    rajisiddiqui is offline Senior Member+
    Last Online
    4th April 2024 @ 05:51 AM
    Join Date
    19 Jan 2011
    Location
    Allah's land
    Age
    38
    Gender
    Female
    Posts
    539
    Threads
    229
    Credits
    1,357
    Thanked
    20

    Default

    معرفت انسان کی اہمیت"
    چونکہ تزکیہ کسی نفس کا ہوتا ہے اسی لئے اُس نفس انسانی کا دراک ہونا بہت ضروری ہےکہ ہم جانیں کہ انسان کی حقیقت کیا ہے؟جیسے کسی مشین کو کام میں لانا ہو تو اُس مشین کے بارے میں بنیادی معلومات ہونی چاہیئے مثلاَََ اس مے کون کون سے حصے ہیں ،کل پرزے کتنے ہیں ان کا آپس میں ربط کیا ہے،کس طرح چلتے ہیں،اسی طرح انسان کے بارے میں بھی یہ علم ہونا
    ضروری ہے کہ اسکی اصل حقیقت کیا ہے،اس کے مشملات کیا کیا ہیں؟کس حصہ کی کیا اہمیت ہے۔اور اگر ہم اس مشین کو صحیح جگہ استعمال کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں پتہ ہونا چاہئیے کہ اسکی قوت کیا ہے؟اور یہ کیا کچھ کر سکتی ہے؟اگر ہمیں کسی چیز کی قدروقیمت کا احساس نہیں ہوگا تویوں سمجھیں کہ کسی کے پاس ایک قیمتی ہیرا ہےلیکن وہ اس کی قدروقیمت سے ناواقف ہے۔اس کی قیمت کا اندازہ ہی نہیں کہ میرے پاس جو ہیرا ہے یہ کوہِ نور ہے۔جب وہ اسکی قدروقیمت سے ناواقف ہقگا،اس کی اہمیت سےانجان ہوگا،اس کی حقیقت نہ جانتا ہوگا تو وہ یہی سمجھے گا کہ یہ محض ایک کانچ کا ٹکڑا ہے۔وہ اس کو
    بے وقعت سمجھے گا اور ہو سکتا ہے وہ اسے کچرے خانے میں پھینک دے یا کسی پالتو جانور کے گلے میں لٹکا دے یا کھلونا سمجھ کر بچوں کو دے دے۔لیکن جو شخص اس ہیرے کی قدروقیمت سے واقف ہوگا ،اس کی اہمیت و حقیقت سے آشنا ہوگا تو وہ اسے کسی بادشاہ کے حضور پیش کرے گا،کسی قدردان کے پاس لے کر جائے گا۔بالکل اسی طرح اپنی ذات کو درست جگہ پر استعمال کرنے کےلئے ،صحیح ہستی کی غلامی اختیار کرنے کے لئے،صحیح ہستی کی خدمت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کو پہچانیں۔ہم سب کو پتہ ہو کہ میں کون ہوں؟کس قابل ہوں؟کیا میں حقیر سا کانچ کا ٹکڑا ہوں ،جس کو کسی جانور کے گلے میں باندھ دیا جائے؟یا کھلونے کے طور پر برتا جائے؟کیا میں جانوروں کی غلامی کے قابل ہوں؟یا میں اعلیٰ و ارفع ہوں،بہت قیمتی ہوں،انمول ہوں۔نایاب ہوں۔اتنا اعلیٰ کہ کسی بادشاہ کا غلام بننے کے قابل ہوں تو جو قدروقیمت ہماری اپنی نگاہ میں ہوگی اسی کہ مطابق ہم فیصلہ کریں گے کہ ہمیں اپنی جبلت کا تابع رہنا ہے یا اپنی روحانی وجود کے،کیا اس ہستی کی غلامی کروں جو میرا رب ہے،جو کائنات کا بادشاہ ہےیا دنیا کی مال و متاع کی ،اپنے نفس کی؟یہ فیصلہ تو اسی وقت ہوسکے گا جب مجھے اپنے بارے میں علم ہوگا کہ مین کون ہوں ،میں کس قابل ہوں؟ خودشناسی خدا شناسی میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ہم اپنے آپ کو پہچانیں گے تو اپنے رب کی معرفت بھی حاصل کر سکیں گے۔اگر ہم اپنے آپ کو نہیں پہچانیں گے تو اپنے رب کو بھی نہیں پہچان پائیں گے۔
    انسان کے وجود کے کئی پہلو ہیں،کئی جہتیں ہیں۔ایک ہے انسان کی فطرت جو کہ اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے۔سورۃالروم آیت 30 میں ارشادِالہیٰ ہے :
    یہ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت ہے جس پر کہ اللہ نے انسانوں کو بنایا ہے۔"
    کچھ اقدار ایسی ہوتی ہیں جو انسان کسی کے سکھانے سے نہیں سیکھتا بلکہ سیکھا سکھایا دنیا میں آتا ہے۔کچھ اچھائیوں کی پہچان اس کے اندر موجود ہوتی ہے۔مثلا توحید،حیا،الہہ کی فرمانبرداری کرنا فطرت ،میں شامل ہے۔انسان کی فطرت میں گندھی ہوئی ہے۔علم کی طلب اور دوسروں کو سکھانے کا جذبہ بھی انسان کی فطرت میں موجود ہے۔پھر اپنا محاسبہ کرنے کا احساس بھی موجود ہے۔بُرا کام کر کے گناہ کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے۔اسی طرح انسان فطرۃََ یہ احساس لے کر دنیا میں آتا ہےکہ یہ دنیا میرا گھر نہیں ہے۔یہ میرا دائمی ٹھکانہ نہیں ہے،یہ شعور انسان میں موجود ہے۔اس حوالے سے سورۃالبقرہ آیت 30 تا 38 کا مطالعہ مفید رہے گا۔ان آیات میں تخلیقِ آدم کا قصہ بیان ہوا ہے،ان آیات پر تھوڑا سا غور وفکرکرلیا جائے تو بہت سی باتیں سمجھ میں آجاتی ہیں۔ان خوبیوں کے ساتھ کچھ برائیوں کی پہچان بھی انسان میں فطرۃََ موجود یے۔کوئی شخص کسی جنگل میں رہتا ہو،کبھ8ی کسی نبی کی دعوت نہ سنی ہو،نہ دنیاوی تعلیم حاصل کی ہو۔لیکن فطرۃِِ اسے معلوم ہوگا کہ جھوٹ بولنا بُری بات ہے،دھوکہ دینا بُری بات ہے،چوری کرنا بُری بات ہے۔
    پھر اللہ نے الہام کر دی ہے اس پر بدی اور پرہیزگاری۔(الشمس:8)
    چونکہ فطرت کے لحاظ سے ہر انسان مومن ہے لہٰذا مومن بننا کوئی مصنوعی چیز نہیں۔بلکہ پیدائشی طور پر ہر انسان مومن ہوتا ہے۔دینِ فطرت لے کر اس دنیا میں آتا ہے۔چاہے ہندو کہ گھر پیدا ہوا ہو،عیسائی کے گھر،یہودی،آتش پرست کے گھر پیدا ہوا ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    "ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے وہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔یہ تو اس کے والدین ہیں جو یا تو اس کو یہودی بنا دیتے ہیں یا مجوسی۔"
    یعنی فطرت کے اندر بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔فطری طور پر انسانوں کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ فرشتوں سے بڑھ کر مقام حاصل کر لے۔یہ اُس وقت ہوگا جب کہ وہ اپنی فطرت پر قائم رہے۔پھر ہی مسجودِملائک اور اشرف و مخلوقات کہلانے کے لائق ہوگا۔سورۃ التین میں الہہ تعالیٰ نے فرمایا:
    "یقیننا ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر بنایا ہے۔"

  5. #17
    WhoWaleedSaid's Avatar
    WhoWaleedSaid is offline DriNk-dEad
    Last Online
    9th November 2021 @ 01:21 PM
    Join Date
    01 Aug 2016
    Location
    Rawalakot
    Gender
    Male
    Posts
    1,633
    Threads
    74
    Credits
    12,040
    Thanked
    93

    Default


  6. #18
    rajisiddiqui's Avatar
    rajisiddiqui is offline Senior Member+
    Last Online
    4th April 2024 @ 05:51 AM
    Join Date
    19 Jan 2011
    Location
    Allah's land
    Age
    38
    Gender
    Female
    Posts
    539
    Threads
    229
    Credits
    1,357
    Thanked
    20

    Default

    تزکیے کی راہ میں احتیاط:
    اگر ہم تزکیہ کا عمل شروع کرنا چاہ رہے ہیں تو اس بارے میں محتاط روش اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
    انسان کے اخلاقی عیوب یا برائیاں اُس کی روح پر زخم کی مانند ہوتی ہیں۔جیسے انسان کے جسم پر چوٹ
    لگ جائے تو اسے صفائی کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روح کے زخموں کو بھی صفائی کی
    ضرورت ہوتی ہے۔
    ایک اور بات یہ ہے کہ ہر صفائی کا طریقہ مختلف ہوتا ہے ۔کوئی برتن گندہ ہو جائےتو اسے سختی کے ساتھ
    مانجھا جاتا ہے۔اب اگر اتنی ہی سختی کے ساتھ زخم کو صاف کیا جائے ،اسے رگڑا جائے تو کتنی اذیت اور تکلیف ہوگی اور زخم ٹھیک ہونے کے بجائے مزید خراب ہو جائے گا۔اس لئے ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی
    چاہئیےکہ:" اے اللہ جہاں سختی کی ضرورت ہو وہاں ہمیں سختی کرنے کی ہمّت دے اور جہاں نرمی کی ضرورت ہووہاں نرمی برتنا سکھا دے"
    شیخ حمزہ یوسف کہتے ہین جو اس راستہ کا نیا نیا مسافر بنے اسے ہوشیار رہنا چاہئیے ،خبردار رہنا چاہئیے
    کہ وہ اپنے اوپر بہت زیادہ سختی نہ کرے۔اور دوسری طرف اُسے یہ بھی احتیاط کرنی چاہئیے کہ وہ فرائض
    میں کوتاہی کرنا شروع نہ کر دے۔
    Beaware of being extremely hard on yourself before you obtain mastery over your self & beaware of being too lax in any thing that concern sacred rulings."
    انسان جب تزکیےکا عمل شروع کرتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اسے خیال آئے کہ
    ابھی تو ہمارے اندر ،ہماری نیت میں،خیالات میں اتنا بگاڑ موجود ہے تو پہلے ہم خود کو اندر سے ٹھیک کرتے
    ہیں،اُس کے بعد ہم شریعت کی ظاہری شکل پر عمل شروع کریں گے۔یہ احکامات تو بعد کی باتیں ہیں ہمارے
    تو اپنے اندر بڑی گندگی ہے،پہلے اس کو صاف کر لیں ۔یہ شیطان کی طرف سے ایک بہلاوہ ہے۔دراصل تزکیہ
    کوئی محدود مدّت (time bound)کی چیز نہیں ہے،یہ پہلے یا بعد کا عمل نہیں ہےکہ ہم پہلے یہ کر لیں اور پھر بعد میںشریعت
    پر عمل کریں گے۔دراصل کہاں شریعت کا حکم آئے گا اُس پرعمل ہوتا رہے گا۔اس کے ساتھ ساتھ کچھ غلطیاں
    بھی سرزد ہونگی۔اس لئے تزکیہ نفس بھی ساتھ ساتھ ہی جاری رہے گا ۔ ان غلطیوں کی اصلاح کرتے جائیں گے
    اور شریعت پرعمل کرتے جائیں گے۔یعنی یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ ہیں۔

  7. #19
    rajisiddiqui's Avatar
    rajisiddiqui is offline Senior Member+
    Last Online
    4th April 2024 @ 05:51 AM
    Join Date
    19 Jan 2011
    Location
    Allah's land
    Age
    38
    Gender
    Female
    Posts
    539
    Threads
    229
    Credits
    1,357
    Thanked
    20

    Default

    تزکیے میں اعتدال اور حقیقت بینی کی اہمیت

    جب تزکیے کے نام پر احکامَ شریعت کو نظر انداز کیا جاتا ہے توبگاڑ شروع ہوجاتا ہے۔یعنی کوئی اس طرح سوچے کہ ابھی تو ہم غیبت کرتے ہیں،جھوٹ بولتے ہیں اور بھی نجانے کتنے گناہ کرتے ہیں پہلے ہم ان سے نجات پالیں پھر ہم ظاہری احکامات پر عمل شروع کریں گے نماز پڑھیں گے،گھر سے باہر بھی باپردہ ہوکر نکلیں گے،گھر کے اندر کا پردہ بھی کریں گے۔یاد رکھیں کہ یہ تزکیے کے راستے میں ایک بہت بڑا دھوکا ہے۔ان دھوکوں سے بچنا ہے اور اپنے ساتھ نہ بےجا سختی کرنی ہے اور نہ بےجا نرمی۔جہاں تزکیے کا عمل شروع ہوگا،وہاں کئی اخلاقی عیوب سے سامنا ہوگا،ایسا محسوس ہوگا کہ ہر برائی ہمارے اندر موجود ہے۔جیسے وہ طالبعلم جوطب (medical)پڑھتے ہیں اور بیماریوں کی علامات انہیں پتہ چلتی ہیں تو بعض کا کہنا یہ ہے کہ ہر علامت پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ بیماری میرے اندر موجود ہے۔تزکیہ کا معاملہ بھی یہی ہے لیکن جہاں یہ چیز مفید ہے وہاں یہ چیز بعض دفعہ انسان کو مایوسی کی طرف لے جاتی ہے،جھنجھلاہٹ میں مبتلا کردیتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ مایوس نہ ہوں بلکہ تزکیہ نفس کی طلب پیدا کرنے کی کوشش کریں اور پھر اس کے بعد خود کو تھوڑا وقت دیں۔آج ہی سے یہ سلسلہ شروع کردیں۔
    ان خرابیوں کو دور ہوتے ہوتے اور اندر سے نکلتے نکلتے وقت لگے گا۔اور شعوری طور پر جان لیں کہ مکمل طور پر برائیوں سے نجات نہیں مل سکتی۔ہم سے فرشتہ بننے کا مطالبہ نہیں کیا گیا بلکہ ہم سے کہا گیا ہے کہ تم اپنا تزکیہ کرتے رہو۔براائیوں پر نظر ضرور رکھو،انہیں پہچانو اور دور کرنے کی کوشش کرتے رہو۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
    فَلَآ تُزَكُّوا أنفُسَكُمْ (النجم 32)
    "اپنے آپ کو پاک مت سمجھو"
    یعنی اپنی پاکیزگی کے دعوے مت کرو۔انسان تو فطرۃَََ کمزور واقع ہوا ہے اور ایک حد تک ہی پاکیزگی حاصل کر سکتا ہے لیکن اس میں احساس اور شعور ہونا چاہئیے،
    شعوری طور پر اپنے آپ کو درست اور ٹھیک کرتا رہے۔جب انسان اپنے لئے اس طرح کا مبنی برحقیقت ہدف بناتا ہے تو اس کے اندر
    پیدا ہوتی ہے اور نہ مایوسی اسے گھیرتی ہے۔نہ جھنجھلاہٹ (frustration)

  8. #20
    rajisiddiqui's Avatar
    rajisiddiqui is offline Senior Member+
    Last Online
    4th April 2024 @ 05:51 AM
    Join Date
    19 Jan 2011
    Location
    Allah's land
    Age
    38
    Gender
    Female
    Posts
    539
    Threads
    229
    Credits
    1,357
    Thanked
    20

    Default

    تزکیہ اور قرآن
    تزکیہ کا عمل شروع کرنے کے لئے توانائی درکار ہوتی ہے۔اللہ کی آیات پڑھ کر ایمان میں گرمی اور حلاوت آتی ہے،اسی کی مدد سے تزکیہ ہوسکتا ہے،جس طرح توا گرم کر کے روٹی ڈالیں تو صحیح پکتی ہے،نرم ہوتی ہے،مزیدار ہوتی ہے،صحیح آنچ لگتی ہے ،خوب پھولتی ہے۔لیکن اگر ٹھنڈے توے پر روٹی ڈالیں گے تو کچی ہی رہے گی اور سخت ہوکر پاپڑ بن جائے گی۔اسی طرح جب اللہ کی آیات سے دل نرم ہوجاتے ہیں تب تزکیے کا عمل شروع کیا جائے تو فائدہ مند رہے گا۔

  9. #21
    rajisiddiqui's Avatar
    rajisiddiqui is offline Senior Member+
    Last Online
    4th April 2024 @ 05:51 AM
    Join Date
    19 Jan 2011
    Location
    Allah's land
    Age
    38
    Gender
    Female
    Posts
    539
    Threads
    229
    Credits
    1,357
    Thanked
    20

    Default

    معرفتِ انسان کی اہمیت

    چونکہ تزکیہ کسی نفس کا ہوتا ہے اسی لئے اُس نفس انسانی کا دراک ہونا بہت ضروری ہےکہ ہم جانیں کہ انسان کی حقیقت کیا ہے؟جیسے کسی مشین کو کام میں لانا ہو
    تو اُس مشین کے بارے میں بنیادی معلومات ہونی چاہیئے مثلاَََ اس میں کون کون سے حصے ہیں ،کل پرزے کتنے ہیں ان کا آپس میں ربط کیا ہے،کس طرح چلتے ہیں،اسی طرح انسان کے بارے میں بھی یہ علم ہونا
    ضروری ہے کہ اسکی اصل حقیقت کیا ہے،اس کے مشملات کیا کیا ہیں؟کس حصہ کی کیا اہمیت ہے

    اور اگر ہم اس مشین کو صحیح جگہ استعمال کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں پتہ ہونا چاہئیے کہ اسکی قوت کیا ہے؟اور یہ کیا کچھ کر سکتی ہے؟اگر ہمیں کسی چیز کی قدروقیمت کا احساس نہیں ہوگا تویوں سمجھیں کہ کسی کے پاس ایک قیمتی ہیرا ہےلیکن وہ اس کی قدروقیمت سے ناواقف ہے۔اس کی قیمت کا اندازہ ہی نہیں کہ میرے پاس جو ہیرا ہے یہ کوہِ نور ہے۔جب وہ اسکی قدروقیمت سے ناواقف ہوگا،اس کی اہمیت سےانجان ہوگا،اس کی حقیقت نہ جانتا ہوگا تو وہ یہی سمجھے گا کہ یہ محض ایک کانچ کا ٹکڑا ہے۔وہ اس کو
    بے وقعت سمجھے گا اور ہو سکتا ہے وہ اسے کچرے خانے میں پھینک دے یا کسی پالتو جانور کے گلے میں لٹکا دے یا کھلونا سمجھ کر بچوں کو دے دے۔لیکن جو شخص اس ہیرے کی قدروقیمت سے واقف ہوگا ،اس کی اہمیت و حقیقت سے آشنا ہوگا تو وہ اسے کسی بادشاہ کے حضور پیش کرے گا،کسی قدردان کے پاس لے کر جائے گا۔بالکل اسی طرح اپنی ذات کو درست جگہ پر استعمال کرنے کےلئے ،صحیح ہستی کی غلامی اختیار کرنے کے لئے،صحیح ہستی کی خدمت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کو پہچانیں۔ہم سب کو پتہ ہو کہ میں کون ہوں؟کس قابل ہوں؟کیا میں حقیر سا کانچ کا ٹکڑا ہوں ،جس کو کسی جانور کے گلے میں باندھ دیا جائے؟یا کھلونے کے طور پر برتا جائے؟کیا میں جانوروں کی غلامی کے قابل ہوں؟یا میں اعلیٰ و ارفع ہوں،بہت قیمتی ہوں،انمول ہوں۔نایاب ہوں۔اتنا اعلیٰ کہ کسی بادشاہ کا غلام بننے کے قابل ہوں تو جو قدروقیمت ہماری اپنی نگاہ میں ہوگی اسی کہ مطابق ہم فیصلہ کریں گے کہ ہمیں اپنی جبلت کا تابع رہنا ہے یا اپنی روحانی وجود کے،کیا اس ہستی کی غلامی کروں جو میرا رب ہے،جو کائنات کا بادشاہ ہےیا دنیا کی مال و متاع کی ،اپنے نفس کی؟یہ فیصلہ تو اسی وقت ہوسکے گا جب مجھے اپنے بارے میں علم ہوگا کہ مین کون ہوں ،میں کس قابل ہوں؟ خودشناسی خدا شناسی میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ہم اپنے آپ کو پہچانیں گے تو اپنے رب کی معرفت بھی حاصل کر سکیں گے۔اگر ہم اپنے آپ کو نہیں پہچانیں گے تو اپنے رب کو بھی نہیں پہچان پائیں گے۔
    انسان کے وجود کے کئی پہلو ہیں،کئی جہتیں ہیں۔ایک ہے انسان کی فطرت جو کہ اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے۔سورۃالروم آیت 30 میں ارشادِالہیٰ ہے :
    یہ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت ہے جس پر کہ اللہ نے انسانوں کو بنایا ہے۔"
    کچھ اقدار ایسی ہوتی ہیں جو انسان کسی کے سکھانے سے نہیں سیکھتا بلکہ سیکھا سکھایا دنیا میں آتا ہے۔کچھ اچھائیوں کی پہچان اس کے اندر موجود ہوتی ہے۔مثلا توحید،حیا،الہہ کی فرمانبرداری کرنا فطرت ،میں شامل ہے۔انسان کی فطرت میں گندھی ہوئی ہے۔علم کی طلب اور دوسروں کو سکھانے کا جذبہ بھی انسان کی فطرت میں موجود ہے۔پھر اپنا محاسبہ کرنے کا احساس بھی موجود ہے۔بُرا کام کر کے گناہ کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے۔اسی طرح انسان فطرۃََ یہ احساس لے کر دنیا میں آتا ہےکہ یہ دنیا میرا گھر نہیں ہے۔یہ میرا دائمی ٹھکانہ نہیں ہے،یہ شعور انسان میں موجود ہے۔اس حوالے سے سورۃالبقرہ آیت 30 تا 38 کا مطالعہ مفید رہے گا۔ان آیات میں تخلیقِ آدم کا قصہ بیان ہوا ہے،ان آیات پر تھوڑا سا غور وفکرکرلیا جائے تو بہت سی باتیں سمجھ میں آجاتی ہیں۔ان خوبیوں کے ساتھ کچھ برائیوں کی پہچان بھی انسان میں فطرۃََ موجود یے۔کوئی شخص کسی جنگل میں رہتا ہو،کبھ8ی کسی نبی کی دعوت نہ سنی ہو،نہ دنیاوی تعلیم حاصل کی ہو۔لیکن فطرۃِِ اسے معلوم ہوگا کہ جھوٹ بولنا بُری بات ہے،دھوکہ دینا بُری بات ہے،چوری کرنا بُری بات ہے۔
    پھر اللہ نے الہام کر دی ہے اس پر بدی اور پرہیزگاری۔(الشمس:8)
    چونکہ فطرت کے لحاظ سے ہر انسان مومن ہے لہٰذا مومن بننا کوئی مصنوعی چیز نہیں۔بلکہ پیدائشی طور پر ہر انسان مومن ہوتا ہے۔دینِ فطرت لے کر اس دنیا میں آتا ہے۔چاہے ہندو کہ گھر پیدا ہوا ہو،عیسائی کے گھر،یہودی،آتش پرست کے گھر پیدا ہوا ہو۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    "ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے وہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔یہ تو اس کے والدین ہیں جو یا تو اس کو یہودی بنا دیتے ہیں یا مجوسی۔"
    یعنی فطرت کے اندر بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔فطری طور پر انسانوں کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ فرشتوں سے بڑھ کر مقام حاصل کر لے۔یہ اُس وقت ہوگا جب کہ وہ اپنی فطرت پر قائم رہے۔پھر ہی مسجودِملائک اور اشرف و مخلوقات کہلانے کے لائق ہوگا۔سورۃ التین میں الہہ تعالیٰ نے فرمایا:
    "یقیننا ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر بنایا ہے۔

  10. #22
    rajisiddiqui's Avatar
    rajisiddiqui is offline Senior Member+
    Last Online
    4th April 2024 @ 05:51 AM
    Join Date
    19 Jan 2011
    Location
    Allah's land
    Age
    38
    Gender
    Female
    Posts
    539
    Threads
    229
    Credits
    1,357
    Thanked
    20

    Default

    انسان کی فطرت:
    فطرت کا تعلق روح سے ہے اور روح کا حسن فطرت پرقائم رہنے میں ہے۔روح صرف انسان میں ہوتی ہے
    فطرت بھی صرف انسان کی ہوتی ہے۔جانوروں ک کوئی فطرت نہیں ہوتی۔جو انسان فطرت کی سطح پر زندگی گزارتا ہے
    اُس کو دنیا میں چین نہیں آتا۔وہ لوٹ کر اپنے رب کے پا س جانا چاہتا ہےجہاں سے وہ آیا تھا۔دراصل
    روح دنیا کی شے ہے ہی نہیں اسی لئے ہیاں اجنبیت محسوس کرتی ہے۔روح لطیف شے
    ہےیہ لوٹ کر اللہ کے پاس جانا چاہتی ہے،اللہ سے ملاقات کا شوق رکھتی ہے۔دنیا میں
    اس کا دل نہیں لگتاتو جو فطرت پر زندگی گزارتے ہیں آخرت میں ان کا نفس مطمئن
    رہتا ہےسورۃ الفجر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
    يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ

    ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً
    ترجمہ( نیک روح سے خطاب ہوگا)
    "اے نفس مطمئنہ ! واپس لوٹ اپنے رب کی طرف تُو اُس سے راضی،وہ تجھ سے راضی"۔

  11. #23
    Umair47's Avatar
    Umair47 is offline Senior Member+
    Last Online
    3rd March 2024 @ 12:20 PM
    Join Date
    25 Feb 2017
    Age
    24
    Gender
    Male
    Posts
    434
    Threads
    32
    Credits
    5,553
    Thanked
    335

    Default

    Bht khob.

Page 2 of 2 FirstFirst 12

Similar Threads

  1. Replies: 17
    Last Post: 21st November 2021, 01:28 AM
  2. Replies: 1
    Last Post: 17th December 2014, 02:57 PM
  3. Replies: 4
    Last Post: 12th February 2013, 09:41 AM
  4. یاہو مسنجر کے فیچر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    By I T DUNYA in forum Ask an Expert
    Replies: 4
    Last Post: 1st December 2011, 08:19 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •